Site icon DUNYA PAKISTAN

مجھ پر آشکار ہوئی ’’بابا رحمتے‘‘ کی ’’رحمت‘‘

Share

مجھے ہرگز خبر نہیں کہ میرے اور آپ کے ٹیلی فونوں پر ہوئی گفتگو کو ریکارڈ کرنے کی قوت رکھنے والے افراد یا اداروں کے پاس سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کو ’’شرمندہ کرنے والا‘‘ مواد موجود ہے یا نہیں۔روایتی اور سوشل میڈیا پر چھائے چند ذہن ساز مگر تواتر سے اس کی موجودگی کا دعویٰ کررہے ہیں ۔میرے یار عامر متین کے ٹی وی شو میں گفتگو کرتے ہوئے ایک اور دیرینہ ہمدم-حامد میر- نے بھی نہایت ہوشیاری سے اس ضمن میں میسر ریکارڈ کا اشارہ دیا تھا۔ اس کا دعویٰ تاہم وسیع تر تناظر میں تھا۔ وقتی چسکہ لینے کے بعد میں اسے بھول گیا۔

ثاقب نثار تواتر سے پھیلائی کہانی کو مگر نظرانداز نہیں کرپائے ہیں۔اپنی عادت کے برعکس پیر کے دن وہ تقریباََ ہر تگڑے ٹی وی اینکر کے ساتھ گفتگو کے لئے میسر رہے۔انہیں اطلاع دی کہ ان کے زیر استعمال ٹیلی فون میں نصب ’’واٹس ایپ‘‘ ہیک ہوگیا ہے۔ ان کے فون میں لگائی مبینہ ’’نقب‘‘ لہٰذا کچھ ایسے وڈیوز یاآڈیوزکی ’’تخلیق‘‘ میں مددگارثابت ہوسکتی ہے جن کا مقصد انہیں بدنام یا شرمندہ کرنا ہوگا۔ ثاقب نثار سے منسوب تازہ ترین گفتگو سنی تو منیر نیازی کا وہ مصرعہ یاد آگیا جو ’’لوگوں کو ان کے گھر میں ڈرادینا چاہیے‘‘ کی تمنا کا اظہار کرتا ہے۔انجانے خوف سے گھبرائے ثاقب نثار اس کی بدولت حملہ ہونے سے قبل ہی دفاعی پیش بندی کی کاوش میں مبتلا نظر آئے۔ان کی کوشش نے مجھے ’’چور کی داڑھی میں تنکا‘‘ والا محاورہ بھی یاد دلایا۔

ثاقب نثار سے زندگی میں ایک ہی بار ملا ہوں۔ 2011ء میں تخریب کاری کا ایک سنگین واقعہ ہوا تھا۔ہمارے ایک جواں سال صحافی سلیم شہزاد تھے۔ تعلق ان کا کراچی سے تھا مگر دہشت گردی سے جڑی خبروں کی تلاش میں اسلام آباد منتقل ہوچکے تھے۔ ہمارے ’’قبائلی‘‘ کہلاتے علاقوں میں متحرک کئی تنظیموں سے مسلسل رابطے میں رہتے۔ تخریب کاری کا کوئی اہم واقعہ ہوجاتا تو میں ’’آج ٹی وی ‘‘کے لئے اپنے شو میں انہیں گفتگو کو خصوصی طورپر مدعو کرتا۔ جس خاص واقعہ کا ذکر ہوا ہے اس کی بابت ان کی رائے پریشان کن تھی۔ان کی رائے نے لوگوں کو چونکایا تو میرے نشر ہوئے پروگرام کے دو دن بعد ایک اور ٹی وی نے بھی انہیں اپنے پروگرام میں شرکت کی دعوت دی۔ وہ گھر سے اس میں شامل ہونے کو نکلنے کے بعد مگر ٹی وی تک پہنچ نہ پائے۔ چند روز گزرجانے کے بعد ان کی لاش منڈی بہائوالدین کے قریب واقعہ نہر میں برآمد ہوئی۔

