پاکستان

حکومت پر سردار کھیتران کو تحفظ فراہم کرنے کا الزام،’جب کسی کے ہاتھ میں وزارت اور ڈنڈا دونوں ہوں تو وہ اپنے خلاف کوئی بات کیسے مانے گا؟‘

Share

بلوچستان کے ضلع بارکھان میں ایک خاتون سمیت تین افراد کی ہلاکت اور خان محمد مری کے خاندان کے افراد کو مبینہ طور پر نجی جیل میں قید رکھنے کے خلاف کوئٹہ میں دیے جانے والے دھرنے کا ایک بڑا مطالبہ یہ تھا کہ ’اس مقدمے کے فیصلے تک سردار عبدالرحمان کھیتران کووزارت سے ہٹایا جائے کیونکہ ان کا کسی اہم سرکاری عہدے پر فائز رہنا غیرجانبدارانہ تحقیقات کی راہ میں رکاوٹ بنے گا‘۔

بی بی سی کو یہ مطالبہ تنویر احمد مری ایڈووکیٹ نے بتایا جو خان محمد مری اور ان کے خاندان کے دیگر افراد کو قانونی معاونت فراہم کر رہے ہیں۔

یاد رہے کہ اس معاملے میں قتل کی ایف آئی آر نامعلوم افراد کے خلاف درج کی گئی ہے۔ سردار عبدالرحمان کھیتران پولیس کی حراست میں ہیں تاہم وہ قتل اور اغوا کے الزامات کی سختی سے تردید کر چکے ہیں۔

یار رہے خان محمد مری کے دو بیٹوں اور ایک خاتون کی لاشیں چند روز قبل بلوچستان کے ضلع بارکھان سے برآمد ہوئی تھیں۔

خان محمد مری نے اپنے دونوں بیٹوں کے قتل اور خاندان کے دیگر افراد کو چار سال تک نجی جیل میں رکھنے کا الزام بلوچستان کے وزیر مواصلات و تعمیرات سردار عبدالرحمان پرعائد کیا ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے تنویر مری کا کہنا تھا کہ اتنے سنگین الزامات کے باوجود اگر ایک شخص کو سرکاری عہدے سے نہیں ہٹایا جائے گا تو اس سے صاف ظاہر ہے کہ حکومت ان کے خلاف قانونی تقاضے پورے کرنے میں سنجیدہ نہیں ہے۔

بعض قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کیس میں شاید خوف کی وجہ سے بہت سارے لوگ گواہی دینے بھی نہیں آئے اور قتل ہونے والے تین افراد میں سے خاتون کا کوئی رشتہ دار تو سرے سے سامنے ہی نہیں آیا۔

بلوچستان کے وزیر داخلہ میرضیا اللہ لانگو کا کہنا ہے کہ بارکھان کا واقعہ صرف ایک جرم نہیں بلکہ ایک سنگین انسانی مسئلہ ہے اس لیے وزیر اعلیٰ نے یہ ہدایت جاری کی کہ اس سلسلے میں کسی بھی قسم کا دباﺅ قبول نہیں کیا جائے گا اور انصاف کے تمام تقاضے پورے کیے جائیں۔

وزیر داخلہ نے کہا کہ سردار عبدالرحمان کھیتران بہانہ بناکر باہر جاسکتے تھے لیکن ایسا کرنے کی بجائے انھوں نے خود جا کر گرفتاری پیش کی جبکہ سردار عبدالرحمان کھیتران نے اپنے خلاف لگائے جانے والے تمام الزامات کو مسترد کیا ہے۔

’جب کسی کے ہاتھ میں وزارت اور ڈنڈا دونوں ہوں تو وہ اپنے خلاف کوئی بات کیسے مانے گا‘؟

@KALEEMTATAK

خان محمد مری کا الزام ہے کہ ان کے خاندان کے آٹھ افراد مبینہ طور پر چار سال سردار عبدالرحمان کھیتران کے نجی جیل میں رہے۔ ان کا الزام ہے کہ ان میں سے دو بڑے بیٹوں کو قتل کر دیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ 20 فروری کو بلوچستان کے علاقے بارکھان کے ایک کنویں سے ایک خاتون اور دو نوجوانوں کی لاش برآمد ہوئی تھی جس کے بعد یہ گمان کیا جا رہا تھا کہ یہ خان محمد مری کی اہلیہ گراناز بی بی اور ان کے دو بیٹوں کی لاشیں ہیں۔

