نئے چیئرمین نیب لیفٹیننٹ جنرل (ر) نذیر احمد بٹ کون ہیں اور انھیں کن چیلنجز کا سامنا ہو گا؟
چیئرمین نیب کے عہدے پر لیفٹیننٹ جنرل (ر) نذیر احمد کی تعیناتی کو پاکستان تحریک انصاف ’سیاسی‘ قرار دے رہی ہے اور جماعت کے قائدین کا کہنا ہے کہ اصل قائد حزب اختلاف ان کی جماعت کے شاہ محمود قریشی ہیں، جن سے اس بارے میں مشاورت ہی نہیں کی گئی۔
خیال رہے کہ پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی کے استعفوں کی منظوری کو عدالت نے کالعدم قرار دیا تھا جس کے بعد پی ٹی آئی نے اعلان کیا تھا کہ ان کی طرف سے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شاہ محمود قریشی ہوں گے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے لیفٹیننٹ جنرل (ر) نذیر احمد بٹ کو سنیچر کے روز قومی احتساب بیورو کا نیا چیئرمین تعینات کیا۔
وزیراعظم کے دستخط سے جاری ہونے والے نوٹیفکیشن کے مطابق ان کی تعیناتی وزیراعظم اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف راجہ ریاض کے درمیان سوچ بچار کے بعد کی گئی۔
دوسری جانب عمران خان نے نئے چیئرمین نیب کی تعیناتی کو وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے خود کو بچانے کی کوشش قرار دیا ہے۔
چیئرمین نیب کی تعیناتی کیسے ہوتی ہے؟
اس حوالے سے قانون میں طریقہ کار درج ہے جس کے مطابق چیئرمین نیب کے عہدے کے لیے سب سے پہلی ترجیح ایسے شخص کو دی جاتی ہے جو سپریم کورٹ کا چیف جسٹس یا جج یا پھر ہائیکورٹ کا چیف جسٹس رہا ہو۔
دوسرے نمبر پر پاکستانی فوج کے ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل یا دیگر مسلح افواج میں سے ان کے عہدے کے برابر کوئی ریٹائر افسر بھی اس عہدے کے اہل ہوتے ہیں۔
تیسرے نمبر پر بائیسویں گریڈ سے ریٹائر ہونے والے وہ سرکاری افسران ہیں جو نیب کے چیئرمین کے عہدے کے لیے اہل سمجھے جاتے ہیں۔
نامزد افراد کے ناموں پر وزیراعظم اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف مشاورت کرتے ہیں اور جس نام پر دونوں کو اتفاق ہو، وہی شخص ایک مخصوص مدت کے لیے قومی احتساب بیورو کا سربراہ مقرر کیا جاتا ہے۔
نیب کے نئے چیئرمین کون ہیں؟
پاکستانی فوج کی 40 ایف ایف رجمنٹ سے تعلق رکھنے والے لیفٹیننٹ جنرل (ر) نذیر احمد 67ویں لانگ کورس سے فوج میں کمیشن ہوئے تھے جبکہ سنہ 2018 میں ریٹائر ہوئے۔
اس دوران وہ اہم عہدوں پر تعینات رہے جن میں بطور بریگیڈیئر وہ تین وزرائے اعظم کے ساتھ ملٹری سیکرٹری کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ ان میں شوکت عزیز، نگران وزیراعظم محمد سومرو اور بعدازاں پاکستان پیپلز پارٹی کے دورحکومت کے پہلے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی شامل ہیں۔
لیفٹیننٹ جنرل ریٹائر نذیر بٹ امریکہ میں پاکستان کے دفاعی اتاشی جیسی اہم پوسٹنگ پر بھی تعینات رہے ہیں۔
انھوں نے دہشتگردی کے خلاف جنگ کے دوران سابق فاٹا میں ایک انفینٹری ڈویژن بھی کمانڈ کی اور پاکستان ملٹری اکیڈمی (پی ایم اے) کے کمانڈنٹ رہے۔
