کالم

نیا سال مبارک ہوا کیا

Share

جب کسی کی شادی ہوتی ہے تو عموما” پہلے ایک آدھ ہفتہ ہی میں پتہ چل جاتا ہے کہ مبارک ہوئی یا بس شادی ہوئی۔ اسی طرح نیے سال میں قدم رکھتے ہی پانچ ایک دنوں میں لوگوں کو کہتے سنتے ہیں یہ سال تو شروع ہی بڑا اچھا ہوا یا برا ہوا۔ تو پوچھنا یہ تھا کہ آپ کے لیے نیا سال کیسا رہا۔ ویسے ایک منٹ رکیے اور اس سوال کا جواب دینے سے پہلے زرا یہ بتائیے گا کہ سال یا کسی بھی واقعے کے مبارک ہونے نہ ہونے کا تعین کیسے ہو گا۔ کیا اس میں ہونے والے واقعات سے یا کیا آپ کے موڈ کے رد و بدل سے۔ کیونکہ میرے کچھ پہنچے ہوئے دوست ایسے بھی ہیں جو صرف اپنے موڈ کی بنیاد پر کہتے ہیں کہ “مجھے نہیں لگتا یہ سال کچھ اچھا گزرے گا”، میرے جیسے ناہنجار لوگوں کے استفسار پر وہ صرف اتنا بیان مزید جاری کرتے ہیں کہ “میرا دل نہیں مان رہا”۔ تو ایسے افراد سے تو مزید کچھ توقع نہیں کی جا سکتی۔ لیکن ایک زی شعور انسان کیا یہ بتا سکتا ہے کہ کسی وقت یا واقعے کے مبارک ہونے کی کیا نشانیاں ہوتی ہیں۔

اب کیونکہ بلاگ اور کالم مکالمہ کی صورت نہیں لکھے جاتے تو بہ امر مجبوری مجھے ہی اپنے پوچھے ہوئے سوال پر مزید روشنی ڈالنا ہو گی۔ مجھے لگنے لگا ہے کہ انسان بے انتہا سیلفسینٹرڈ ہوتا ہے اس بات کو میرے ایک شاگرد نے ایک اور پیرائے میں یوں بیان کیا کہ ہر انسان اپنی کہانی کا مرکزی کردار ہوتا ہے۔ تو اس سے مراد یہ ہوئی کہ ہم عموما” وقت اور واقعات کے مبارک ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ بھی بڑی خود غرضی کے ساتھ کرتے ہیں۔ اگر کسی تقریب میں آپ کا پرس یا موبائل کھو جائے تو لوگ ہزار کہیں بڑی مبارک گھڑی تھی آپ اپنے دل میں ہر بار دہراتے رہیں گے کہ کیا خاک مبارک تھی میرا تو نقصان ہو گیا نا۔ اسی طرح آپ کسی مریض کی عیادت کے لیے جائیں اور آپ کا ایسا دوست مل جائے جسے آپ بہت دنوں سے تلاش کر رہے تھے تو آپ کے لیے وہ وقت بڑا مبارک ہو گا لیکن زرا اس مریض سے پوچھئے جس کی آپ تیمار داری کے لیے آئے ہیں۔

اس دنیا میں بہت کم ایسے افراد ہیں جو اپنی ذات سے باہر نکل کر سوچ سکتے ہیں اور جب ان سے ایسا کوئی سوال کیا جائے تو فورا” جواب نہیں دے پاتے۔ ایسا ہی ایک دوست میرا بھی ہے۔ اس کے نزدیک خوشی وہ ہے جس میں ہر موجود شخص خوش ہو، اچھا مذاق وہ ہے جس میں بولنے والے اور سننے والے سب افراد کو ہنسی کا پہلو ملے، یعنی اس کی اپنی خوشی تب مکمل ہوتی ہے جب ان کے آس پاس کے لوگ بھی اس خوشی میں حصہ دار ہوں۔ اس طرح کے افراد کے لیے ہر وہ وقت اور واقعہ مبارک ہوتا ہے جس میں اچھائی ہو نہ کہ صرف ان کے ساتھ اچھا ہو۔ مگر ایسے لوگوں کی زندگی میں کیا کبھی مکمل خوشی اور اطمینان آتا ہو گا۔ یہ بے حد حساس لوگ ہوتے ہیں؛ اوراگر وہ ایسے لمحہ  کی تلاش میں رہتے ہیں جس میں موجود تمام افراد خوش ہوں تو ذرا سوچئے انہیں وہ لمحہ کتنا کم میسر آتا ہو گا۔ طالب علمی کے دور کے بعد میں نے ایسے لمحات بہت کم گزارے ہیں جن میں موجود تمام لوگ خوش ہوں۔

پاکستان میں اکثر محفلوں میں مجھے لگتا ہے کہ کچھ لوگ ناراض ہیں، اس وقت سے یا آس پاس کے لوگوں سے۔ پاکستان کی سڑکوں پر کھڑے رکشہ اور ٹیکسی ڈرائیور سے لے کر بینک میں آئےہوئےلکھپتی تک سب پریشانی چہروں پر سجائے پھرتے ہیں۔ کچھ لوگوں کو دیکھ کر میں سوچتی ہوں کہ جیب میں پوسٹ اٹرکھوں اور انہیں جاتے جاتے اس پر لکھ کر دے دوں “پا جی کدیہسوی لیا کرو”۔ میرا علم اس سلسلے میں ناقص بھی ہو سکتا ہے لیکن مجھے لگتا ہے کہ پاکستان میں نجی سطح پر ہونے والی موسیقی کی محافل، بیٹھک کا کلچر اور خواتین کی گھریلو محافل بھی ہمارے ریڈیکل کلچر کی نظر ہو گئیں۔ گزشتہ برس دبئی جانے کا اتفاق ہوا تو پتہ چلا کہ میری بھتیجی کو دبئی کیوں پسند آیا۔ کچھ لوگوں کو شاید شاپنگ میں مزہ آتا ہو لیکن میرے لیے سب سے اچھا وقت گلوبلولیج تھا جہاں ہر عمر کے افراد مزے میں نے نظر آرہے تھے اور مسلسل موسیقی اور بچوں کی ہنسی کی آوازیں تھی۔ میں نے ایک بار پھر اس بات کا اعادہ کیا کہ سال میں کہیں نہ کہیں ایسا لمحہ ضرور گزارا جائے جس میں وہ آوازیں اور منظر ہو جو اپنے اندر خود ایک پس مسرت احساس ہوں۔

بتائیے گا ضرور کہ نیا سال مبارک ہوا یا نہیں، میرا تو نیا سال شروع ہی ایک بہت پیاری سی کولیگ کے ساتھ موسیقی، ہنسی اور آتش بازی کے ماحول میں ہوا اور مجھے یقین ہے کہ ہ بہت مبارک لمحہ تھا۔