Site icon DUNYA PAKISTAN

بیانیے کی وفات اور محکمہ زراعت

Share

مسلم لیگ ن والے دوسری بار یتیم ہوئے ہیں۔ پہلی بار تب ہوئے تھے‘ جب میاں نواز شریف کسی کو بتائے بغیر جنرل پرویز مشرف سے دس سال تک پاکستان واپس نہ آنے کی ڈیل کر کے سو صندوقوں اور صدیق پہلوان سمیت چپکے سے جدے کھسک گئے تھے اور دوسری بار اب جب انہوں نے اسمبلی میں آرمی ایکٹ میں ”حکومتی منشا‘‘ کے مطابق ‘ترمیم کے لیے اپنی پارلیمانی پارٹی کو غیر مشروط حمایت کا حکم دیا ہے؛ حالانکہ یتیم تو یتیمی تو یتیمی ہی ہوتی ہے ‘کیا چھوٹی کیا بڑی؟ لیکن اس بار والی یتیمی پہلے والی سے بڑی یتیمی ہے۔ پہلے والی میں لوگوں کے پاس مجبوریوں کا جواز تھا۔ اس بار تو وہ بھی نہیں ہے۔
حالیہ یتیمی کے صدمے کا اندازہ لگانا حتمی طور پر تو ممکن نہیں‘ تاہم میں نے یہ اندازہ اپنے چند دوستوں کی مایوسی‘ اداسی‘ چڑچڑے پن اور لٹکے ہوئے منہ سے لگانے کی کوشش کی اور کسی حد تک کامیاب بھی ہوا ہوں۔ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ مخاطب آپ کو گالیاں نکالنا چاہتا ہے‘ مگر بوجوہ ایسا کر نہیں پا رہا ہوتا تو وہ پھر ایسی صورت ِ حال میں بات بات پر خود کو گالیاں نکالتا ہے۔ آپ کے دائیں بائیں چاند ماری کرتا ہے اور اپنا مافی الضمیر کسی نہ کسی حد تک آپ تک پہنچا دیتا ہے۔ اپنے جذبات کو کسی طور آپ تک منتقل کر دیتا ہے۔ یہی صورت ِ حال اس وقت میاں نواز شریف کے چاہنے والوں کو درپیش ہے اور وہ وہی کچھ کر رہے ہیں ‘جو میں آپ کو اوپر بتا چکا ہوں۔ وہ سارے نظام کو گالیاں نکال رہے ہیں۔ مجبوریوں کو برا بھلا کہہ رہے ہیں۔ اپنی محبت کو حماقت قرار دے کر خود کو گالیاں نکال رہے ہیں۔ اپنی ساری سیاسی سوجھ بوجھ پر سب و ستم کر رہے ہیں۔ زور آوروں پر لعن طعن کر رہے ہیں۔ میاں صاحب کی ساری سیاست پر تین حرف بھیج رہے ہیں۔ گالیوں کی گولہ باری کرتے ہوئے اچانک رک کر جب وہ صرف اور صرف ”کچیچیاں‘‘ لیتے ہیں تو صاف پتہ چل جاتا ہے کہ وہ اپنی محبت کے ہاتھوں مجبور ہو کر میاں صاحب کو براہ راست برا بھلا نہ کہہ سکنے کا غصہ بہرطور اس طرح نکال رہے ہیں۔
میں نے کچھ عرصہ پہلے اپنے ایک دوست صحافی کا قصہ بیان کیا تھا۔ میں اور وہ امریکہ اور برطانیہ کے سفر میں اکٹھے تھے او رکئی دن‘ بلکہ کئی ہفتے دن کا بیشتر حصہ اکٹھے ہوتے تھے۔ میرے وہ دوست میاں نواز شریف کی محبت کے اسیر ہیں۔ وہ میاں نواز شریف کے ”مرحوم بیانیے‘‘کے بڑے عاشق تھے اور عشق کا تو آپ کو معلوم ہی ہے کہ سر چڑھ کر بولتا ہے۔ سو‘ وہ دوست اس مجاہدانہ بیانیے کے خالق پر قربان اور اس بیانیے پر جان دینے کی حد تک (کم از کم زبانی کلامی کی حد تک تو میں گواہ ہوں) مر مٹے ہوئے تھے۔ میاں نواز شریف تب وزارت عظمیٰ سے فارغ ہو چکے تھے۔ میرا وہ دوست میاں صاحب کی استقامت کو ہمالیہ جیسی بلندی اور ثابت قدمی سے تشبیہہ دیتا تھا اور کہتا تھا کہ میاں صاحب اس بار جدے جانے کا داغ دھونے پر آئے ہوئے ہیں اور جیل میںجان تو دے دیں گے ‘مگر اپنے بیانیے سے ایک انچ پیچھے نہیں ہٹیں گے(یہ ایک انچ بھی میں نے یوں سمجھیں کہ مبالغہ کرتے ہوئے محاورے کی مجبوری کے طفیل بڑھا چڑھا کر زیادہ کر دیا ہے۔ ان کے خیال میں وہ ایک ملی میٹر بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے) ۔
ایسے ہی باتوں باتوں میں میں نے ان سے میاں شہباز شریف کی ”حکمت عملی‘‘ کی جانب اشارہ کیا تو وہ دوست باقاعدہ پھٹ پڑے اور میاں شہباز شریف کی حکمت عملی کے بارے میں ایسے الفاظ استعمال کیے کہ مہذب الفاظ میں اسے صرف بزدلی‘ منافقت‘ دونمبری اور غداری سے ہی تشبیہہ دی جا سکتی ہے۔ وہ میاں نواز شریف کے بیانیے کے مقابلے میں میاں شہباز شریف کا نام سننے پر بھی تیار نہ تھا اور اپنی ساری محبت‘ عقیدت اور بے پایاں وفاداری کی سو فیصد شرح کو مزید دس بار ضرب دے کر میاں نواز شریف اور ان کے بیانیے کے ساتھ کھڑا تھا اور میاں شہباز شریف کو اس سارے معاملے میں صفر نمبر تو کجا باقاعدہ نیگیٹو مارکنگ کرتے ہوئے منفی ریٹنگ عطا کر رہا تھا۔
میں نے محض شغل کی خاطر اپنے اس دوست کو کہا کہ آپ گو کہ منہ سے تو نہیں کہہ رہے‘ مگر آپ کے دلی جذبات او ردل کی تہہ میں پوشیدہ خواہش کو اگر میں واقعی کسی حد تک سمجھ سکا ہوں تو آپ چاہتے ہیں کہ فی الوقت میاں نواز شریف کے ساتھ ساتھ میاں شہباز شریف بھی کسی طور کسی کیس میں پھنس جائیں اور میاں نواز شریف کی نااہلی کے ساتھ ساتھ آپ میاں شہباز کی ابھی تک وزارتِ عالیہ پر متمکن ہونے پر دکھی ہیں۔ میرے اس دوست کے چہرے پر رونق آ گئی۔ وہ کہنے لگا؛ آپ کا اندازہ بالکل درست ہے۔
اپنے اندازے کی درستی پر میرا حوصلہ بڑھا تو میں نے اپنے اس دوست سے کہا کہ اگر وہ برا نہ منائیں تو میرا ذاتی خیال ہے کہ انہیں میاں نواز شریف کی نااہلی کے دکھ سے کہیں زیادہ ملال یہ ہے کہ میاں شہباز شریف ابھی تک پنجاب کے وزیراعلیٰ ہیں۔ وہ دوست اب کھل کر ہنسا اور کہنے لگا؛ آپ بالکل درست بوجھے ہیں۔ مجھے میاں نواز شریف کی نااہلی کے دکھ سے زیادہ افسوس اس بات پر ہے کہ میاں شہباز شریف ابھی تک اقتدار کے مزے لے رہا ہے۔ مجھے زیادہ مزہ اس میں آئے گا کہ میاں نواز شریف بھلے سے بحال نہ ہو ‘لیکن شہباز شریف نہ صرف فارغ ہو‘ بلکہ پکا پکا نااہل ہو تاکہ میرے دل کو ٹھنڈ پہنچے۔
میں نے کہا؛ آپ کی میاں شہباز شریف سے کوئی ذاتی رنجش تو نہیں لگتی کہ آپ بڑے دھیمے مزاج کے آدمی ہیں اور میں نے اس سفر کے دوران آپ سے تحمل اور برداشت جیسی چیز سیکھنے کی ‘حتی الامکان اور مقدور بھر کوشش کی ہے۔ کسی سے ذاتی دشمنی آپ کا مزاج نہیں‘ تو پھر یہ کیوں؟ وہ کہنے لگا؛ دراصل میاں شہباز شریف کا بیانیہ میاں نواز شریف کے بیانیے کی نفی ہے‘ بلکہ میاں نواز شریف کے بیانیے کی پیٹھ میں گھونپا جانے والا چھرا ہے اور میاں نواز شریف کے اعلیٰ مقصد سے غداری ہے۔ میں نے ہنس کر کہا؛ گویا میاں شہباز شریف پر میاں نواز شریف کے بیانیے سے غداری پر آپ انہیں میاں نواز شریف کے بیانیے کے آرٹیکل6کے تحت ٹرائل کرنے پر اتر آئے ہیں؟ میرے اس دوست کے چہرے پر اس کی مخصوص مسکراہٹ آئی اور وہ کہنے لگا؛ آپ میری توقع سے زیادہ سمجھدار ثابت ہو رہے ہیں۔