سنہ 2014 میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے انھیں لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی دی جس کے بعد نذیر بٹ پہلے جی ایچ کیو میں ہی کمیونیکیشنز اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی برانچ کے سربراہ مقرر ہوئے۔ اس کے بعد وہ نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے صدر اور بعدازاں کور کمانڈر پشاور کے طور پر فوج سے ریٹائر ہوئے۔
نیب میں ان کی تعیناتی ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب ملک میں سیاسی عدم استحکام بڑھتا جا رہا ہے اور مختلف سیاسی حلقے جہاں خود نیب کے متنازعہ ہونے کی بات کر رہے ہیں وہیں سیاسی بنیادوں پر مقدمات قائم کرنے کا بیانیہ بھی عام ہے۔
اس حوالے سے گزشتہ ماہ ریٹائر ہونے والے چیئرمین آفتاب سلطان کا نام لیا جا رہا ہے کہ ان کے مستعفی ہونے کی وجہ نیب مقدمات کے حوالے سے سیاسی دباؤ تھا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کی تعیناتی موجودہ حکومتی اتحاد نے اس وقت کی تھی، جب یہ اقتدار میں آئے تھے۔
سابق چیئرمین نیب آفتاب سلطان نے رواں ماہ استعفی دیا۔ انھیں گزشتہ برس جولائی میں وزیراعظم شہباز شریف نے اس وقت تعینات کیا تھا جب سابق چیئرمین جسٹس ریٹائر جاوید اقبال نے عہدہ چھوڑا۔
پولیس سروس سے تعلق رکھنے والے آفتاب اقبال اس سے قبل انٹیلجنس بیورو کے سربراہ رہے تھے اور سنہ 2018 میں ریٹائر ہوئے۔ انھوں نے سپریم کورٹ کے حکم پر اس وقت بطور ایڈیشنل آئی جی پولیس پانچ ہزار صفحات پر مشتمل بینک آف پنجاب کیس کی انکوائری رپورٹ بھی تعینات کی تھی جب اعلیٰ عدلیہ نے اس معاملے میں نیب کی تحقیقات کو مسترد کر دیا تھا۔
اپنے استعفی کے بعد انھوں نے جیو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’مجھے کچھ ایسے کام کرنے کو کہا گیا جو میرے لیے قابلِ قبول نہیں تھے۔ میں نے انھیں بتایا کہ میرے لیے ان شرائط کے ساتھ کام کرنا ممکن نہیں۔ میرا استعفی قبول ہو گیا اور یہ معاملہ ایک مثبت نوٹ کے ساتھ ختم ہوا۔‘
ان سے قبل اس عہدے پر جسٹس ریٹائر جاوید اقبال تعینات تھے جو گزشتہ برس اس وقت اپنے عہدے سے سبکدوش ہوئے جب ان کی تعیناتی سے متعلق صدارتی آرڈیننس کی مدت معیاد ختم ہوئی۔
’پی ٹی آئی اور ن لیگ میں نیا جھگڑا شروع ہونے کا موقع فراہم ہو گیا‘
عمران الحق خان، جو نیب کے سابق ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل تھے اور اس سے قبل وہ سپریم کورٹ میں ڈپٹی اٹارنی جنرل رہے ہیں، کہتے ہیں کہ سب سے پہلا مسئلہ ایک سابق فوجی افسر کی تعیناتی ہے۔
عمران الحق کہتے ہیں کہ ’فوج کا کام احتساب کرنا نہیں، فوج کے بندے لگانے کا مطلب یہ ہے کہ مشرف کی پالیسیوں کو آگے چلایا جائے گا لیکن اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ راجہ ریاض کے ساتھ مشاورت کا کوئی جواز نہیں کیونکہ ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی کے استعفے خارج کر کے پی ٹی آئی اراکین اسمبلی کو بحال کر دیا۔ اس طرح وزیرعظم کو تکنیکی اور اخلاقی طور پر بھی نئے اپوزیشن لیڈر کا انتظار کرنا چاہیے تھا۔‘
