ایک عورت پاکستان کے سکیورٹی اداروں کی تحویل میں ہے، ایک بارکھان کے ایک کنویں میں پائی گئی۔ ایک اٹلی کے پاس سمندر میں ڈوب گئی۔
تینوں عورتیں بلوچ ہیں، تینوں کا زندگی گزارنے کا طریقہ الگ الگ، تینوں کے انجام کے بارے میں ہم اس لیے جانتے ہیں کہ ان کے نام ٹی وی کے ٹیکر پر آ گئے۔ اسمبلی کے فلور پر بات ہوئی، انسانی حقوق والوں نے پریس ریلیز جاری کی۔ اس سے پہلے کہ ٹی وی کے ٹیکر پر چوتھی کا ذکر ہو، اور فکر نہ کریں، کہانی آیا ہی چاہتی ہے، یاد کر لیں کے یہ عورتیں کون تھیں اور ان کا انجام کیسے ہوا۔
ماہل بلوچ پر الزام ہے کہ وہ خود کش بمبار بننے جا رہی تھی۔ بحث صرف یہ ہے کہ کیا اسے ایک پارک سے اٹھایا گیا یا گھر سے بچوں کے ساتھ، کیا تشدد اس کے بچوں کے سامنے ہوا یا کسی مہربان نے بچوں کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ دیا۔
اس پر بھی بحث ہے کہ اسے اٹھایا کاؤنٹر ٹیررازم والوں نے یا ایف سی والوں نے یا فوج والوں نے۔ اور اگر اٹھایا تو اسے عدالت کے سامنے پیش کیوں نہیں کیا گیا۔
ماہل بلوچ: انسداد دہشتگردی دفعات کے تحت مقدمہ درج، اہلخانہ کی خودکش جیکٹ برآمد ہونے اور دیگر الزامات کی تردید
ریاست کے جس ادارے نے بھی اٹھایا ہمیں یہ بتایا جا رہا ہے کہ ماہل کو مِسنگ پرسن نہ کہا جائے، حالانکہ اس سے پہلے یہ بتایا جا رہا تھا کہ بلوچستان میں مِسنگ پرسن کا مسئلہ ہے ہی نہیں اور کئی سالوں سے جو بلوچ عورتیں سمی دین بلوچ کے ساتھ اپنے پیاروں کی تصویریں اٹھائے پریس کلبوں کے باہر کھڑی ہیں وہ یا تو جھوٹی اور مکار ہیں یا اتنی معصوم ہیں کہ دشمن کے پراپیگنڈے میں آ کر وطن دشمنی کر رہی ہیں، ملک کو بدنام کر رہی ہیں۔
اس سارے مباحث میں اس نقطے کی گنجائش بالکل نہیں ہے کہ اگر ریاست کا الزام سچ ہے، تو کوئی یہ ہی بتا دے کہ اپنے اتنے خوبصورت بچوں کو چھوڑ کر خودکش بننے پر ماہل کیوں مجبور ہوئی۔
شاہدہ رضا سب سے اچھی، محب وطن عورت تھی۔ اس کی تصویر اس لیے بھی دستیاب ہے کہ اس نے پاکستان کی قومی ٹیم بلیزز پہن رکھا تھا اور اتنے میڈل لگا رکھے تھے کہ جو عام طور پر صرف سینیئر جرنیلوں کی وردی پر ہوتے ہیں۔ ہمارے سب سے بڑے قومی ہیرو عمران خان، وسیم اکرم، جاوید میانداد بھی صرف ایک کھیل میں پاکستان کی نمائندگی کر پائے۔ شاہدہ فٹ بال اور ہاکی میں عالمی سطح پر پاکستان کی نمائندگی کر چکی تھی۔
کھیلوں کے بارے میں بہت سطحی علم ہے لیکن اگر پاکستان کے علاوہ بھی کسی ملک میں، عورتوں اور مردوں میں، کوئی ایسا کھلاڑی ہو تو اس کا نام اور انجام ڈھونڈ لیں۔ لیکن شاہدہ پاکستان کی ہزارہ برادری سے تھی جن کے تواتر سے ہونے والے قتل عام پر نہ ریاست اُف کرتی ہے نہ عوام۔ وہ اپنے جنازوں کو سڑکوں پر لے کر بیٹھتے ہیں تو بلیک میلر کہلاتے ہیں۔ پانچ سال پہلے انھی صفحات پر کوئٹہ سے جان بچا کر بھاگنے اور غیر قانونی طریقے سے جہاز پر بیٹھ کر بھاگنے والے ایک ہزارہ نوجوان نے اپنا معاملہ اللہ پر چھوڑتے ہوئے کہا تھا کہ اور کچھ نہ ہوا تو مچھلیوں کی خوراک بن جائیں گے۔
مجھے یقین ہے کہ شاہدہ رضا کے نام پر کوئی چھوٹا موٹا سٹیڈیم یا کسی فٹ بال یا ہاکی کلب کا نام رکھ دیا جائے گا۔ بالکل اس طرح جیسے کراچی میں سبین محمود اور پروین رحمان کے نام پر سڑکیں موجود ہیں لیکن ان کے قاتلوں کا کوئی پتہ نہیں۔
بارکھان کے کنویں کی تہہ میں پلنے والی لڑکی کا مصدقہ نام ابھی تک ہمیں نہیں پتہ، صرف یہ پتہ ہے کہ اس کی عمر اٹھارہ سال تھی اور قتل سے پہلے ریپ ثابت ہے۔ بحث ابھی یہ جاری ہے کہ وہ قرآن ہاتھ میں اٹھا کر اپنے بچوں کی زندگی کی بھیک مانگنے والی بلوچ عورت تو زندہ ہے تو یہ کنویں سے اٹھارہ سال کی مردہ لڑکی ہم نے کیسے برآمد کر لی۔ کیا اس بے نام کا نام بلوچستان کے معاشرتی نظام کو بدنام کرنے کے لیے تو استعمال نہیں کیا جا رہا۔ جس سردار کو گرفتار کیا گیا ہے وہ تو پاکستان کا جھنڈا لپیٹ کر قوم کے محافظوں کے ساتھ دعوتیں اڑاتا تھا۔ یہ اٹھارہ سالہ ریپ شدہ مردہ لڑکی ہمارے مثالی خاندانی نظام کو بدنام کیوں کر رہی ہے۔
مارچ کا مہینہ ہے، عورت مارچ سر پر ہے۔ سینکڑوں عورتیں اور بچیاں مارچ کے لیے پوسٹر بنا رہی ہوں گی، پاکستان کے ہزاروں لاکھوں نوجوان اور بزرگ اس تیاری میں ہوں گے کہ ان بدزبان عورتوں کا منھ بند کیسے کرنا ہے۔
زیادہ سوچنے کی ضرورت نہیں ہم نے تین ہفتوں کے اندر تین طریقے دیکھ لیے ہیں۔ یا اٹھا لو، یا مار کر کنویں کی تہہ میں پھینک دو اور زیادہ رحم آئے تو کسی ڈوبتے جہاز میں بٹھا کر سمندر کی مچھلیوں کی خوراک بننے کے لیے چھوڑ دو۔