بی بی گراناز کے شوہر خان محمد مری نے الزام عائد کیا تھا کہ ان کی اہلیہ اور سات بچے بلوچستان کے وزیر مواصلات سردار عبدالرحمان کھیتران کی نجی جیل میں قید ہیں۔

تاہم لیویز فورس نے جمعرات کی صبح کوہلو کے علاقے میں کارروائی کرتے ہوئے بی بی گراناز کو ان کی بیٹی اور چار بیٹوں سمیت بازیاب کروا لیا تھا۔

ایک جانب جہاں کنویں سے ملنے والی خاتون کی لاش کی شناخت اب تک نہیں ہو سکی، وہیں محمد خان مری نے ہلاک ہونے والے دونوں نوجوانوں سے متعلق دعوی کیا تھا کہ یہ ان کے بیٹے ہیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’جب وزارت اور ڈنڈا ان کے ہاتھ میں ہے تو وہ کیسے مانیں گے کہ انھوں نے ظلم اور زیادتی کی ہے۔‘

ان کے وکیل تنویر احمد مری نے کہا کہ وہ کیسے یقین کریں کہ اس کیس میں حکومت انصاف کے تقاضے پورے کرے گی جبکہ خان محمد کے بیٹوں کے ساتھ جس خاتون کی لاش بارکھان سے برآمد ہوئی تھی اسے لاوارث قرار دیکر اس کی تدفین کوئٹہ میں کر دی گئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ حکومت کا فرض تھا کہ وہ خاتون کے رشتہ داروں کو تلاش کرتی اور اس کی ’لاش کو بارکھان لے جا کران کے حوالے کرتی۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’اب جب خوف کا اتنا ماحول ہو کہ ایک خاتون کی لاش کو ان کے رشتہ دار لینے کے لیے نہ آ سکیں اور حکومت ان کے ورثا کو تلاش کرنے یا انھیں تحفظ دینے میں ناکام ہو تو وہاں انصاف کے تقاضے کیسے پورے ہوسکیں گے‘۔

انھوں نے کہا کہ تینوں افراد کے قتل کی حد تک ایف آئی آر تو ہوئی اور سردار عبدالرحمان ریمانڈ پر ہیں لیکن جہاں تک خان محمد مری کے خاندان کے افراد کے اغوا، تشدد اور جنسی زیادتی کا معاملہ ہے اس کی ایف آئی آر ابھی تک نہیں کاٹی گئی۔

یاد رہے کہ عبدالرحمن کھیتران کو بدھ کو پولیس نے حراست میں لیا تھا اور جمعرات کی دوپہر انھیں جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کر کے پولیس نے ان کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی تھی جس کے بعد ان کو 10 روزہ جسمانی ریمانڈ پر کوئٹہ پولیس کے حوالے کر دیا گیا ہے۔

ایک سینیئر پولیس اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ سردار عبدالرحمان کھیتران سے قتل کے واقعے کے بارے تفتیش کی جارہی ہے۔

تنویر احمد مری نے بتایا کہ خان محمد مری کی بیوی اور بچوں نے اپنے بیان میں الزام عائد کیا ہے کہ وہ مبینہ طور پر سردار عبدالرحمان کھیتران کے نجی جیل میں تھے۔

انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’اس کے علاوہ بچی اور بچوں نے نہ صرف اپنے بیان میں یہ کہا کہ ان کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا بلکہ ان کی میڈیکل رپورٹ میں بھی اس بات کی تصدیق ہوئی ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ اس لحاظ سے ملزم کے خلاف 365 کے تحت اغوا، 376 اور377 کے تحت جنسی زیادتی کی ایف آئی آر بھی درج ہونی چاہیے لیکن تاحال ایف آئی آر نہیں کاٹی گئی بلکہ ’تاخیر کی جارہی ہے جس کا فائدہ ملزم کو پہنچتا ہے۔‘

انھوں نے الزام عائد کیا کہ چونکہ سردار کھیتران وزیر ہیں اس لیے انھیں ’تحفظ دینے کے لیے کیس کو کمزور اور ہلکا کرنے کے لیے تاخیر کی جا رہی ہے۔‘

بارکھان

کسی مقدمے میں وہ کونسی کمزوریاں ہیں جن کا فائدہ ملزم کو پہنچتا ہے؟

اس حوالے سے سینیئر قانون دان سینیٹر کامران مرتضی ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ ایف آئی آر کے اندراج اور بیانات میں تاخیر کسی بھی مقدمے کے لیے ’انتہائی مہلک‘ ہوتے ہیں اور ان کا فائدہ ملزم کو پہنچتا ہے۔

