اتوار کے روز کتاب میلے کے لئے گھر سے نکلا تو شہر کی مختلف شاہراہوں پر بینر لگے دیکھے جن پر لکھاتھاکہ حیا عورت کا زیور ہے، بے حیائی سے دور رہیں ، وغیرہ۔ذہن پر زور ڈالا تو یاد آیا کہ چونکہ اِس ماہ عورت مارچ ہوتا ہے اِس لئےیہ بینر عورتوں کے اُس اکٹھ کی پیش بندی کے سلسلے میں لگائے گئے ہیں اور لگانی والی جماعت وہ ہے جو ہمارے ملک میں اسلامی نظام کی داعی ہے ۔بظاہر اِن بینرز میں کوئی قابل اعتراض بات نہیں ، بے حیائی سے دور ہی رہنا چاہئے مگر بات اتنی سادہ بھی نہیں ۔ہم لاکھ کہتےرہیں کہ’’ ہم عورتوں کے حقوق کے حامی ہیں، اسلام نے خواتین کو چودہ سو سال پہلے حقوق دے دیئے تھے،اسلام میں تہمت لگانا گناہ ہے ، ہماری نظر میں ہر عورت قابل احترام ہے‘ ‘مگر ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ حقیقت اِس کے برعکس ہے اور ہمارے اصل جذبات وہ ہیں جن کا اظہار اِن بینر ز پر لکھی گئی عبارت میں کیا گیا ہے ۔یہ بینر مردوں کی اُس سوچ کی عکاسی کرتے ہیں جواُن کے دماغ میں ایسی عورتوں کے بارے میں ہے جو گھروں سے باہر نکل کر اپنی آزادی کے لئے نعرے لگاتی ہیں ، اِن مردوں کی نظر میں یہ عورتیں بے حیائی پھیلاتی ہیں لہٰذا اِن سے دور رہنا چاہئے، گویا غیر محسوس انداز میں تہمت بھی لگا دی اور اپنا دامن بھی بچا لیا، عورت کے احترام کا تمغہ بھی سجا لیا اور نہایت چالاکی سے آزاد خیال خواتین کو بے شرم بھی کہہ دیا، واہ!
عورت مارچ ہر سال آج کے دن ہوتا ہے اور ہر سال اِن عورتوں کے بارے میں وہی گھسی پٹی غیر مدلل باتیں دہرائی جاتی ہیں جن کا نہ کوئی سر ہے نہ پیر۔کبھی اِن عورتوں کو بالائی طبقے کی فیشن زدہ کہاجاتا ہے، کبھی انہیں بے حیائی کے طعنے دئیے جاتے ہیں ، کبھی اِن کے نعروں پر لعن طعن کی جاتی ہے، کبھی اِن کے لباس کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے ، کبھی اِن کے مطالبات کو مغرب کے ایجنڈے سے جوڑنے کی کوشش کی جاتی ہے، کبھی کہاجاتا ہے کہ یہ صرف ایک دن احتجاج کیوں کرتی ہیں ،کبھی کہتے ہیں کہ ایک دن بھی کیوں کرتی ہیں، اور جب بالکل ہی زِچ ہوجاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ بولتی ہی کیوں ہیں ،لکھ تو دیے ہیں حقوق، اب اور انہیں کیا چاہئے، مادر پدر آزادی،یعنی آٹا گوندھتی ہے تو ہلتی کیوں ہے!اور گزشتہ برس تو حد ہی ہوگئی جب چند تصاویر اور تقاریرکو جعل سازی کے ذریعے بگاڑ کر سوشل میڈیا پر عورت مارچ سے منسوب کرکے یوں پھیلا دیاگیاکہ عام بندہ ہی نہیں اچھے خاصے جید لکھاری بھی اسے سچ سمجھ بیٹھے اور عورت مارچ کے خلاف کہرام مچ گیا۔ایسے معاشرے میں اِن عورتوں کو نہ صرف عزت سے زندہ رہنے کی کوشش کرنی ہے بلکہ اپنے جائز حقوق کے لئےبھی لڑنا ہے ، انہیں بے حیائی کے طعنے بھی سہنے ہیں اور جھوٹے پروپیگنڈا کا مقابلہ بھی کرنا ہے ۔سچ پوچھیں تو مجھے اب اِن باتوں پر حیرت نہیں ہوتی کیونکہ جس ملک کی جامعات Misogynists قسم کے لوگوں کو تقریبات میں مدعو کرتی ہوں اور اپنے طلبا کے سامنے انہیں رول ماڈل بنا کر پیش کرتی ہوں وہاں عام شہری سے یہ توقع رکھنا کہ وہ عورتوں کے بارے میں تعصب نہیں رکھےگا محض دیوانے کا خواب ہے ۔
