Site icon DUNYA PAKISTAN

فضلے کے ٹیسٹ سے پارکنسن کی پیش گوئی ممکن

Share

یورپی ملک جرمنی کے ماہرین نے انسانی فضلے کے ٹیسٹ سے لاعلاج تسلیم کی جانے والی سنگین بیماری پارکنسن (رعشہ) کی پیش گوئی کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

پارکنسن (رعشے) کی بیماری میں انسان کے ہاتھ اور پائوں سمیت دیگر اعضا لرزتے رہتے ہیں اور اس مرض کا پہلے سے پتا لگانے کا کوئی طریقہ میسر نہیں، تاہم جسم کے لرزنے کو اس کی ابتدائی علامت سمجھا جاتا ہے۔

یہ ایک اعصابی بیماری ہے جس کا براہ راست تعلق دماغ، اعصاب اور خون کی نمایاں ترسیل سے ہے، اب تک کی ہونے والی تحقیقات کے مطابق انسانی جسم اور خاص طور پر ریڑھ کی ہڈی اور دماغ میں ایلفا سینوکلین (Alpha-synuclein) نامی پروٹین بڑھ جانے سے یہ مرض لاحق ہوتا ہے۔

ایلفا سینوکلین (Alpha-synuclein) کی مناسب مقدار ذہن، اعصاب اور دل سمیت دیگر جسم کو بہتر انداز میں کام سر انجام دینے میں مدد فراہم کرتی ہے، تاہم اس کے بڑھنے یا کم ہونے سے بیماریاں ہو سکتی ہیں۔

طبی جریدے نیچر پارکنسن میں شائع تحقیق کے مطابق جرمن ماہرین نے ایلفا سینوکلین (Alpha-synuclein) نامی پروٹین کی مقدار جاننے کے لیے 250 کے قریب رضاکاروں پر تحقیق کی اور سائنسدانوں نے تمام افراد کے فضلے کے نمونے چیک کیے۔

مذکورہ رضاکاروں میں سے 92 افراد پہلے سے ہی پارکنسن کے مریض تھے جب کہ 72 افراد میں نیند کے دوران خراٹے نکالنے، دوسروں کو مکے مارنے یا انتہائی خطرناک خواب دیکھنے والے افراد جب کہ 51 افراد صحت مند تھے۔

ماہرین نے تمام رضاکاروں کے فصلوں کے نمونوں کے ٹیسٹ کرکے ان کے نتائج کا موازنہ کیا، جس سے حیران کن نتائج معلوم ہوئے۔

ماہرین کے مطابق نیند کے دوران خراٹے لینے اور خطرناک خواب دیکھنے والے زیادہ تر افراد کے فضلوں میں ایلفا سینوکلین (Alpha-synuclein) نامی پروٹین کی انتہائی زیادہ سطح پائی گئی۔

نتائج سے معلوم ہوا کہ پارکنسن کے مرض میں مبتلا افراد میں بھی ایلفا سینوکلین (Alpha-synuclein) نامی پروٹین کی موجودگی پائی گئی لیکن ان میں سطح نمایاں کم تھی۔

جب کہ دیگر صحت مند افراد کے فضلوں میں ایلفا سینوکلین (Alpha-synuclein) نامی پروٹٹین کی موجودگی نہیں ملی۔

ماہرین نے نتیجہ اخذ کیا کہ جو افراد نیند کے دوران خراٹے لیتے ہیں، دوسروں کو مکے مارتے ہیں یا انتہائی خطرناک خواب دیکھتے ہیں وہ دراصل (isolated rapid eye movement sleep behavior disorder ) یعنی (iRBD) کی بیماری کا شکار ہوتے ہیں جو ممکنہ طور پر طویل عرصے بعد پارکنسن میں تبدیل ہوسکتی ہے۔

ماہرین نے واضح کیا کہ ان کی تحقیق قبل از وقت پارکنسن کی تشخیص نہیں بلکہ پارکنسن کا سبب بننے والی پروٹین ایلفا سینوکلین (Alpha-synuclein) کی زیادہ سطح کو جانچنے کی تحقیق تھی۔

ماہرین کے مطابق مذکورہ ٹیسٹ کے نتیجے میں ایلفا سینوکلین (Alpha-synuclein) کی سطح کو ہموار کرنے کا علاج کرنے سے مستقبل میں پارکنسن کو روکنا ممکن ہوسکتا ہے۔

ماہرین نے مذکورہ معاملے پر مزید تحقیق کرکے پارکنسن کی قبل از وقت تشخیص کے لیے کوششیں جاری رکھنے پر زور بھی دیا۔

Exit mobile version