زندگی کے تقریباََ 30برس سیاسی معاملات کے مشاہدے اور ان کی بابت مسلسل رپورٹنگ کے بعد تھکا نہیں بلکہ اُکتا چکا ہوں۔منیر نیازی کی بیان کردہ ”حرکت تیز تر ہے“ کو بخوبی جان لیا ہے۔انہیں اس کے باوجود ”سفر آہستہ آہستہ“ کا گماں رہا۔ذاتی تجربہ لیکن مجھے ایک پنجابی محاورے میں بتائی اس بصیرت کا قائل کرچکا ہے کہ ”گدھی“ سو جگہ گھوم گھماکر بالآخر ”برگد“ کے اسی درخت تلے آن کھڑی ہوتی ہے جہاں بندھے رہنے کی اسے برسوں سے عادت ہے۔وطن عزیز میں بھی خلق خدا کے لئے کچھ نہیں بدلتا۔”حکومت“ میں بیٹھے چہرے ہی بدلتے رہتے ہیں ان کا رویہ اپنے پیشرو افراد جیسا ہی رہتا ہے۔
پیر کی صبح اٹھتے ہی سوشل میڈیا کے ذریعے خبر ملی کہ افواج پاکستان سے عرصہ ہوا ریٹائر ہوئے ایک جنرل صاحب-امجد شعیب- گرفتار کرلئے گئے ہیں۔ ان کے خلاف ”ریاست کے اداروں“ اور حکومت کے خلاف عوام میں نفرت بھڑکانے کا پرچہ اسلام آباد کے تھانے میں باقاعدہ درج ہوچکا ہے۔اب ریمانڈ اور بعدازاں ضمانت کے حصول کے لئے عدالتوں میں پیشیوں کا سلسلہ چلے گا۔ ربّ کریم سے فریاد ہے کہ اعظم سواتی کی طرح اب ان کے ساتھ وحشیانہ ”ٹارچر“ کی جھوٹی یا سچی کہانیاں بھی زبان زدعام نہ ہوجائیں۔
امجد شعیب کے حوالے سے بات بڑھاتے ہوئے کھلے دل سے اعتراف کرنا ہوگا کہ میں ان کا ہرگز مدا ح نہیں ہوں۔ان سے ایک ہی بار سرسری ملاقات ہوئی اور اس نے خوش گوار تاثر نہیں چھوڑا تھا۔ غالباََ جنرل مشرف کے آخری دنوں کی بات ہے۔میں ان دنوں آج ٹی وی کے لئے ایک ٹی وی شوکا مشتاق منہاس کے ساتھ میزبان ہوا کرتاتھا۔ہمارا شو رات کے گیارہ بجے شروع ہوتا تھا۔اس سے قبل طلعت حسین دس سے گیارہ بجے کے Slot(وقت) میں اپنا شوکرتے تھے۔امجد صاحب ان کے شو کے مہمان تھے۔اسے ختم کرکے نکلے تو میں اپنے شو کے لئے سڑھیاں چڑھ رہا تھا۔مجھے دیکھتے ہی انہوں نے اپنا تعارف اور مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھائے بغیر کسی ناصح کی طرح پنجابی میں سمجھانا چاہا کہ شو کے دوران میں اپنے غصے پر قابو نہیں رکھ پاتا۔مجھے اس ضمن میں احتیاط برتنا ہوگی۔ بزرگانہ شفقت کے بغیر مفت میں فراہم کی اس نصیحت کے بعد وہ سڑھیوں سے نیچے اترنا شروع ہوگئے۔ان کا انداز مجھے پسند نہیں آیا۔یہ سوچتے ہوئے سٹوڈیو کی جانب چل پڑا کہ ساری عمر صحافت کی نذر کردینے کے بعدبھی مجھے ریٹائر جرنیلوں سے اس شعبے کی مبادیات سمجھنا ہوگی۔ ذہن میں باقی رہی عقل نے مگر فوراََ سمجھادیا کہ ٹی وی ماس میڈیا ہے۔اس پر ہوئے شو عوام کی توجہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔امجد صاحب صحافی نہ سہی بہرحال ایک ناظر بھی تو ہیں۔مجھے ان کی رائے کو ”عمومی ”فیڈ بیک“ کی صورت ہی لینا چاہیے ۔
