ڈھنگ کے کام بھی بے ڈھنگے پن کے ساتھ کرنے کی حکومتی روش پر گزشتہ کالم میں بات ہو چکی ‘ سروس چیفس کے تقرر‘ ان کی مدتِ ملازمت اورتوسیع جیسے اہم معاملے پر قانون سازی کے موجودہ مرحلے میں اپوزیشن کی سب بڑی جماعت بھی ڈھنگ کا مظاہرہ نہیں کر سکی۔ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں‘ دوسری بڑی جماعت ہونے کے ناتے پارلیمانی اپوزیشن کی قیادت مسلم لیگ (ن) کے پاس ہے۔ قومی اسمبلی میں شہباز شریف اور سینیٹ میںراجہ ظفر الحق اپوزیشن لیڈر ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری اور مولانا فضل الرحمن سمیت پارلیمنٹ میں اپوزیشن جماعتوں کی قیادت کا یہ شکوہ بے جا نہیں کہ دور ر س نتائج کے حامل اس اہم ترین مسئلے پر مسلم لیگ (ن ) کو تنہا کوئی فیصلہ کرنے کی بجائے دیگر اپوزیشن جماعتوں سے بھی مشاورت کرنی چاہیے تھی۔قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف‘ جناب نواز شریف کے علاج کے سلسلے میں 19نومبر سے بیرون ملک ہیں۔ان کی یہ طویل غیر حاضری دیگر اپوزیشن جماعتوں کی نجی گفتگوؤں میںموضوعِ بحث رہتی ہے۔ پیپلز پارٹی کے قمر زماں کائرہ نے تو کچھ عرصہ قبل میڈیا سے گفتگو میں اپوزیشن لیڈرکی وطن واپسی کا باقاعدہ ”مطالبہ‘‘ بھی کر دیا تھا‘ لیکن ہم جیسے لوگ جو شریف فیملی (اور خصوصاًدونوں بھائیوںمیں) باہم خلوص و محبت کے غیر معمولی جذبات سے آگاہ ہیں‘ اس حوالے سے شہباز شریف کے ساتھ رعایت کرنے کے حق میں ہیں۔ نومبر کے اوائل میںجب میاں صاحب کو تشویش ناک حالت میں نیب کی تحویل سے سروسز ہسپتال میں لایا گیا‘ ہم نے شہباز شریف کو مچھلی کی طرح تڑپتے دیکھا۔
خواجہ آصف قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی لیڈر ہیں۔ سروس چیفس کے حوالے سے مطلوبہ قانون سازی کے لیے سپریم کورٹ کے حکم کے بعد خواجہ صاحب اور مسلم لیگ(ن) کے دیگر لیڈرزپارٹی کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال‘ سینیٹر پرویز رشید‘ رانا تنویر احمد‘ امیر مقام اور مریم اورنگ زیب لندن گئے۔ مقصد میاں صاحب کی مزاج پرسی کے ساتھ سروس چیفس کے حوالے سے مطلوبہ قانون سازی پر مشاورت (اور رہنمائی) بھی تھا۔ اس کے لیے سنٹرل لندن کے ایک ہوٹل میں شہباز شریف صاحب کے ساتھ طویل میٹنگ ہوئی۔ میاں صاحب کی قیام گاہ ایون فیلڈ اپارٹمنٹس یہاں سے تقریباً 15منٹ کی واک پر ہے۔یہاں میاں صاحب کی مزاج پرسی کے علاوہ مطلوبہ قانون سازی کے حوالے سے پارٹی پالیسی پر بھی بات ہوئی۔ اس دوران حکومت نے سپریم کورٹ کے فیصلے پرریویوپٹیشن دائر کر دی۔ سپریم کورٹ نے 28نومبر کے فیصلے میں قانون سازی کے لیے چھ ماہ دیئے تھے اور اس میں کافی مدت باقی تھی۔ خیال تھا کہ حکومت سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق ‘قانون سازی کی طرف سے پیش رفت سے قبل ریویو کے فیصلے کا انتظار کرے گی۔ اس دوران وفاقی کابینہ کے اجلاس ہوتے رہے۔ 31دسمبر کو کابینہ کے معمول کے اجلاس میں بھی یہ نکتہ ایجنڈے پر نہیں تھا۔پھر ایسا کیا ہوا کہ اگلے روز اس کے لیے کابینہ کا ہنگامی اجلاس بلانا پڑا‘ جس میںاس حوالے سے قانون سازی اور اس عمل کو پارلیمانی قواعد و ضوابط کو معطل کر کے برق رفتاری کے ساتھ مکمل کرنے کا فیصلہ ہوا۔24گھنٹے کے نوٹس پر پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے اجلاس بھی بلالیتے گئے۔اس مرحلے پرپاکستان میں موجود مسلم لیگ(ن) کی قیادت کو دیگر اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ مشترکہ لائحہ عمل کے لیے مشاورت کرنی چاہیے تھی‘ لیکن خواجہ آصف کی زیر صدارت مسلم لیگ(ن) کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں بل کی غیر مشروط حمایت کی خبر آگئی۔خواجہ صاحب کا دعویٰ تھا کہ دسمبر کے اوائل میں لندن کی ملاقات میں میاں صاحب(نواز شریف) نے بھی یہی ہدایت دی تھی۔ یہی لمحہ تھا جب مسلم لیگ (ن) کے وابستگان ‘اس کے خیر خواہوں اور ”ووٹ کو عزت دو‘‘ والے میاں صاحب کے بیانیے پر یقین کرنے والوں میں اضطراب کی لہر دوڑ گئی۔ سوشل میڈیا پر ہاہاکار مچ گئی۔ میڈیا میں مسلم لیگ(ن) کے سول سپر میسی کے نعرے کی حمایت اور وکالت کرنے والوں نے بھی اسے نقد و جرح کے نیزوں پر رکھ لیا تھا ۔ خواجہ آصف اس شب مختلف ٹاک شوز میں بڑی مشکل میں نظر آئے۔ایک اینکر کے اس سوال پر کہ کیا سوشل میڈیا پر ہونے والی تنقید آپ کے علم میں ہے؟ خواجہ نے صاف گوئی سے کام لیتے ہوئے کہا ‘ آپ تنقید کی بات کر رہے ہیں ہمیں تو گالیاں پڑ رہی ہیں۔ وہ پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں اس مسئلے پر ہونے والے شدید اختلاف کا اعتراف بھی کر رہے تھے(ایک اطلاع کے مطابق ‘خواجہ صاحب نے ایک موقع پر پارلیمانی پارٹی کی قیادت سے استعفیٰ کی پیشکش بھی کردی تھی)کہا جاتا ہے کہ جاتی امرا میں مریم کے لیے بھی پارلیمانی پارٹی کے اس فیصلے کی خبر Bomb Shellسے کم نہ تھی۔ انہوں نے بھی پارٹی کی نائب صدارت سے مستعفی ہونے کی دھمکی دیدی تھی۔اس میں سب سے زیادہ حیران کن بات میاں صاحب (نواز شریف ) کی طرف سے غیر مشروط حمایت کاخواجہ آصف کادعویٰ تھا۔
لندن کی ملاقات میں یقینا اس مسئلے پر پارٹی پالیسی پربات ہوئی۔ سپریم کورٹ میں یہ معاملہ اگر چہ موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی ایکسٹینشن کے حوالے سے آیا۔سماعت کے دوران یہ دلچسپ انکشاف سامنے آیا کہ آرمی ایکٹ میں نہ صرف ملازمت کی مدت بلکہ حسبِ ضرورت اس میں توسیع سے متعلق معاملات کے حوالے سے کچھ بھی نہیں۔ اب تک اس حوالے سے جو کچھ ہوتا رہا‘ محضCustoms & Traditionsکے مطابق تھا۔آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ سر پر آچکی تھی۔ سپریم کورٹ نے جنرل باجوہ کو چھ ماہ کی ایکسٹینشن دیتے ہوئے آئندہ کے لیے سروس چیفس کے تقرر‘ ان کی مدتِ ملازمت اور توسیع وغیرہ کے حوالے سے باقاعدہ قانون سازی کا حکم دے دیا۔ اس کے لیے چھ ماہ کی مدت کم نہ تھی۔ اس حوالے سے آئیڈیل صورت تو یہ ہوتی کہ حکومت مسودہ قانون کی تیاری کے لیے پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی بنا دیتی‘ جس طرح 18ویں ترمیم کے لیے تمام پارلیمانی جماعتوں کی نمائندگی کے ساتھ خصوصی کمیٹی بنائی گئی تھی۔ 2008ء کی قومی اسمبلی کے انتخابات کا جماعت اسلامی نے بائیکاٹ کیا تھا‘ قومی اسمبلی میں اس کی نمائندگی نہیں تھی البتہ سینیٹ میں اس کی نمائندگی موجود تھی؛ چنانچہ سینیٹر پروفیسر خورشید احمد نے اس خصوصی کمیٹی میں جماعت کی نمائندگی کی۔ دسمبر کی ملاقات میں نواز شریف نے مطلوبہ قانون سازی کی حمایت ضرور کی ہو گی‘ لیکن کیا اس کا یہ مطلب تھا کہ حکومت جس طرح کا بھی مسودہ قانون لائے اور جس طرح چاہے منظور کرانے کی کوشش کرے‘ مسلم لیگ(ن) اس کی حمایت کرے؛چنانچہ اب علالت کے باوجود میاں صاحب بروئے کار آئے اور خواجہ آصف سمیت پاکستان میں موجود پارٹی لیڈر شپ کے نام ایک خط میں ہدایت کی کہ اس اہم ترین معاملے پر معروف آئینی و قانونی طریق کار کی پابندی کی جائے۔ بل کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کی متعلقہ سٹینڈنگ کمیٹیوں میں زیر بحث لا یا جائے‘ جس کے بعد دونوں ایوانوں میں اس پر اظہارِ خیال ہو۔میاں صاحب کے مجوزہ ٹائم فریم کے مطابق‘ یہ کام 15جنوری تک مکمل ہونا چاہیے۔ 15جنوری تک تو شاید یہ معاملہ نہ جائے ‘البتہ حکومت نے اس کے لیے جو پالیسی بنائی تھی اسے بریک لگ گئی ہے۔
سوموار کی سہ پہر جب یہ سطور قلمبند کی جا رہی تھیں ‘ بل قومی اسمبلی کی سٹینڈنگ کمیٹی میں (دوبارہ) زیر بحث تھا۔ قومی اسمبلی کے بعد( سینیٹ سے منظوری سے قبل )یہ سینیٹ کی سٹینڈنگ کمیٹی میں بھی زیر بحث آئے گا۔میاں صاحب کا خط ڈیمیج کنٹرول کی بروقت ایکسر سائز تھی۔ اس دوران خود مسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی پارٹی میں مخالفت بلکہ”مزاحمت‘‘ کا جو رویہ سامنے آیا‘ سوشل میڈیا پر پارٹی ورکرز نے جس شدید ردِ عمل کا اظہار کیااور اس پر میاں صاحب کا نیا ہدایت نامہ‘ ہمارے خیال میں مسلم لیگ(ن) کے لیے نیک شگون ہے‘ جس سے اس تاثر کی نفی ہوئی کہ مسلم لیگ (ن) ایک انگوٹھا چھاپ جماعت ہے۔