ان دنوں ہر طرف سیاست ہی سیاست ہے خبریں سیاسی، تبصرے اور تجزیئے سیاسی ، رویے سیاسی، یوٹیوبرزسیاسی، چوپال سیاسی اور جہاں چار پرانے دوست اکٹھے ہوئے وہاں بھی خوبصورت یادیں شیئر کرنے کی بجائے سیاسی گفتگو شروع ہو جاتی ہے اور ان میں سے ایک یہ خود کو صف اول کا تجزیہ نگار سمجھ رہا ہوتا ہے چلیں ہمارے یہ اور دوسرے دوست اگر کسی مسئلے پر اختلافی گفتگو کرتے بھی ہیںتو انہیں اس کا سلیقہ آتا ہے مگر جب مجھ ایسے لوگ بھی اس پرائی آگ میں کودتے ہیں تو خود بھی جلتے ہیں اور دوسروں کو بھی جھلساتے ہیں ہم ایسے عام لوگ جن کےپاس نہ خبر ہے نہ حالات کا پورا ادراک ہے صرف جذبات ہی جذبات ہیں تو پھر یہ جذبات آپس میں الجھ پڑتے ہیں اورپرانی دوستیاں بھی دائو پر لگ جاتی ہیں ۔
تاہم اس حوالے سے بہت سے ایسے لوگ بھی ہیں جنہیں سیاست سے کوئی دلچسپی نہیں ان کے اپنے اپنے رجحانات ہیں جن کی تکمیل کا کوئی موقع وہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتے اب چند روز قبل علامہ شکم پرورلدھیانوی ایک بار پھر میرے غریب خانہ پر تشریف لائے ،میں نے ان کی توجہ ان کی مرغوب گفتگو سے ہٹانے کے لئے پوچھا ’’علامہ صاحب آپ کو انتخابات ہوتے نظر آ رہے ہیں؟ بولے، میں تو آج تمہاری طرف آیا ہی یہ پتہ کرنے کیلئے تھا کہ انتخابات کب ہورہے ہیں ؟میں نے کہا علامہ صاحب آپ کو انتخابات سے اتنی دلچسپی کیسے پیدا ہو گئی ہے ؟بولے تمہیں تو پتہ ہی ہے انتخابات کا اعلان ہوتے ہی سارا شہر بریانی کی بھینی بھینی خوشبو سے مہک اٹھتا ہے۔ ان دنوں سارا شہر ایک دسترخوان سے دوسرے دستر خوان تک کا ہوتا ہے، ان سیاسی دسترخوانوں کا مزا ہی اور ہے آپ ان کا کھاتے بھی ہیں اور انہیںممنون بھی کرتے ہیں، میں نے عرض کی علامہ صاحب آپ کو ان میں سےجو لوگ چند روز کھلاتے ہیں اس کے بعد پورے پانچ سال وہ سب کچھ آپ کی آنتوں سے نکالنے میں لگے رہتے ہیں۔ علامہ نے یہ سن کر قہقہہ لگایا اور فرمایا میرے پاس ہے ہی کیا جو یہ مجھ سے وصول کریں گے؟ میں نے تو ان کے دسترخوان بھی خالی کرنے ہیں بلکہ ان کے حق میں یا ان کے مخالف کے خلاف تقریریں کرکے ان کی جیبیں بھی خالی کرنا ہوتی ہیں۔
ان دنوں ادھاپہلوان ٹھنڈی کھوئی والا بھی بہت سرگرم ہے، آگے پیچھے بھی اس کی دکان پر لسی پینے جاتا تھا تو وہ مجھے انگریزی فلموں کی ادھی پچدی کہانیاں سنایا کرتا تھا مثلاً مجھے دور سے آتا دیکھ کر وہ اپنی گدی پر بیٹھے رہنے کی بجائے میرے احترام میں کھڑا ہو جاتا اور اکثر پوچھتا ’’قاسمی صاحب ‘‘ آپ نے نابالغ حسینہ دیکھی ہے جس پر میں پسینو پسین ہو جاتا اور وہ بات جاری رکھتے ہوئے کہتا قاسمی صاحب آپ یہ فلم ضرور دیکھیں اور پھر اس کی من گھڑت کہانی مجھے سنانے لگتا مگر آج ملاقات ہوئی تو اس نے پوچھا قاسمی صاحب الیکشن کب کرا رہے ہیں ؟میں نے پوچھا ادھاپہلوان تمہیں الیکشن میں اتنی دلچسپی کیسےپیدا ہو گئی ہے ؟بولا، سر جی آج کل دہی کے صرف پانچ سات کونڈے لگتے ہیں جب کہ الیکشن میں بیس پچیس کونڈے کہیں نہیں گئے جب الیکشن شروع ہوں تو آپ آکر خود دیکھنا میری ہٹی پر کتنی رونق ہوگی باہر سڑک پر بھی کرسیاں بچھی ہوں گی دمادم مست قلندر ہو گا ،اس کے ساتھ ہی اس نے اپنی گدی سے اٹھ کر ناچنا شروع کر دیا ۔
میں ادھاپہلوان کو کیا بتاتا کہ ا لیکشن کب ہونے ہیں یا ہونے ہیں کہ نہیں کہ ابھی تو جوڑ توڑ کا سلسلہ جاری ہے۔ اپنے اپنے حلقوں میں روٹھے ہوئوں کو منایا جا رہا ہے فی الحال انفرادی دعوے کئے جا رہے ہیں اس کے علاوہ کارنر میٹنگز ہو رہی ہیں یار لوگ ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ ان دنوں ’’نیوٹرلز‘‘کس طرف ہیں۔اس کے علاوہ بہت سے متنازع مسائل ہیں، جہاں تک میری ذاتی رائے کاتعلق ہے یہ پورا منظر نامہ میرے سامنے ہے مگر میرے لئے سب سے اہم اور سب سے تشویشناک بات یہ ہے کہ عمران خان نے اپنی تقریروں میں زبان و بیان کے جو جوہردکھائے ہیں ان سے پاکستان اور پاکستان سے باہر موجود پاکستانیوں اور غیر پاکستانیوں کے ذہن بہت آلودہ ہو گئے ہیں، لہٰذا ہٹ دھرمی و بد زبانی عام ہو چکی ہے اب کچھ عرصے سے دوسری طرف سے بھی اسی ’’انداز بیان‘‘ کی پیروی کی جا رہی ہے بلکہ بعض انڈین چینلز پربھی عمران خان کو فوکس کیا جا رہا ہے ملک کو برباد کرنے والی قوتیں اپنے اس گھنائونے کام کا آغاز اس ملک کے باسیوں کو حریف کے طور پر ایک دوسرے کے سامنے کھڑا کرنے سے کرتی ہیں، آہستہ آہستہ اختلافات کو گالی گلوچ میں تبدیل کر دیا جاتا ہے اور ایک وقت آتا ہے کہ جب ملک میں خانہ جنگی کا آغاز ہو جاتا ہے اللہ کرے یہ نوبت نہ آئے لیکن اللہ نے تو وہی فصل اگانی ہے جس کے بیج ہم نے بوئے ہونگے۔