میاں صاحب ابھی واپس نہ آئیں!
مسلم لیگ (ن) میں میاں نواز شریف کی لندن سے واپسی کے حوالے سے متضاد باتیں کی جا رہی ہیں اور کچھ باتیں تو بالکل علم میں آنے والی ہیں، ایک لیگی رہنما نے عوام کویہ خوشخبری سنائی کہ میاں صاحب نہ صرف یہ کہ واپس آ رہے ہیں بلکہ فلاں تاریخ کو فلاں شہر میں عوام سے خطاب بھی کریں گے۔جبکہ بادی النظر میں فی الحال اس کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔
مسلم لیگ میں اس وقت بہت جری اور قربانیاں دینے والی مرکزی اور صوبائی قیادت موجود ہے۔
شہباز شریف سے لے کر خاقان عباسی، مریم نواز، خواجہ آصف، رانا ثنا اللہ، خواجہ سعد رفیق، خواجہ سلمان رفیق، حمزہ شہباز، احسن اقبال اور بے شمار دوسرے رہنمائوں اور کارکنوں کے علاوہ میڈیا کے چند بہت نامور لوگ موجود ہیں، جنہوں نے جمہوریت کے لئےاپنی جان کی پروا بھی نہیں کی۔ وہ کل بھی ڈٹے ہوئے تھے اور آج بھی ڈٹے ہوئے ہیں۔تاہم اس روشن پہلو کے باوجود ایک تاریک پہلو بھی ہے، الیکشن قریب ہیں یا دور ہیں جو بھی صورت حال ہے، اس میں وہ عوام سے صحیح رابطہ قائم نہیں کرسکے بلکہ نہایت جانباز کارکن بھی ان سے رابطہ کرنا چاہیں تو ناکام رہتے ہیں۔
پی ڈی ایم میں شامل دوسری جماعتیں اپنے کارکنان کو نوکریاں دے رہی ہیں، تھانے کچہری کے کام کر رہی ہیں، ٹرانسفر کرا رہی ہیں، مگر مسلم لیگ (ن) اس حوالے سے زیادہ فعال نہیں ہے
چنانچہ کارکنوں میں مایوسی پھیل رہی ہےجبکہ یہی کارکن ہیں جنہوں نے الیکشن میں ان کے لئے کام کرنا ہے،میں غلط بھی ہو سکتا ہوں مگر میرا یہ تاثر ہے کہ مسلم لیگ ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھی ہے اور میاں نواز شریف کے انتظار میں ہے کہ وہ آئیں گے تو مسیحائی کریں گے چنانچہ پارٹی کے اندر بار بار یہ مسئلہ اٹھایا جاتا ہے۔تاہم میاں صاحب کی پاکستان آمد کے سلسلے میں میری اپنی ایک رائے ہے جو غلط بھی ہو سکتی ہے اور اس رائے کے دو حصے ہیں۔
پہلا یہ کہ میاں صاحب کو جن جھوٹے کیسوں میں سزائیں سنائی گئی ہیں ان پر نظرثانی کی جائے، پانامہ کا ڈھنڈورا پیٹا گیا اور اندر سے صرف اقامہ نکلا مگر سزائیں دی گئیں، ایک سزا اس پر بھی سنائی گئی کہ آپ نے اپنے بیٹے سے دس ہزار درہم نہیں لئے اور اس کا ذکر گوشوارے میں نہیں کیا گیا، لہٰذا آپ سزا کے مستحق ہیں۔
ایک کیس میں جج کی آڈیو لیک ہوگئی جس میں وہ کہہ رہا تھا کہ اس سے سزا کا فیصلہ زبردستی کرایا گیا اور یوں میاں صاحب پر کرپشن کا ایک کیس بھی ثابت نہیں ہوا، مگر بھرپور سزائیں ان کا مقدر بنا دی گئیں، میرا ایک شعر ہے ؎
مجھے تو شکل نہیں یاد اپنے منصف کی
مجھے تو یادسزائیں ہیں جو سنائی گئیں