وہ سمجھتے ہیں کہ یہ تعیناتی جلد ہی کسی عدالت میں چیلنج ہو گی اور یوں یہ معاملہ خودبخود ہی ختم ہو جائے گا لیکن ان کی اس رائے سے سابق پراسیکیوٹر جنرل نیب عرفان قادر اتفاق نہیں کرتے۔
ان کے خیال میں پی ٹی آئی کے اراکین باقاعدہ اپوزیشن کا کردار کرنے سے تو نالاں رہے ہیں مگر یہ چاہتے ہیں کہ انھیں ان کی مرضی کے مواقع پر کردار سونپا جائے۔
انھوں نے کہا کہ ’پی ٹی آئی کا یہ پوائنٹ آف ویو غلط ہے کہ اپوزیشن لیڈر کے طور پر ان کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی سے مشاورت ہونی چاہیے تھی۔ پی ٹی آئی کے دس لوگوں کے استعفے شروع میں قبول ہوئے تو خود پی ٹی آئی نے کہا تھا کہ ان کے تمام استعفے قبول کیے جائیں۔ یہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں پی ٹی آئی کا اپنا مؤقف تھا۔ یہ تو خود اسمبلیاں چھوڑ کر بھاگ گئے۔ اگر پی ٹی آئی سیاسی عمل میں اپنا کردار ادا کرنا چاہتی تھی تو وہ تحریک عدم اعتماد کے بعد اسمبلیوں میں آتے اور حزب اختلاف کے بینچوں پر بیٹھتے۔‘
یہی رائے سیاسی تجزیہ کار سہیل وڑائچ کی ہے جن کے خیال میں حکومت نے موجودہ قائد حزب اختلاف سے ہی مشاورت کرنی تھی، جو کی گئی۔
’میری اطلاع کے مطابق یہ نام تجویز ہی راجہ ریاض نے کیا اور اگر یہ درست ہے تو میرے خیال میں یہ تعیناتی نہایت احسن طریقے سے ہوئی۔ پی ٹی آئی کا یہ مؤقف کہ ان کا لیڈر آف اپوزیشن ہے، کوئی معنی نہیں رکھتا۔‘
البتہ تجزیہ کار نسیم زہرہ کہتی ہیں کہ یہ اس حوالے سے ایک اہم تعیناتی ہے کہ انھوں نے مل کر ایک آئینی اور آزاد ادارے کا سربراہ تعینات کیا لیکن یہ تعیناتی یقیناً متنازعہ ہو جائے گی کیونکہ اپوزیشن سے مشاورت شامل نہیں۔
’پی ٹی آئی تو یہ کہے گی کہ انھوں نے اپوزیشن لیڈر لگانا تھا جس سے مشاورت ہونی چاہیے تھی۔ مجھے لگتا ہے کہ موجودہ حالات میں یہ تعیناتی کچھ بہت زیادہ اثر نہیں ڈالے گی سوائے اس بات کے، کہ اس سے پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ن کے درمیان ایک نیا جھگڑا شروع ہونے کا موقع فراہم ہو گیا ہے۔‘
ایک سابق فوجی کی تعیناتی سے متعلق سوال کے جواب میں عرفان قادر نے کہا کہ ’اس عہدے پر آفتاب سلطان پولیس سروس سے تھے، اس سے پہلے سپریم کورٹ کے جج، اس سے پہلے بیوروکریٹ اور ان سے قبل بھی ایک سپریم کورٹ کے جج تھے۔ آخری بار تو سنہ 2007 میں ایک فوجی ریٹائرڈ جنرل آئے تھے (یہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ شاہد عزیز تھے)‘
وہ کہتے ہیں کہ ایسا نہیں کہ چیئرمین نیب احتساب سے بالاتر ہیں جیسا کہ عام تاثر دیا جاتا ہے بلکہ صدر پاکستان کے پاس اختیار ہے کہ وہ چیئرمین نیب کو ان کے عہدے سے ہٹا دیں۔
تاہم عمران الحق کے مطابق تھری سٹار کی تعیناتی قانونی ہے مگر موجودہ حالات میں ’تمام انگلیاں اسٹیبلشمنٹ کی جانب اٹھ رہی ہیں اور ملک کے موجودہ حالات کا ذمہ دار بھی انھیں سمجھا جاتا ہے۔ اس وقت اس میں کوئی شک نہیں کہ شہباز شریف بھی اسٹیبلشمنٹ کے کندھے پر بندوق رکھ کر وار کر رہے ہیں۔‘
