اتوار کی صبح کالم لکھنے کے بعد دفتر بھجوادیا تو اخبارات کے پلندے پر توجہ مرکوز کردی۔ ’’نوائے وقت‘‘ میں ایک خبر چھپی تھی۔اس کی بدولت دریافت ہوا کہ گزرے ماہ میں ہمارے ہاں تاریخی اوسط کے اعتبار سے کم ترین بارشیں ہوئی ہیں۔ہر اعتبار سے پکا شہری ہوتے ہوئے بھی میرا جی یہ خبر پڑھتے ہوئے دہلنا شروع ہوگیا۔موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے دنیا کے بے تحاشہ ممالک قحط سالی کا شکار ہوچکے ہیں۔پاکستان بھی ریکارڈ بناتے سیلاب کی زد میں آیا۔نامہربان موسم مگر غذائی بحران کو سنگین بنانے کا واحد سبب نہیں۔مزید ظلم یہ ہوا کہ روس یوکرین پر حملہ آور ہوگیا۔ یہ دونوں ممالک اپنی ضرورت سے کہیں زیادہ وافر مقدار میں گندم پیدا کرتے ہیں۔یوکرین کے پرچم پر نگاہ ڈالیں تو بآسانی دریافت کرلیں گے کہ وہ گندم کے لہلاتے کھیت کی نما ئندگی کرتا ہے۔ہمارے ایک نامور مصور غلام رسول مرحوم کی لینڈ اسکیپ والی پینٹنگز بھی ایسے ہی رنگوں سے کھیلتی تھیں۔
بہرحال فروری میں متوقع بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے بارانی علاقوں میں گندم کی وہ مقدار پیدا نہ ہوسکے گی جس کی امید باندھی گئی تھی۔ بارش نہ ہونے کی وجہ سے درجہ حرارت 27سے 28ڈگری تک بڑھ گیا۔یہ گندم کے دانے کو موٹا نہیں ہونے دیتا۔فروری کی گرمی نے دانے کو کمزور کیا تو تیز ہوائوں نے اسے زمین پر گرانا بھی شروع کردیا۔اب جو گندم میسر ہوگی اس کی فی ایکٹر پیداوار میں کمی کے علاوہ کمزور دانے کی وجہ سے چکی سے آٹا بھی کم مقدار میں برآمدہوگا۔ گندم کا بحران لہٰذا ایک بار پھر نمودار ہونے کو تیار ہے۔
گندم کے ممکنہ بحران سے فکر مند ہوا تو زرعی شعبے میں متحرک چند دوستوں سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا۔ میرے خدشات کی انہوں نے تصدیق کی۔ مزید پریشان کن خبر یہ بھی دی کہ کسانوں کی اکثریت نے اب کی بار اپنے رقبوں میں گندم اُگانے کی ترغیب ہی محسوس نہیں کی۔خرچے اور آمدنی کا جٹکا حساب لگاتے ہوئے وہ یہ طے کرچکے ہیں کہ گندم کی خریداری کے لئے ہماری سرکار نے جو نرخ طے کررکھا ہے وہ مناسب منافع یقینی نہیں بناتا۔ گندم کے مقابلے میں اگر سرسوں اُگائو تو اس کا ایک من آٹھ سے دس ہزار میں بک جاتا ہے۔سرسوں کی پیداوار آپ من پسند تعداد میں ذخیرہ بھی کرسکتے ہیں۔اس کے برعکس سرکار گندم کے ’’ذخیرے‘‘ کو ’’جرم‘‘ تصور کرتی ہے۔مخبروں کی اطلاع پر چوہدریوں کے گھروں میں اکثر ’’چھپائی گندم‘‘ برآمد کرنے کے لئے چھاپے بھی مارے جاتے ہیں جو ان کے لئے ندامت وپریشانی کا باعث ہوتے ہیں۔
فروری کے گرم موسم کے نتائج سوچتے ہوئے جی گھبرا گیا تو لیپ ٹاپ کھول کر سوشل میڈیا سے خود کو بہلانے کی کوشش کی۔وہاں مگر یہ ’’خبر‘‘چھائی ہوئی تھی کہ اسلام آباد پولیس عمران خان صاحب کو ’’گرفتار‘‘ کرنے کے ارادے سے لاہور پولیس کی مدد سے زمان پارک پر ’’لشکر‘‘ کی صورت حملہ آور ہونے والی ہے۔عمران خان صاحب کو ان کے پرستار اپنی ’’ریڈ لائن‘‘ ٹھہراتے ہیں۔ ٹویٹر کے ذریعے پرستاروں سے فی الفور زمان پارک پہنچنے کی استدعا ہوئی۔سابق وزیر اعظم کے آبائی گھر کے باہر ان کے مداحین فصیل کی صورت میں ڈٹ کر کھڑے ہوگئے۔اس کے باوجود اسلام آباد سے گئے ایس پی کو عمران خان صاحب کے گھر داخل ہونے سے روکا نہ جاسکا۔تحریک انصاف کے قائد مگر وہاں ’’موجودہی نہیں تھے‘‘۔ ان کی عدم موجودگی میں ان کے چیف آف سٹاف جناب شبلی فراز نے اسلام آباد کی عدالت سے جاری ہوئے ’’وارنٹ‘‘ باقاعدہ انداز میں وصول کرلئے۔ اپنے دستخطوں سے یہ وعدہ بھی کرلیا کہ ان کے قائد توشہ خانہ کے حوالے سے بنائے مقدمے میںاپنے دفاع کے لئے متعین تاریخ کو پیش ہوجائیں گے۔