پوری ڈھٹائی اور بے رحمی کے ساتھ یہی سلوک مسلم لیگ کی دوسری قیادت کے ساتھ بھی ہوا۔ اس حوالے سے میری ایک رائے یہ بھی ہے کہ اگر آپ میاں صاحب کو اس صورتحال کے باوجود اپنے درمیان دیکھنا چاہتے ہیں تو پھر جب ان کا طیارہ پاکستان میں لینڈ کرے تو ان کے استقبال کے لئے کم از کم دو تین لاکھ عوام وہاں موجود ہونے چاہئیں اگر آپ ایسا نہیں کر پاتے اور کارکنوں سے ایک طویل دوری کے سبب نہیں کر پائیں گے تو ان کے مخالفین کے لئے مزید مظالم کی ایک اور راہ ہموار ہو جائے گی۔ ان دنوں سارے فیصلے اپنے ہی ظاہری اور ’’باطنی‘‘ دبائو پر کئے جا رہے ہیں۔
میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ اگر ان دونوں میں سے کوئی ایک صورت بھی ممکن نہیں تو پھر آپ الگ اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کی کوشش کریں، میاں صاحب سے ہدایات لیتے رہیں لیکن انہیں پاکستان آنے کے لئے نہ کہیں، وہ اس وقت اپنی عمر کے ستر سال سے بھی کچھ اوپر پورے کرچکے ہیں، دو دفعہ ان کا بائی پاس ہو چکا ہے اور ان میں سے ایک کے دوران ان کی زندگی خطرے میں پڑ گئی تھی، اس کے علاوہ بہت سے چھوٹے بڑے مسائل صحت کے حوالے سے ہیں، چنانچہ جو لوگ ان کی جان کے دشمن ہیں وہ انہیں ایک بار پھر کال کوٹھڑی میں پھینک دیں گے، آپ کو یاد ہے ان کے ساتھ ماضی میں کتنا بہیمانہ سلوک کیا گیا
کراچی سے لاہور تک ہوائی جہاز میں انہیں ہتھکڑیوں میں جکڑ کر لایاگیا انہیں قید و بند کی دوسری سزائوں کے علاوہ ایک ماہ قید تنہائی میں بھی رکھا جا چکا ہے جس سے خوفناک سزا کم ہی کوئی اور ہوگی۔ پاکستانی عوام کے ووٹوں سے منتخب اس وزیراعظم کی حکومتیں تین بار ختم کی گئیں ، اب اگر و ہ آتے ہیں اور انہیں دوبارہ اسی طرح کوئلوں پر چلنا پڑتا ہے تو کیا ان کی صحت اس کی اجازت دے سکتی ہے؟ ظاہر ہے بالکل نہیں۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ لیڈروں کو اس پل صراط سے بہرحال گزرنا پڑتا ہے، پاکستان اور دو چار دوسرے ملکوں کے علاوہ یہ دستور کہاں رائج ہے؟یہ ضروری نہیں کہ ایک ہی شخص کو بار بار اس آگ میں ڈالا جائے جو ٹھنڈی ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی؟ میری رائے یہ ہے کہ اس صورت حال کے متبادل کے طور پر شاہد خاقان عباسی اور مریم نواز یہ خلا پُر کرنے کی کوشش کریں۔
اس صورت میں شاہد خاقان عباسی کے اگر کچھ تحفظات ہیں تو انہیں ایڈریس کرنے کی ضرورت ہے، موجودہ پاکستانی قیادت میں اور بھی بہت سے ایسے نام ہیں ، اپنی قربانیوں اور فہم و ذکاوت کے سبب ان کے قد پہاڑوں کی چوٹیوں کے برابر ہیں تاہم میری رائے میں ان میں سے بہترین انتخاب شاہد خاقان عباسی ہی کا ہے۔ مجھے پارٹی کی اندرونی صورت حال، رقابتوں اور رفاقتوں کا کچھ زیادہ اندازہ نہیں کہ میں اس پورے عرصے میں کسی ایک سے بھی نہیں ملا اور اس سے پہلے بھی اگر کسی سے ملاقات ہوئی ہے تو سال میں دو ایک بار نواز شریف سے جب وہ پاکستان میں ہوتے تھے یا پہلے وقتوں میں شہباز شریف سے گپ شپ ہو جاتی تھی۔ بہرحال کسی بھی فیصلے تک پہنچنے سے پہلے صورتحال کے تمام پہلوئوں پر پوری طرح غور و خوض کرلیں۔