رت بدل رہی ہے، موسم بدلنے کا کہیں کوئی اشارہ نہیں۔ اٹھارہویں صدی میں رفیع سوداؔ دودمان چغتائی کے دور انتزاع میں بھی ساکنان کنج قفس کے لئے کم از کم امید کا ایسا کنایہ تو رکھتے تھے کہ صبح کو صبا سوئے گلزار جائے گی۔ ہمارے فیض صاحب اسکندر مرزا اور ایوب خان کے بچھائے دام میں زندانی ہوئے تو غنچہ و گل، حبیب عنبر دست اور مے گلگوں سے محرومی کے عالم میں بھی گویا زیر لب حیرت اور شکوے کے بیچ کاسُر لگاتے تھے، ’عجیب رنگ میں اب کے بہار گزری ہے‘۔ اور اب برادرم فواد حسن فواد کا مجموعہ ’کنج قفس‘ سامنے آیا ہے۔ فواد نے عدالتی ’صادق اور امین‘ کے عہد مجہول میں وعدہ معاف گواہ بننے سے انکار کی پاداش میں دو برس لاہور کی کیمپ جیل میں بسر کئے۔ کچھ عجب نہیں کہ فواد کے حاشیہ خیال کے کسی نہاں گوشے میں مسعود محمود کے انجام کی بازگشت موجود ہو۔ بدنام زمانہ پولیس افسر مسعود محمود نے ذوالفقار علی بھٹو شہید کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں جھوٹا وعدہ معاف گواہ بننا قبول تو کر لیا لیکن پھر پاکستان کی مٹی پر قدم نہیں رکھ سکا۔ 23 ستمبر 1996 کو امریکہ کے کسی دور دراز قصبے میں گمنامی کی موت مر گیا۔ فواد حسن فواد نے مقاومت کا راستہ اختیار کیا اور وہ بھی اس لہجے میں، ’فصیل شہر گرے گی تو فیصلہ ہو گا / فواد میں بھی نشانہ لگا کے بیٹھا ہوں‘۔ فواد حسن فواد کو نوید ہوکہ ’حلقہ در حلقہ کھنچی ہے جیل کی صورت ہر ایک سمت فصیل‘۔ ہر حلقے کے اندر دیدہ و نادیدہ حلقے ہیں، ہر حصار کے گرد ایک اور حصار کھنچا ہے اور فصیل کے پار تاحد نگاہ سنگین فصیلوں کی صف بندی ہے۔ نشانہ باندھنے والوں کے مورچے غیر پختہ ہیں اور پہرے کا دورانیہ طویل ہے۔ سیاسی سپاہ کی وفاداریاں منقسم ہیں اور اہل شہر بے دست و پا ہی نہیں، بے خبر بھی ہیں۔ آئیے اس تناظر میں ایک نظر موجودہ بحران پر ڈال لیں۔
ملک کو سنگین ترین معاشی بحران کا سامنا ہے اور سیاسی بساط کا کوئی مہرہ اپنے مقام پر استوار نہیں۔ موجودہ حکومت پر انگشت نمائی آسان ہے، اسحاق ڈار پر دشنام سہل ہے، شہباز شریف کی گریز پائی پر تنقید دشوار نہیں، عمران خان کی انتشار پسند سیاست پر تبریٰ کیا جا سکتا ہے لیکن ایسا کرنے سے موجودہ بحران کے تار و پود واضح نہیں ہو سکتے۔ گن جائیے کہ پچھلے پچاس برس میں ہم نے کوئی ایسا بجٹ پیش کیا جس میں خسارے کی وعید نہ سنائی گئی ہو۔ کیسے ممکن ہے کہ ایک ملک مالی میزانیے کا خسارہ پورا کرنے کے لئے قرض لیتا ہو اور پھر قرض کی ادائی مزید قرض سے کرتا ہو۔ اور پھر نوحہ کناں ہو کہ قرض جی ڈی پی کے 78فیصد تک جا پہنچا ۔ جیو اسٹرٹیجک کو جیو اکنامک نمونے میں بدلنے کا ارادہ خوشگوار ہے لیکن معیشت تو پیداوار، تجارت اور راہداری کا نام ہے۔ مشرق اور مغرب میں سرحدیں گرم رکھنے سے تو معیشت پر توجہ نہیں دی جا سکتی۔ یہ نسخہ کس وید نے تجویز کیا تھا کہ ہم 1979، 1989، 2001 اور پھر 2021 میں افغانوں کے گلے میں باہیں ڈالے رکھیں گے۔ کابل کے ہوٹل میں ’لذیذ چائے‘ سے لطف اندوز ہونے والے دراصل قوم کے حلق میں آب تلخ کا پیالہ اتار رہے تھے۔ اگر ہر ماہ پچاس لاکھ ڈالر ہمارے ملک سے افغانستان منتقل ہو رہے ہوں تو ہم اپنی کرنسی مستحکم نہیں کر سکتے۔ کھاد، گندم اور چینی وغیرہ کی اسمگلنگ الگ قضیہ ہے۔ عمران خان کی مفروضہ سیاست کے حامی قوم کو مطلع کریں کہ2008 سے 2021 تک کس نے حقیقی سیاسی قوتوں کو دیوار سے لگایا۔ میمو گیٹ اسکینڈل کس کی سازش تھا؟ کیا پاناماا سکینڈل نواز شریف کو سیاسی میدان سے ہٹانے کا ہتھکنڈہ نہیں تھا۔ دنیا کے کس ملک میں انتخابات سے قبل غیر منتخب نگران حکومتوں کا تصور پایا جاتا ہے؟ کیا نیب کا سابق چیئرمین اپنے طور پر مخصوص سیاسی رہنمائوں کو قید کر رہا تھا۔ بینظیر بھٹو اور نواز شریف جیسے رہنماؤں کو بار بار جلاوطن کیوں ہونا پڑتا ہے؟ آصف زرداری کی پندرہ ماہ پر محیط جلاوطنی اور علی وزیر کی بائیس مہینے قید کس کی انا کو تسکین پہنچاتی تھی۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم کو چھ نکات سے زیادہ خطرناک قرار دینے والے یہ کیوں نہیں سمجھے کہ عدالت عظمیٰ کے حکم پر شق 175 (الف) ایزاد کرنے سے تین بنیادی دستوری اداروں میں سے ایک ادارہ پارلیمانی احتساب سے بے نیاز ہو جائے گا۔ عمران خان کہتے ہیں کہ توسیع دینے کے بعد جنرل ( ر) قمر باجوہ کا رویہ بدل گیا۔ کیا عمران ایسے ہی سادہ ہیں کہ قمر باجوہ کے مفادات میں جوہری تبدیلی سے بے خبر تھے۔ سوال تو یہ بھی ہے کہ عمران خان کو مسیحا تسلیم کرنے والے ان کی سفارتی ناتجربہ کاری سے نظر کیوں چراتے رہے۔ اگر دستور میں آرٹیکل 95 موجود ہے تو تحریک عدم اعتماد کے بعد سے پارلیمنٹ ہوا میں کیوں معلق ہے؟ ایسا کیوں ہے کہ آرٹیکل 184 (3) مخصوص حالات میں بیدار ہوتا ہے اور پھر خراٹے لینے لگتا ہے۔ ٹھیک اسی نمونے پر جیسے انتہا پسندی کو بڑے دھارے میں لانے کی خود کاشتہ تحریک لبیک مخصوص وقفوں سے متحرک ہوتی ہے۔ عدلیہ میں اختلافات اور قومی سلامتی کے معاملات کوچہ و بازار میں زیربحث ہیں۔ دو ووٹ کی اکثریت والی حکومت پارلیمنٹ کو موثر نہیں بنا سکتی۔ دو صوبوں میں نگران حکومتوں کے ہوتے ہوئے بنیادی معاشی فیصلے نہیں ہو سکتے۔ مستقل انتظامیہ موجودہ بے یقینی میں مفلوج ہو چکی ہے۔ اگلے چار مہینے میں آٹھ ارب ڈالر ادا کرنا ہیں۔ اب بھی وقت ہے کہ ملک کے اندر اور باہر خیرخواہ آوازوں پر کان دھرا جائے۔ معاشی مشکلات کا بوجھ عوام پر ڈالنے کی بجائے بنیادی معاشی ترجیحات پر نظرثانی کی جائے۔کمرہ عدالت، نادیدہ ایوانوں اور خارجہ معاملات میں شفافیت اختیار کی جائے۔ خرابی ہمارے ستاروں میں نہیں۔ ہم بالشتیے ہیں اور ماضی کے مزاروں پر سر رکھے بلبلا رہے ہیں۔