بارکھان میں خاتون سمیت تین افراد کے قتل کی ایف آئی آر میں ملزم کا نام نہ ہونے سے متعلق کامران مرتضٰی ایڈوکیٹ کا کہنا تھا کہ ایف آئی آر میں نام نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ ایف آئی آر کا مقصد تو قانون کوحرکت میں لانا ہوتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ایف آئی آر میں شروع میں ملزم کا نام نہ ہو لیکن بعد میں اگر اس کے خلاف شواہد آتے ہیں اور وہ انھیں مقدمے سے منسلک کرتے ہیں تو یہ ملزم کو سزا دلوانے کی بنیاد بن سکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ شواہد کا نہ ہونا یا بعد میں ان کا قائم نہ رہنا یا ان میں کسی بھی قسم کے تضاد کا فائدہ ملزم کو پہنچتا ہے۔

’جو حکومت ایک انسان کے رشتہ داروں کو تلاش نہ کر سکے وہ انصاف کے تقاضے کیسے پورے کر سکتی ہے ‘

خان محمد مری
،تصویر کا کیپشنخان محمد مری

سپریم کورٹ کے وکیل اورجوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے رکن راحب بلیدی ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ مارے جانے والے تین افراد میں سے دو نوجوانوں کے وارث آ گئے تھے لیکن جہاں تک خاتون کی بات ہے توانھیں لاوارث قرار دیا گیا اور حکومت نے ان کے رشتہ داروں کو تلاش کرنے کی زحمت تک نہیں کی۔

’خاتون کے ورثا کی گواہی کیس کو مضبوط کرنے میں مددگار ثابت ہوتی لیکن وہ خوف کی وجہ سے خاتون کی لاش تک لینے کے لیے نہیں آئے۔ جب کوئی سامنے نہیں آئے گا تو پولیس کس کو گواہ بنائے گی‘۔

انھوں نے کہا کہ قتل ہونے والی خاتون کا تعلق بارکھان سے تھا اور ان کے رشتہ داروں کو آسانی سے تلاش کیا جاسکتا تھا لیکن ایسا نہیں کیا گیا بلکہ خاتون کی لاش کو لاوارث قرار دیا گیا جو کہ افسوسناک ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارا پراسکیوشن کا نظام کمزور ہے۔ یہاں گواہ کو تو دیکھا جاتا ہے لیکن یہ نہیں دیکھا جاتا کہ گواہی ٹیمپرڈ ہے یا گواہ پر کوئی دباﺅ ہے‘۔

انھوں نے کہا کہ انھیں امید نہیں ہے کہ اس ’کمزور نظام‘ میں اس کیس میں قانون اور انصاف کے تقاضے پورے ہوں گے جبکہ دو مقتول نوجوانوں کے ورثا نے ملزم کی نشاندہی بھی کی ہے لیکن ایف آئی آر نامعلوم افراد کے خلاف درج ہے۔

سرکاری حکام کا موقف

اس حوالے سے بی بی سی نے بلوچستان پولیس کے سربراہ عبدالخالق شیخ سے فون پر رابطہ کرنے کی کوشش کی اور انھیں واٹس ایپ پر پیغام بھی بھیجا گیا لیکن انھوں نے فون اٹھایا نہ ہی پیغام کا جواب دیا تاہم بلوچستان کے وزیر داخلہ میر ضیا اللہ لانگو کا کہنا ہے کہ یہ ایک انسانی مسئلہ ہے اور یہ حکومت اور سیاست سے بالاتر ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’مجھے وزیر اعلیٰ نے ایک فیصد بھی نہیں کہا کہ اس کیس کو ایسا کریں یا ویسا کریں بلکہ یہ کہا کہ سو فیصد میرٹ اور سو فیصد انصاف ہونا چاہیے‘۔

انھوں نے کہا کہ ’پہلے دن سے ہی یہ الزامات لگے کہ حکومت نے سردار عبدالرحمان کھیتران کو جہاز دیا ہے اور وہ جہاز سے بیرون ملک جا رہے ہیں اور کبھی یہ کہا گیا کہ ضیا ان کو اپنی گاڑی میں پھرا رہے ہیں۔

’کچھ لوگوں کو سیاسی فائدہ اٹھانے کے لیے ایک ماحول پیدا کرنا تھا لیکن جتنے تنقید کرنے والے تھے وہ سارے چلے گئے، اب حکومت کے سوا میدان میں اور کون کھڑا ہے‘؟