سلیم شہزاد کی پراسرار موت نے صحافیوں کی اکثریت کو بوکھلادیا۔ ان کی گمشدگی اور موت کے حقیقی اسباب کا سراغ لگانے کے لئے ہم نے حکومت پر دبائو بڑھانے کے لئے پارلیمان کے سامنے احتجاجی کیمپ لگایا۔ ذاتی طورپر میں احساس جرم میں مبتلا رہا۔ یہ خیال ستاتارہا کہ اگر سلیم شہزاد کو تبصرہ آرائی کے لئے مدعو نہ کرتا تو شاید اس کی جان بچی رہتی۔ اپنے شو میں جذبات سے مغلوب ہوا سلیم شہزاد کی موت کا سراغ لگانے کی دہائی مچاتا رہا۔

آصف علی زرداری ان دنوں پاکستان کے صدر تھے۔وسطی ایشیاء کے دورے پر گئے ہوئے تھے۔غالباََ قزاقستان میں اپنے بستر پر لیٹے انہوں نے میرا پروگرام دیکھ لیا۔ وہ پروگرام ختم ہونے کے بعد گھر لوٹا تو ان کا فون آگیا۔ مجھے تسلی دینے کو چند فقرے ادا کرنے کے بعد انہوں نے استفسار کیا کہ وہ اگر میری ان دنوں آئی ایس آئی کے سربراہ شجاع پاشا سے ملاقات کروادیں تو معاملہ سنبھالنے میں مدد مل سکتی ہے یا نہیں۔میری پاشا صاحب تک رسائی نہیں تھی۔ آصف صاحب سے البتہ یہ گزارش کی کہ میں ان سے تنہائی میں نہیں ملوں گا۔ میرے ہمراہ دو سینئر صحافی ہوں گے۔ اگر ملاقات ہوگئی تو مجھے یقین ہے کہ ہم ڈی جی آئی ایس آئی کو سلیم شہزاد کی موت کے اسباب کا سراغ لگانے کے لئے اعلیٰ سطح کا کوئی کمیشن بنانے کو رضا مند کرلیں گے۔دو دن گزرنے کے بعد پاشا صاحب سے ملاقات ہوگئی۔

مذکورہ ملاقات کے دوران جو ڈیڑھ گھنٹے سے زیادہ چلتی رہی کئی اہم باتیں ہوئیں۔ان کا ذکر فی الوقت درکار نہیں۔ مکدی گل یہ ہے کہ وہ مطلوبہ کمیشن بنانے کو آمادہ ہوگئے۔انہوں نے آمادگی کا اظہار کردیا تو حکومت نے اپنے اختیارات بروئے کار لاتے ہوئے ان دنوں شریعت کورٹ کے سربراہ رفیق صاحب کی نگرانی میں مطلوبہ کمیشن کے قیام کا اعلان کردیا۔ ’’عوامی تحریک‘‘کی وجہ سے اپنے منصب پر بحال ہوئے افتخار چودھری نے مگر حکومتی اقدام کو اپنے ادارے کی ’’حدود‘‘ میں مداخلت سمجھا۔ اپنی خفگی کا انہوں نے عاصمہ جہانگیر سے اظہار بھی کردیا۔انسانی حقوق کی ثابت قدم محافظ اس کی وجہ سے پریشان ہوگئیں۔ ’’مادر مہربان‘‘ کی طرح انہوں نے حامد میر سے فون پر رابطہ کیا۔طے یہ ہوا کہ ہم لوگ فوری طورپر اسلام آباد پریس کلب پہنچ جائیں اور سرجوڑ کر راہ نکالیں کہ افتخار چودھری کو کمیشن کے قیام کے لئے کیسے رضا مند کرنا ہے۔بالآخر راستہ دریافت ہوگیا۔ عاصمہ جہانگیر نے افتخار چودھری کے دل کو نرم کردیا۔ موصوف نے مگر یہ فیصلہ کیا کہ مطلوبہ کمیشن کے سربراہ ثاقب نثار ہوں گے۔

کمیشن کی کارروائی کے باقاعدہ آغاز سے قبل ثاقب نثار نے ملک بھر سے چند نامور صحافیوں کو ’’غیر رسمی مشاورت‘‘ کے لئے اسلام آباد طلب کرلیا۔ میرا نام مدعو کئے لوگوں میں شامل نہیں تھا۔ اپنے ساتھیوں سے اظہار یکجہتی کے لئے مگر سپریم کورٹ چلا گیا۔کافی انتظار کے بعد ثاقب نثار تشریف لائے۔سپریم کورٹ کی عمارت میں موجود ایک ڈرائنگ روم نما بڑے سے کمرے میں صحافیوں کو طلب کرلیا گیا۔ تھوڑی دیر بعد انہیں یاد آیا کہ میں بھی ان کا نتظار کرنے والوں کی صف میں کھڑا تھا۔ مجھے پگڑی پہنے اہلکار کو بھیج کر وہاں بلوایا۔