چند برس گزرنے کے بعد مگر دریافت ہوا کہ امجد صاحب فقط ”ناظر“ نہیں ہیں۔ وطن عزیز میں ”پانچویں پشت کی ابلاغی جنگ“ شروع ہوجانے کی داستان گھڑی جاچکی تھی۔اس دوران قوم کو ”راہ راست“ پر رکھنے کے لئے جن ”دفاعی ماہرین“ کے گرانقدر خیالات پاکستان کے ”جاہل عوام“ تک پہنچانا لازم تصور ہوئے ان میں امجد صاحب بھی شامل تھے۔ جس فہرست میں ان کا نام شامل ہوامبینہ طورپروہ ہمیں ”نیک راہ“پر چلانے کو بے چین مقتدر کہلاتے اداروں کے ہاں سے آئی تھی۔ ٹی وی کے ہر دوسرے شو میں ان کی شراکت لازمی ٹھہری۔ ٹی وی کے ذریعے کوئی پیغام پہنچانے کا جو ہنر ہے اس کی مبادیات پر اگرچہ وہ قطعاََ پورا نہیں اترتے تھے۔ ”سہاگن“ مگر وہی کہلاتا ہے جسے ”پیا“ چاہے۔امجد صاحب کا سکرینوں پر چھائے رہنا مجھے ان تین برسوں کے دوران مزید اشتعال دلاتا رہا جن دنوں”مالیاتی مجبوریوں“ کی وجہ سے مجھے کسی بھی ٹی وی سکرین پر نمودار ہونے کی سہولت میسر نہیں تھی۔
مجھے ہرگز خبر نہیں کہ ”پانچویں پشت کی ابلاغی جنگ“ کے دوران صف اول مجاہد ہوتے ہوئے امجد صاحب کی ٹی وی سکرینوں پر رونمائی ”رضا کارانہ“ تھی یا اس کے عوض انہیں ”خفیہ“ کھاتوں سے عوضانہ بھی فراہم کیا جاتا تھا۔ ابلاغ کا طالب علم ہوتے ہوئے یہ بیان کرنے کی جرا¿ت مگر دکھاﺅں گا کہ موصوف ”قلب کو گرمانے“ کی صلا حیتوں سے مالا مال نہیں تھے۔عمران حکومت اور ریاست کی چند پسندیدہ پالیسیوں کے ناقدوں کو رعونت سے ”غدار“ ٹھہراتے ہوئے وہ شاذہی بااثر سنائی د ئے۔
ان دنوں اگر وہ ”جذبہ حب الوطنی“ سے مغلوب ہوکر اپنے ”مادرادارے“ یا موجودہ حکومت کی پالیسیوں سے ناراض محسوس کررہے ہیں تو انہیں اپنے خیالات بیان کرنے کی سہولت بدستور مہیا ہونی چاہیے تھی۔ ان کی گرفتاری یقینا یہ پیغام دے گی کہ ان کے بیان کردہ خیالات واقعتا”انقلابی“ تھے جو عوام کی ”روح کو تڑپا“ رہے تھے۔ان کے خلاف جس انداز میں ایف آئی آر درج ہوئی ہے اس کا متن قانونی اعتبارسے بودا ہے۔ اس کے سقم امجد صاحب کی ضمانت کو یقینی بنائیں گے۔امجد صاحب کی گرفتاری کے دوران مگر ”امپورٹڈحکومت“ پر ”فسطائی“ ہونے کا ا لزام مزید قابل اعتبار سنائی دے گا۔ اس کی وجہ سے جو بدنامی ہوگی اس کا نشانہ موجودہ حکومت کے وزیر اعظم اور ان کے ہمنوا وزراءہی ہوں گے جن کی اکثریت گزشتہ کئی برسوں سے ہمارے عوام کے لئے ”آز ا دی¿ اظہار“ کی ثابت قدم حمایتی تصور ہوتی ر ہی ہے۔کم از کم مجھ ایسے جھکی کو وہ منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے۔
سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ امجد صاحب کئی برسوں سے ”پانچویں پشت کی ابلاغی جنگ“ کے سند یافتہ مجاہد تھے۔یہ سندامجد صاحب کو ان کے ”مادر ادارے“ نے فراہم کی تھی۔ سنا ہے اس ادارے میں ”نظم“ کا ایک مخصوص انداز کئی برسوں سے لاگو ہے۔ امجد صاحب اگر اس ضمن میں ”کوتاہی“ کے مرتکب ہورہے تھے تو انہیں خاموشی سے ”دڑوٹنے“ کو مائل کرنے کے سو طریقے موجود تھے۔انہیں بروئے کار کیوں نہیں لایا گیا اور ”پلس“ کو نام نہاد“ جمہوری حکومت“ کے احکامات پر عملدرآمد کے لئے متحرک کردیا گیا ہے۔
جس بھونڈے انداز میں موصوف کی گرفتاری ہوئی ہے وہ میرے اس شک کو تقویت پہنچارہی ہے کہ عمران خان صاحب کے تشکیل کردہ بیانیے کو ہماری ریاست کے دائمی اداروں کے چند عناصر کی بھرپور حمایت اب بھی مو¿ثر انداز میں میسر ہے۔ وہ سازشی انداز میں اسے بڑھاوادیتے ہوئے شہباز حکومت کے لئے شرمندگی کے اسباب فراہم کئے چلے جارہے ہیں۔