اب خوگر حمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سُن لے۔کچھ عرصے سے یہ دیکھنے میں آرہاہے کہ خواتین ،اُن قوانین کی آڑ میں جو اُن کے حقوق کے تحفظ کے لئے بنائے گئے ہیں ، کبھی کبھار اُن کا ناجائز استعمال بھی کرتی ہیں۔غالباً دو سال پہلے کی بات ہے کسی کالج کے استاد پر ایک خاتون نے جنسی ہراسگی کا الزام لگا دیا،یہ الزام بعدمیں غلط ثابت ہوا مگر اُس شریف آدمی سے برداشت نہیں ہوا اور اُس نے خود کشی کرلی۔بھارت نے اِس موضوع پر ایک بہت دلچسپ فلم بنائی ہے جس کا نام سیکشن 375ہے، میں اِس فلم کی کہانی نہیں بتاؤں گا کیونکہ اُس سے تمام سسپنس ہی ختم ہوجائے گا۔چند سال پہلے پاکستان میں خواتین کو ہراسگی سے تحفظ دینے کے لئے محتسب کا عہدہ قائم کیا گیاجو کہ قابل تحسین بات ہے ، خواتین اپنی شکایات لے کر محتسب کے پاس نہ صرف جاتی ہیں بلکہ اُن کے حق میں بھی کئی فیصلے آئے ہیں لیکن جیسا کہ ہمارے ہاں ہوتا ہے، ہر عہدے دار چاہتا ہے کہ اُس کے اختیارات میں لامتناہی اضافہ کردیاجائےاور وہ کسی قانون ضابطے کے تحت کام کرنے کا پابندبھی نہ ہو۔خاتون محتسب کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا، سابق محتسب صاحبہ نے نہ جانے کیا سمجھ کرایک وکیل کے وارنٹ گرفتاری جاری کر دیئے اور وہ بھی بغیر کسی شنوائی کے ، وکیل صاحب نے ہائی کورٹ میں دہائی دی جس کے بعد محتسب صاحبہ نے یہ لکھ کر وارنٹ واپس لئےکہ غلط فہمی کی بنا پر ایسا ہوگیا تھا۔جس ملک میںفضا پہلے ہی خواتین کے خلاف ہووہاں اِس قسم کی حرکتیں عورتوں کی تحریک کو نقصان پہنچانے کے لئے کافی ہیں ۔
آج عورت مارچ کا دن ہے ، دنیا کے کسی بھی نارمل ملک میں یہ ایک نارمل بات ہوتی ، لیکن ہم چونکہ ابنارمل ہوچکے ہیں اِس لئے ہر سال کیل کانٹے سے لیس ہوکر عورتوں پر پِل پڑتے ہیں اور پھر اصرار کرتے ہیں کہ ہم اِن کے حقوق کے حامی ہیں بشرطیکہ یہ عورتیں ہمارے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق حق مانگیں۔ اب اِن مردوں کو کون سمجھائے کہ عورتیں یہی حق تو مانگ رہی ہیں کہ انہیں ہر بات مردوں سے پوچھ کر نہ کرنی پڑے، اور مرد یہ ہونے نہیں دیتے، یہی جھگڑا ہے ۔اِس مرحلے پر بعض لوگ مذہبی تاویلیں ڈھونڈ کرلے آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ عورتوں کی حدود مذہب نے متعین کردی ہیں لہٰذا حقوق بھی انہی حدود میں ملیں گے ۔ یہ بتانے کی چنداں ضرورت نہیں کہ یہ دلیل دیتے وقت مرد غضبناک ہوجاتے ہیں اوراِس غضبناکی میں یہ بھول جاتے ہیں کہ حدود مردوں کے لئے بھی طے شدہ ہیںمگر عورتوں کو بھاشن دیتے وقت کوئی مرد اِن حدود کی پروا نہیں کرتا ۔عورتوں کی جو بھی حدود مذہب یا سماج نے متعین کی ہیں اُن کی پاسداری ہر عورت اپنی سمجھ بوجھ اور اللہ کو جوابدہی کے خوف سے کر لے گی، مرد وں کو یہ ٹھیکہ اپنے ذمے لینے کی ضرورت نہیں ، وہ اپنی حدود کا خیال رکھیں!