یہ کارروائی مکمل ہوگئی تو سوشل میڈیا کو رونق لگانے کے لئے ایک اور موضوع میسر ہوگیا۔ عمران خان کے پرستار سینہ پھلاکر اصرار کرنا شروع ہوگئے کہ ان کی جی داری نے پولیس کو ’’ریڈ لائن‘‘کراس کرنے نہیں دی۔عمران خان صاحب کا ’’قلعہ‘‘ ناقابل تسخیر ثابت ہوگیا تو ان کے دل جلے مخالفین یہ ثابت کرنے میں مصروف ہوگئے کہ تحریک انصاف کے قائد ’’بزدل‘‘ ہیں۔جیل جانے سے گھبراتے ہیں۔ عمران خان کو ’’بزدل‘‘ ثابت کرنے کے لئے دل جلوں کے ہجوم نے سوشل میڈیا پر ایسی تصاویر بھی پھیلانا شروع کردیں جن میں ان کے پسندیدہ قائدین ہنستے مسکراتے اپنی حراست کے لئے پولیس کے سامنے آجاتے تھے۔
مخالفین کے دلوں میں حسد کی آگ مزید بھڑکانے کو عمران خان صاحب اپنے آبائی گھر میں بیٹھے ہوئے ہی ٹی وی سکرینوں پر نمودار ہوگئے۔ان کے حکم پر چلائی تحریک کے دوران تحریک انصاف کے جن رہ نمائوں اور کارکنوں نے ازخود گرفتاری دی تھی انہیں لاہورہائی کورٹ کے حکم پر رہا کردیا گیا ہے۔تحریک انصاف کے قائد نے ان دلیر کارکنوں کو شاباش دینے کے لئے ایک تقریب کا اہتمام کررکھا تھا۔ عمران خان صاحب نے اس سے طولانی اور جذباتی خطاب فرمایا۔اپنے خلاف بنائے مقدمات کو جھوٹا کہا اور شہباز شریف کی مبینہ منی لانڈرنگ کی داستانیں دہرانا شروع ہوگئے۔ روایتی میڈیا پر رونق اس تناظر میں حد سے بڑھی تو پیمرا نے لائسنس یافتہ ٹی وی چینلوں پر ان کی تقاریردکھانے پر پابندی لگادی۔عمران خان کے پرستاروں کو اس کی وجہ سے اظہار رائے پر پابندیوں کی بابت سیاپا فروشی کا جواز مل گیا۔ یہ ثابت کرنے میں مصروف ہوگئے کہ عمران خان کو گرفتار کرنے کی طاقت سے محروم سرکار عوام کو اب ان کے انقلابی پیغام سے محفوظ رکھنے کے لئے ’’اوچھے ہتھکنڈوں‘‘ پر اترآئی ہے۔
اتوار کے دن کئی گھنٹوں تک روایتی اور سوشل میڈیا پر چھائے تماشے سے لطف اندوز ہوتے ہوئے ہمیں یہ سوچنے کی مہلت ہی نصیب نہ ہوئی کہ فروری کے مہینے میں نمودار ہوئی گرمی گندم کی فصل کے ساتھ کیا ظلم ڈھاچکی ہے۔ اسلام آباد پولیس کی بچگانہ حکمت عملی کو میں اس تماشے کا اصل ذمہ دار سمجھتا ہوں۔میرا شکی ذہن یہ اصرار کرنے کو مجبور ہے کہ وہ عمران خان صاحب کو گرفتار کرنا ہی نہیں چاہ رہی تھی۔ فقط یہ پیغام دینا مقصود تھا کہ زمان پارک میں واقع ان کے آبائی گھر کے باہر پرستاروں کی فصیل کے باوجود پولیس وہاں داخل ہوسکتی ہے۔یہ پیغام مگر اجاگر نہ ہوپایا۔ پولیس خان صاحب کے گھر میں داخل ہوکر بھی ان سے بالمشافہ گفتگو نہ کرپائی۔ شبلی فراز سے دستخط کروانے کے بعد واپس لوٹ آئی اور اس کے چلے جانے کے تقریباََ دو گھنٹے بعد عمران خان صاحب اپنے ہی گھر میں منعقد ہوئی تقریب سے خطاب میں مصروف ہوگئے۔ اپنے پرستاروں کے لئے خود کو ’’ریڈ لائن‘‘ ثابت کردیا۔