باغبانی اور تنویر جہاں سے نظریاتی اختلاف
بہت دن ہوئے، گھر کے مختصر سبز قطعے کی ترتیب پر تنویر جہاں سے اختلاف ہو گیا تھا۔ مجھے ان گھڑ پتھروں کی بے ترتیب ٹیکری بنانے میں چند در چند خدشات تھے۔ بے اختیار فریق کے تحفظات حسب معمول مسترد کر دیے گئے۔ خاموش ہو رہا۔ کچھ عرصے بعد جب ناقابل رسائی منطقے سے ضرر رساں حشرات الارض برآمد ہونا شروع ہوئے تو یہ روکری (Rockery) کسی رسمی اعلان کے بغیر ختم کر دی گئی۔ جمہوریت کا بنیادی مفروضہ حقوق اور فیصلہ سازی میں رائے کی مساوات ہے۔ اس برابری کی عدم موجودگی میں حکم اور محکومیت کا بندوبست نمودار ہوتا ہے جس میں مفروضہ ہم آہنگی کو دوام نہیں ہو سکتا۔ اب دیکھئے، 25 مربع فٹ کے بالشت برابر باغیچے پر حق ملکیت کا تنازع تو ہو نہیں سکتا۔ اشتراکی نصب العین سے منحرف ہوئے مدت گزر گئی لیکن ملکیت کے تصور سے نفور ہنوز باقی ہے۔ یہ سوچ کر ہی گھن آتی ہے کہ دنیائے رنگ و بو میں سیر گل کی مختصر مہلت کو چھین جھپٹ کے بدنما خیال سے آلودہ کیا جائے۔ رائے اور ذوق کی بوقلمونی سے البتہ وجود معنویت پاتا ہے۔ ٹیڑھے ترچھے پتھروں کا قضیہ ختم ہوا تو پودوں کے انتخاب پر اختلاف ہو گیا۔ انگریز بہادر ہندوستان آیا تو اس کے ہمراہ میم صاحبہ بھی تشریف لائیں جنہیں اپنے دیس کے گل بوٹے پسند تھے۔ برصغیر کی وسعتوں میں مٹھی بھر انگریز افسر تھے جن کے بار بار تبادلے ہوتے تھے۔ صاحب بہادر کی میم صاحبہ نے گملوں میں موسمی پودے اگانے کا انتظام کر لیا۔ تبادلہ ہوا تو گملے چھکڑے میں رکھ کر اگلی منزل پر لے جائے جاتے تھے۔ ان بدیسی پودوں کی عمر چند ماہ ہوتی تھی۔ مالی بھی مصروف رہتا تھا اور گیروا روغن میں چمکتے گملوں کی قطار بھی بھلی معلوم ہوتی تھی۔ ہم زمین کے بیٹوں کو البتہ شیشم، بکائن، پیپل اور برگد کے پیڑ پسند تھے۔ آم، جامن اور کٹھل کے تناور درختوں کی جڑیں ہمارے زیرزمین پرکھوں سے ہم آغوش ہوتی تھیں۔ سال بہ سال انہیں بڑھتے دیکھنا، رت بدلنے پر نئی کونپلیں دیکھ کر خوش ہونا، موسم بہار میں نئے پتوں پر سورج کی کرنوں کا رقص اور خزاں میں ٹنڈ منڈ شاخوں کی گہری خاموشی میں اگلی رت کا امکان۔
ٹھیک اسی طرح جیسے 75 برس پہلے ہمارے بزرگ اس زمین کو اپنا ملک سمجھ کر لشٹم پشٹم یہاں پہنچے تھے بندہ عاجز نے بھی ایسے ہی کسی خیال خام میں شجرکاری کر لی۔ سکھ چین، انجیر، امرود، آم اور شریفے کے ساتھ ایک پیڑ انار کا بھی بو دیا۔ فروری کے دوسرے ہفتے میں انار کی چمکتی کونپلیں اور انجیر کے ہلکے سبز پات آنکھوں پر لطف کا عجب سامان لئے اترتے تھے۔ تنویر جہاں کو گلہ تھا کہ ان پیڑوں کی چھائوں میں گھاس کی چادر خراب ہوتی ہے۔ انار تو اس لئے کٹ گیا کہ اس کا پولن ضیق النفس میں اضافہ کرتا تھا۔ سکھ چین اس لئے کٹ گیا کہ نگراں کیمرے پر اوٹ کرتا تھا۔ ایک ایک کر کے سب پیڑ کٹ گئے۔ انجیر البتہ باقی ہے مگر کے دن۔ تنویر جہاں کے لان میں گھاس بچھ گئی اور گملوں میں بدیسی پنیری لگا دی گئی۔ یہ چند ماہ کی بہار ہے۔ میعاد ختم ہو گی تو پھر روئیدگی کا یہ مرغزار کہاں۔ تنویر جہاں کی رفاقت میں چھتیس برس گزر گئے۔ اس کے گل بوٹے سلامت رہیں، ہمارے درختوں کی جڑیں ہمارے سینوں میں پیوست ہیں اور ان پر آنے والا برگ و بار ہمارے کاسہ سر کے نیم تاریک منطقے تک پہنچتا ہے۔ موسمی پودے اور بلند و بالا شجر کا نظریاتی اختلاف تو دو انسانوں کے تعلق نہاں کا اشارہ ہے۔ آٹھ لاکھ مربع کلومیٹر پر پھیلے پاکستان کا معاملہ البتہ الگ ہے۔
سیاست دان ہماری زمین میں پیوست گھنا درخت ہے جس سے ہمارا اتفاق اور اختلاف عشرہ در عشرہ اور نسل در نسل قائم رہتا ہے۔ اقتدار تو دھوپ چھائوں کا کھیل ہے، بدلتے موسموں کا تماشا ہے۔ اپنی طبعی عمر گزار کے درخت ختم بھی ہو جاتے ہیں۔ ہمیں بھی ایک روز رخصت ہونا ہے اور اس اطمینان کے ساتھ کہ دھرتی کو سنوارنے والے، فضائوں میں تازہ ہوا کا اہتمام کرنے والے پیڑ ہمارے بعد بھی ایستادہ رہیں گے۔ سرکاری عہدوں کے میعاد ی گملوں میں سجے پودوں کا البتہ کچھ اعتبار نہیں۔ ان سے رشتے کو دوام نہیں۔ توقع بھی نہیں باندھی جا سکتی۔ لمبے سفر میں اتفاقیہ ملاقات کا تعلق ہے۔ ٹوٹا پتا ڈال سے، لے گئی پون اڑا۔ ایسا نہیں کہ آنکھوں کو بھلے معلوم نہیں ہوتے لیکن اس بستی کے باغ اور بن کی یارو لیلا نیاری ہے۔ کھیت کی فصل کا میعادی ٹھیکہ لینے والے زمین کا نصب العین طے کرنا چاہتے ہیں۔ پھر یہ مطالبہ بھی ہے کہ ان کی جواب دہی نہ ہو۔ اسلام آباد سے ان دنوں عجیب خبریں آ رہی ہیں۔ بظاہر سرکاری منصب کی آڑ لے کر شہریوں کو لوٹا گیا ہے اور قوم کو رہن رکھا گیا ہے۔ بہت پہلے عرض کی تھی کہ کوئی اعلیٰ ترین مقصد غلط طریقہ کار کو جواز نہیں بخش سکتا۔ یہ خطرناک اصول قومیں برباد کر دیتا ہے۔ دوسری گزارش تھی کہ جہاں جواب دہی نہیں ہو گی وہاں بدعنوانی ضرور ہو گی اور اسے چھپانے کے لئے نت نئے نظریات اور ڈاکٹرائن گھڑے جائیں گے۔ بالآخر قوم کے ہاتھ خالی رہ جائیں گے۔ شجر کٹ جائیں گے اور موسمی گل بوٹے چند روزہ بہار دکھا کر اپنے کھیت باڑیاں آباد کر لیں گے۔ ہمارا گلشن اجڑ جائے گا۔ یہ سانحہ ہم نے بار بار دیکھا۔ قرۃ العین حیدر کی تصنیف ’ہائوسنگ سوسائٹی‘ پھر سے پڑھئے۔ ایبٹ آباد میں علی احمد خان اور حیدر آباد میں علی حسن جیسے بزرگ صحافی ہمارے درمیان موجود ہیں۔ ان سے مشرقی پاکستان کے سراج گنج بینک کی حکایت دریافت کر لیجئے۔ میں صرف 29 جنوری 2020 کا اشارہ دیتا ہوں۔ حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ میں 11 اور 12 دسمبر کی درمیانی شب مقبول پور سیکٹر کا حوالہ دیکھ لیجئے۔ کیا ہمارا مقسوم یہی ہے کہ ہمارے پیڑ کاٹ دیے جائیں اور گملوں میں بہار دیتے میعادی پودوں کی باڑ ہماری فصل کھا جائے۔
ہمارے شہر میں پستہ قدوں کی حکمرانی ہے
کہ جو سر ان سے اونچا ہو وہ سر باقی نہیں رہتا