ثاقب نثار میری دانست میں مکمل منافقت سے کام لیتے ہوئے مختلف صحافیوں سے بچگانہ معصومیت اور تجسس سے یہ پوچھتے رہے کہ سلیم شہزاد کی موت کے حقیقی اسباب کا سراغ لگانے کے لئے کس انداز میں آگے بڑھاجائے۔نام لینا مناسب نہیں۔میرے کئی نامور ساتھی مگر انہیں تفصیل سے بتاتے رہے کہ فلاں فلاں مسئلہ پر ان کی جانب سے کسی کالم میں لکھی یا ٹی وی شو میں بیان ہوئی رائے سے ناراض ہوکر فلاں فلاں دن ’’فون‘‘ آئے تھے۔

میرے ساتھی اپنی داستان سناچکے تو ثاقب نثار مکارانہ احترام سے میری جانب متوجہ ہوئے۔ ’’جاوید صاحب آپ ابھی تک خاموش کیوں ہیں؟‘‘ کے سوال سے آغاز کیا۔توہین عدالت سے سہمے ذہن نے ہمت پکڑکرفریاد کی کہ آپ کو میرے چند ساتھیوں نے اپنی بپتا سنائی ہے۔ ان کے فونوں سے پتہ چلا یا جاسکتا ہے کہ ’’تڑی‘‘ لگانے والے فون کہاں سے آئے تھے۔عزت مآب ثاقب نثار صاحب تفتیشی عمل کا آغاز اس پیش بندی سے کرسکتے ہیں۔یہ تجویز دیتے ہوئے اصرار یہ بھی کیا کہ مجھے آج تک ’’نامعلوم یا معلوم‘‘ فرد سے کوئی پیغام نہیں آیا ہے۔شاید میں ایسے فون کرنے والوں کے لئے ’’اہم صحافی‘‘ نہیں ہوں گا۔گفتگو کی روانی میں پھکڑپن سے مغلوب ہوئے یہ وعدہ بھی کرلیا کہ ’’قومی مفاد‘‘ کو اگر Defineکردیا جائے تو میں اس کا ڈھونڈرا پیٹنے کو دل وجان سے آمادہ ہوں۔اس کے عوض سرکار جو پیسے دے گی میں اسے ’’خفیہ‘‘ انداز میں وصول بھی نہیں کروں گا۔اپنے دستخطوں سے عوضانہ والے چیک وصول کرنے کے بعد اسے اپنے بینک اکائونٹ میں جمع کروادوں گا۔

بعدازاں ثاقب نثار نے کئی روز اپنی سربراہی میں بنائے کمیشن کی کارروائی جاری رکھی۔مجھے اس کے دوران ایک بار بھی طلب نہیں کیا گیا۔بالآخر جو رپورٹ آئی وہ قطعاََ پھسپھسی تھی۔ سلیم شہزاد کی ناگہانی موت کا آج بھی سراغ نہیں ملا ہے۔ثاقب نثار نے خود کو ’’بابارحمتے‘‘ کا خطاب بھی دے رکھا ہے۔ان کی ’’رحمت‘‘ لیکن مجھ بدنصیب کے روبرو محض ایک ملاقات کے دوران ہی آشکار ہوگئی تھی۔اسی باعث پانامہ پیپرز کے منکشف ہوجانے کے بعد وہ جو بھی ڈرامے لگاتے رہے میں نے اسے سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہی محسوس نہ کی۔پیر کے روز متعدد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے یہ اطلاع بھی دی ہے کہ وہ ان دنوں ایک کتاب لکھ رہے ہیں۔وہ مگر ان کی موت کے بعد شائع ہوگی۔ یہ کالم ختم کرتے ہوئے سوال فقط یہ اٹھانا چاہتا ہوں کہ ان کا دل اگر ’’پورا سچ‘‘ عیاں کرنے کو آمادہ ہوہی گیا ہے تو موت کا انتظار کیوں؟

Exit mobile version