گزشتہ چار پانچ روز کے درمیان میں نے بہت سے دوستوں کو جو اس بار میاں نواز شریف کی ثابت قدمی پر شرطیں لگانے کو تیار تھے۔ اس حد تک مایوس اور نااُمید دیکھا ہے کہ انہیں 10دسمبر 2000ء کو میاں نواز شریف کے پوری پارٹی کو بے یارومددگار چھوڑ کر جانے پر بھی نہیں دیکھا تھا اور تو اور گزشتہ ایک ہفتے سے چودھری آصف بھی ن لیگ کو چھوڑ کر اسٹیبلشمنٹ کی پارٹی میں شمولیت اختیار کر گیا ہے کہ بقول اس کے ”کیا ہم ہی پاگل رہ گئے ہیں؟‘‘۔ میں نے فون اٹھایا اور اپنے اسی صحافی دوست کو کال ملائی۔
میں نے پوچھا کہ میاں نواز شریف کے بیانیے کا کیا بنا؟ کہنے لگے؛ وہ میاں نواز شریف کا نہیں دراصل ہمارا بیانیہ تھا۔ میاں نواز شریف تو اس بیانیے کو‘ یعنی ہمارے بیانیے کو دھکا لگا رہا تھا۔ جب تک لگا سکا لگا لیا۔ اب ‘ کوئی اور آئے گا۔ اگر نہیں آئے گا تو ہم کسی کے آنے کا کم از کم انتظار تو کر سکتے ہیں۔ میں نے کہا؛ چلیں آپ تو ابھی بھی پراُمید ہیں ‘ان کا کیا بنے گا ‘جو ایک پنجابی محاورے کے مطابق ”ڈھیری ڈھا‘‘ بیٹھے ہیں؟ جو بالکل بیٹھ ہی گئے ہیں ‘بلکہ لیٹ گئے ہیں۔
وہ کہنے لگا؛ دراصل یہ بیانیے سے نہیں شخصیت پر اندھے اعتماد کا نتیجہ ہے کہ اس سول بیانیے کو میاں نواز شریف کا بیانیہ
سمجھنے والے سیاسی یتیم کی صورت ”پھوڑی‘‘ پر بیٹھے ہیں اور ہر تعزیت کرنے والے کو رونی صورت بنا کر کہہ رہے ہیں ”حکم ربی‘‘ میں نے کہا برادرِ عزیز! ابھی میاں نواز شریف کے بیانیے کی ”رسم قل‘‘ بھی ٹھیک طرح سے نہیں ہوئی اور نئے نئے چیئرمین پبلک اکائونٹس کمیٹی رانا تنویر صاحب نے فرمایا ہے کہ ”خلائی مخلوق‘‘ سے ہماری مراد الیکشن کمیشن تھا۔ وہ دوست آگے سے صرف ہنس کر خاموش ہو گیا۔
میں منتظر ہوں کہ کوئی مسلم لیگ ن والا یہ بیان بھی دے کہ ہماری محکمہ زراعت سے مراد واقعتاً محکمہ زراعت ہی تھی اور اس محکمے کی اُلٹی سیدھی حرکتوں اور غیر متعلقہ کاموں میں دخل دینے پر ہماری تنقید اُصولی تھی۔ آج آپ خود دیکھ لیں اس محکمے کی نااہلی اور اصل کام پر توجہ نہ دینے کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ بہاولپور ڈویژن میں عموماً اور چولستان وغیرہ میں خصوصاً ٹڈی دل کا حملہ شدت اختیار کر گیا ہے۔ فصلیں تباہ ہو رہی ہیں اور کاشتکار پریشان ہیں۔ ہم اِسی والے محکمہ زراعت پر تنقید کرتے تھے اور آج ہماری تنقید درست ثابت ہو رہی ہے۔ اللہ جانے یہ کون ناہنجار تھے جو محکمہ زراعت پر ہماری تنقید کے اُلٹے سیدھے مفہوم نکالتے تھے اور اس محکمے سے مراد بھی اپنی مرضی سے نکالتے تھے جبکہ ہماری مراد واقعتاً محکمہ زراعت یعنی ایگری کلچر ڈیپارٹمنٹ ہی تھی۔

Exit mobile version