انھوں نے کہا کہ حکومت اس انسانی مسئلے پر کوئی ’پریشر قبول نہیں کرے گی‘۔

انھوں نے کہا کہ وہ خود پولیس کے ساتھ تعاون کررہے ہیں اور ان پر جونہی الزام لگا تو وہ ڈی آئی جی پولیس کے دفتر گئے اور انھوں نے وہاں خود گرفتاری پیش کی۔

’جو لوگ ایسی باتیں کرتے ہیں ان کو نہ انسانیت سے ہمدردی ہے اور نہ لاشوں سے بلکہ وہ سیاسی فائدہ اٹھانا چاہتے تھے اور وہ اٹھا کر چلے گئے‘۔

اس سوال پر کہ خان محمد مری کا یہ الزام تھا کہ بچے بارکھان میں سردار عبدالرحمان کے مبینہ نجی جیل میں تھے لیکن سرکاری حکام نے ان کی بازیابی کہیں اور سے ظاہر کی تو کیا یہ ملزم کو فائدہ پہنچانے کی کوشش تو نہیں، میر ضیا اللہ لانگو نے کہا کہ ’اس بات کا فیصلہ تو عدالت نے کرنا ہے کہ بچے کہاں سے بازیاب ہوئے، یہ الزامات لوگ اپنا سیاسی قد کاٹھ بڑھانے کے لیے لگا رہے ہیں۔‘

میر ضیا اللہ لانگو نے کہا کہ انھوں نے تمام حکومتی اداروں کو خط لکھا کہ خان محمد کے بچے جہاں بھی ہیں ان کو بازیاب کیا جائے۔

یاد رہے کہ لیویز فورس نے جمعرات کی صبح کوہلو کے علاقے میں کارروائی کرتے ہوئے بی بی گراناز کو ان کی بیٹی اور چار بیٹوں سمیت بازیاب کروا لیا تھا۔

بلوچستان

سردار عبدالرحمان کا کیا کہنا ہے؟

گرفتار ہونے کے باعث سردار عبدالرحمان کھیتران سے رابطہ تو نہیں ہوسکا تاہم اس سے قبل انھوں نے خان محمد مری اور مری اتحاد کی جانب سے لگائے گئے الزامات کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی ساکھ کو مجروح کرنے کے لیے ان پر قتل کا بے بنیاد الزام عائد کیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مارے جانے والے افراد ان کی تحویل میں تھے نہ ہی ان کی کوئی نجی جیل ہے۔

انھوں نے بتایا کہ جس کنویں سے ان افراد کی لاشیں برآمد کی گئی ہیں وہ ان کے گھر سے ڈیڑھ سے دو کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔

انھوں نے سوال کیا کہ ’اگر میں ان کو مارتا تو کیا میں ان کی لاشوں کو اپنے گھر کے قریب ہی کنویں میں پھینکتا؟‘

انھوں نے کہا کہ ’ناصرف میری ساکھ بلکہ میرے علاقے کی ساکھ کو خراب کرنے کی سازش کی گئی ہے۔ ہمارے ضلع کے ایک طرف مری قبائل کا علاقہ کوہلو اور دوسری طرف بگٹی قبائل کا علاقہ ڈیرہ بگٹی ہے۔ کوہلو اور ڈیرہ بگٹی میں بدامنی ہے جبکہ ان کے مقابلے میں ہمارا علاقہ پرامن ہے۔ چونکہ کوہلو اور ڈیرہ بگٹی میں بدامنی کی وجہ سے کچھ نہیں ہو رہا ہے جبکہ بارکھان میں ترقیاتی کام ہو رہے ہیں اس لیے ایک سازش کی گئی ہے تاکہ بارکھان کو بھی بدامنی سے دوچار کیا جائے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ نجی جیل کا پروپیگنڈہ ان کے خلاف آج سے نہیں ہے بلکہ 2014 سے ہے۔

’جب ڈاکٹر مالک کی حکومت تھی تو مجھے اس الزام کے تحت گرفتار کیا گیا اور میں 2018 میں نجی جیل اور دیگر الزامات سے بری ہوا‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’جب بھی الیکشن قریب آتے ہیں تو میرے خلاف اس طرح کا پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے اور اب 2023 میں ایک مرتبہ پھر الیکشن ہونے جا رہا ہے تو ایک مرتبہ پھر میرے خلاف سازش کرکے پروپیگنڈہ کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔‘