پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ پاکستان کی واضح پالیسی ہے کہ کسی بھی ریاست کے خلاف پاکستانی سرزمین نہ استعمال ہوگی اور نہ ہی پاکستان کسی علاقائی تنازعے میں فریق بنے گا۔
یہ اعلان انھوں نے پیر کو سینیٹ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
انھوں نے کہا کہ پاکستان امن قائم کرنے کی کوششوں کا حصہ تو بن سکتا ہے لیکن آگ کو بھڑکانے کی پالیسی نہ پاکستان کی پہلے رہی ہے اور نہ آج ہے۔
انھوں نے کہا کہ اس حوالے سے دفترِ خارجہ بھی بیان جاری کر چکا ہے جس میں تمام ممالک پر زور دیا گیا ہے کہ وہ احتیاط سے کام لیں کیونکہ خطہ ایک نئی جنگ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
اس موقع پر انھوں نے حکومتِ پاکستان کی اس حوالے سے تشویش سے ایوان کو آگاہ کیا۔
انھوں نے کہا کہ پاکستان سمجھتا ہے کہ جنرل قاسم سلیمانی کے ہلاکت سے مشرقِ وسطیٰ کا خطہ مزید عدم استحکام کا شکار ہوگا اور خاص طور شام اور عراق کی صورتحال مزید بگڑنے کے امکانات زیادہ ہیں۔
شاہ محمود قریشی نے اس حوالے سے خدشے کا اظہار کیا کہ جنرل سلیمانی کی ہلاکت سے ہونے والے منفی اثرات افغانستان پر بھی ہوسکتے ہیں اور وہاں جاری امن معاہدہ متاثر ہوسکتا ہے جس کے لیے پاکستان نے اپنا کردار ادا کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یمن میں حوثی باغی اس ہلاکت کی آڑ میں سعودی عرب پر مزید حملے کر سکتے ہیں جبکہ حزب اللہ بھی اسرائیل کو نشانہ بنا سکتی ہے۔
انھوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ اس سب سے خطے میں اہم ترین شخصیات کے قتل کا نیا سلسلہ شروع ہو سکتا ہے۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستانی قوم اور فوج نے بڑی جانی قربانیاں دی ہیں اور مالی نقصانات اٹھائے ہیں، انھوں نے کہا کہ خدشہ یہ ہے کہ ایک طویل جنگ کے بعد دہشتگردی کے جس جن کو بوتل میں بند کر دیا گیا تھا وہ دوبارہ سر نکال سکتا ہے۔
اس سے قبل اتوار کو پاکستان کی فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے کہا تھا کہ پاکستان کی سرزمین کو کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیا جائے گا۔
فوجی ترجمان کا کہنا ہے کہ پاکستان کے ایران کے خلاف کارروائی کا حصہ بننے کی خبریں محض افواہ اور پروپیگنڈا ہے اور امریکی فوجی تربیتی پروگرام کی بحالی کا بھی اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں۔
میجر جنرل آصف غفور کی جانب سے یہ بیان امریکہ کے فضائی حملے میں ایرانی جرنیل کی ہلاکت اور امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کی پاکستانی بری فوج کے سربراہ سے اس بارے میں رابطے کے بعد سامنے آیا ہے۔
امریکہ نے جمعے کو بغداد میں ایک فضائی حملے میں ایرانی پاسداران انقلاب کی قدس فورس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی کو ہلاک کر دیا تھا۔ اس کے بعد خطے میں حالات انتہائی کشیدہ ہو چکے ہیں اور امریکہ اور ایران ایک دوسرے کو نشانہ بنانے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔
اتوار کو نجی ٹی وی چینل اے آر وائی کو انٹرویو دیتے ہوئے ترجمان نے کہا کہ پاکستان چاہتا ہے کہ خطہ کسی اور جنگ کی جانب نہ جائے اور وہ اس سلسلے میں تمام پرامن کوششوں کی تائید کرے گا۔
انھوں نے بتایا کہ پاکستانی فوج کے سربراہ نے مائیک پومپیو سے بھی کہا کہ خطے کے مختلف ممالک میں کشیدگی کم ہونی چاہیے، اس سلسلے میں تمام متعلقہ ممالک کو تعمیری طرزِ عمل اور ڈائیلاگ سے آگے بڑھنا چاہیے۔
مائیک پومپیو نے اس حملے کے بعد ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا تھا کہ انھوں نے پاکستانی فوج کے سربراہ سے ٹیلی فون پر بات کی جس میں ’قاسم سلیمانی کو ہلاک کرنے کا امریکی دفاعی اقدام‘ زیر بحث آیا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایرانی حکومت کے اقدامات خطے کو غیر مستحکم کر رہے ہیں۔
اس بارے میں بات کرتے ہوئے میجر جنرل آصف غفورنے کہا کہ یہ کوئی پہلی کال نہیں تھی، افغان مصالحتی عمل اور خطے کی سیکیورٹی کو لے کر آرمی چیف کا اہم کردار ہے اور اسی تناظر میں یہ بات ہوئی اور اس واقعے پر دفترِ خارجہ بھی بیان دے چکا ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان کی جانب سے اس حوالے سے اب تک کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے، تاہم پاکستانی دفترِ خارجہ نے تین جنوری کو جاری کردہ ایک پریس ریلیز میں تمام فریقوں پر زور دیا تھا کہ وہ زیادہ سے زیادہ احتیاط سے کام لیں اور مسائل کو سفارتی ذرائع سے اقوامِ متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قانون کے مطابق حل کریں۔
پاکستانی فوج کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ’ہم خطے میں امن کے لیے بھرپور کردار ادا کریں گے اور اسے خراب کرنے کی کسی کوشش کا حصہ نہیں بنیں گے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم اپنی سرزمین کسی کے خلاف استعمال ہونے کی اجازت نہیں دیں گے اور ہر وہ کام کریں گے جو خطے کو امن کی جانب لے کر جائے۔‘
انھوں نے وزیرِ اعظم عمران خان کے ماضی میں دیے گئے بیانات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان امن کے علاوہ کسی فریق کا شراکت دار نہیں بنے گا۔
پاکستان کے ایران کے خلاف کارروائی میں ممکنہ طور پر حصہ بننے کی خبروں پر بات کرتے ہوئے میجر جنرل آصف غفور کا کہنا تھا کہ ’ایسی بہت سی افواہیں گردش میں ہیں، بالخصوص سوشل میڈیا پر، اور اس میں کچھ جانے مانے لوگ بھی بات کر رہے ہیں۔‘
انھوں نے الزام لگایا کہ ’ان افواہوں کو پھیلانے میں انڈیا مرکزی کردار ادا کر رہا ہے۔‘
میجر جنرل آصف غفور کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستانی فوج کے امریکی تربیتی پروگرام کی بحالی کا تعلق ایران کے خلاف امریکہ کی حمایت سے جوڑنا درست نہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’تربیتی پروگرام معطل ہوا تھا اور امریکہ اس پر چار سے پانچ مہینے سے بات کر رہا تھا۔ افواج کے درمیان تعاون تربیتی مشقیں چلتی رہتی ہیں اسے اس واقعے سے منسلک کرنا پروپیگنڈے کا حصہ ہے۔‘
خیال رہے کہ سنیچر کو امریکہ نے پاکستان کے لیے فوجی تربیت کے معطل پروگرام کو بحال کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ سلامتی کے دیگر پروگرام معطل رہیں گے۔
امریکی محکمۂ خارجہ کے شعبۂ جنوبی اور وسط ایشیائی امور کی جانب سے ٹوئٹر پر پاکستان کے لیے فوجی تربیت کے معطل پروگرام کی بحالی کا اعلان کیا گیا۔
امریکہ نے گذشتہ برس دسمبر میں پاکستان کے لیے فوجی تربیت کے معطل پروگرام کو بحال کرنے کا اعلان کیا تھا تاہم تازہ اعلان میں کہا گیا ہے کہ ‘صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کے ساتھ فوجی تربیت کے پروگرام بحال کرنے کی توثیق کی ہے۔’
خیال رہے کہ ایرانی جرنیل پر حملے کے بعد امریکہ خطے میں مستقبل کی صورتحال کے تناظر میں اتحادیوں کی تلاش میں ہے۔ اور پاکستان سے پہلے اس نے ایران کے ایک اور ہمسائے افغانستان کے صدر سے بھی رابطہ کیا تھا۔
تاہم مائیک پومپیو کی اشرف غنی سے گفتگو کے بعد افغان صدر کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا تھا کہ وہ اپنی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔
دفاعی امور کے ماہر تجزیہ نگار عامر رانا نے اس صورتحال پر بی بی سی اردو کی حمیرا کنول کو بتایا کہ پاکستانی فوج اور سیاسی قیادت کو مل کر اس معاملے پر بات کرنی چاہیے اور فیصلہ کرنا چاہیے اور نیوٹرل پوزیشن لے کر بھی پاکستان سفارتی سطح پر فائدہ حاصل کر سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے لیے بہتر حکمتِ عملی تو یہی ہو گی کہ وہ غیرجانبدار رہے۔ سٹریٹیجک جیو پالیٹکس کی جو پیچیدگیاں ہیں ان میں نیوٹرل پوزیشن کی بھی کوئی نہ کوئی اہمیت ہوتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اس سے سفارتی سطح پر بھی اس صورتحال سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔
‘پاکستان کے پاس کشمیر کو لے کر ایک بڑا چیلینج ہے۔ اگر پاکستان کو کوئی سفارتی سطح پر بڑی مدد ملتی ہے، امریکہ کی طرف سے کوئی بڑی مدد ملتی ہے بغیر مشرق وسطیٰ میں کسی مداخلت کے تو میرا خیال ہے کہ اس موقع کو ضرور دیکھنا چاہیے۔آ
’پاکستان کی اس خطے میں بہت اہم پوزیشن ہے اور اس صورتحال کے بعد پاکستان کی سٹریٹیجک اہمیت زیادہ ابھر کر سامنے آئی ہے۔’