نئے چیئرمین نیب کو کن چیلنجز کا سامنا ہو گا؟
نئے چیئرمین نیب کو رواں برس کن بڑے چیلنجز کا سامنا رہے گا، خاص طور پر ایک ایسے وقت میں جب ملک میں سیاسی صورتحال پیچیدہ ہے اور سیاسی بنیادوں پر مقدمات بننے کے بیانات بار بار سامنے آ رہے ہیں۔
اس میں سب سے بڑا چیلنج تو خود اس ادارے کی ساکھ بحال کرنا ہے۔ خود سیاسی جماعتیں بھی اپنے اپنے بُرے وقت میں نیب کو سیاسی احکامات پر چلنے والا ادارہ کہتی رہتی ہیں۔
تو یہ ساکھ کیسے بحال کی جا سکتی ہے، اس بارے میں عرفان قادر کہتے ہیں کہ چیئرمین نیب کے لیے لازم ہے کہ وہ احتساب کا عمل کراس دی بورڈ رکھیں اور سب کے لیے قانون کی ایک ہی لاٹھی ہونی چاہیے۔
’اگر سیاستدانوں کا احتساب ہونا ہے تو سب سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے افراد کا ہو۔ دوسرا یہ کہ تمام طریقہ کار شفاف ہو۔ وہ لوگ جنھوں نے بڑی کرپشن کی، ان کے لیے کوئی معافی نہیں ہونی چاہیے لیکن یہ خیال رکھا جائے کہ ادارہ کسی کی تذلیل اور عزت سے کھیلنے کے لیے استعمال نہ ہو، جس کے ساتھ زیادتی ہوئی اسے انصاف ملنا چاہییے، جہاں عوام کا پیسہ کھایا گیا وہ واپس ہونا چاہیے۔‘
عرفان قادر کہتے ہیں کہ چیئرمین نیب یقینی بنائیں کہ لوگوں کے خلاف مقدمات اس وقت بنیں جب ان کے پاس ثبوت موجود ہوں، کسی کو تنگ کرنے کے لیے کیس قائم نہیں ہونے چاہیے لیکن عمران الحق کے مطابق نیب میں رہتے ہوئے آزادانہ کام کرنا اور شفافیت برقرار رکھنا ’ناممکن‘ ہے۔
اس حوالے سے انھوں نے کہا کہ وہ خود جب نیب کا حصہ تھے تو یہ ان کے لیے ایک مشکل دور تھا۔
’میں خود اس ادارے کا حصہ رہا ہوں اور یہاں کسی صورت آزادانہ اور شفافیت سے کام نہیں ہو سکتا۔ یہاں تعیناتی اسی صورت میں ممکن ہے جب آپ حکم ماننے کے عادی ہوں ، جو ایسا نہیں کرتے وہ اس ادارے کا حصہ نہیں رہ سکتے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ دباؤ قبول کرنا یا نہ کرنا چیئرمین نیب کی شخصیت پر منحصر ہے۔
’یہ ایک طاقتور اور آزاد ادارہ ہے اس کو دباؤ قبول کرنا ہی نہیں چاہیے لیکن بدقسمتی سے ماضی میں ہم نے یہی دیکھا ہے کہ یہاں تعینات ہونے والے افراد، چاہے وہ پراسیکیوٹر جنرل ہوں یا چیئرمین، وہ کہیں نہ کہیں کومپرومائیز ہو کر آتے ہیں۔ یہی ہماری تاریخ رہی ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کو وہی بندہ چاہیے ہوتا ہے جو ان کی بات مانے۔‘
دوسری جانب نسیم زہرہ کہتی ہیں کہ ہر نیب چیئرمین کا یہی پہلا چیلنج ہوتا ہے کہ ’اپنی ساکھ کو کس طرح برقرار اور قائم رکھے۔ ایسا نہ ہو کہ آئی بی اور ایف آئی اے کے سربراہان کی طرح یہ بھی عہدہ چھوڑ کر چلے جائیں کہ ہم پر بہت دباؤ ہے۔‘
نسیم زہرہ مزید کہتی ہیں کہ ’نئے چیئرمین نیب کے سامنے بڑا سوال اور چیلنج یہی ہے کہ کیا وہ ایک ایسے سربراہ کے طور پر نظر آئیں گے جو سیاسی ہے یا ایک ایسا افسر جو میرٹ پر عمل کرتا ہے؟‘