حاملہ خواتین میں 25 فیصد تک غذائی قلت کا اضافہ
اقوام متحدہ (یو این) کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق براعظم افریقہ اور ایشیا کے متعدد ممالک میں حاملہ خواتین میں غذائی قلت میں 25 فیصد تک اضافہ ہوگیا جب کہ متاثرہ خواتین میں سے زیادہ تر نوعمر لڑکیاں شامل ہیں۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق اقوام متحدہ کے مائوں اور بچوں کی صحت سے متعلق کام کرنے والے ذیلی ادارے یونیسیف کی جانب سے جاری کردہ تازہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے افریقہ کے 10 اور مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا کے ایک ملک سمیت 12 ممالک کی حاملہ خواتین سخت غذائی قلت کا شکار ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ نہ صرف حاملہ خواتین بلکہ ہزاروں بچوں کو دودھ پلانی والی مائیں بھی شدید غذائی قلت کا شکار ہیں اور مجموعی طور پر دنیا بھر میں اپنی عمر سے چھوٹے،کمزور اور بیمار نظر آنے والے بچوں کی تعداد بڑھ کر 5 کروڑ سے زائد ہو چکی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ برکینا فاسو، چاڈ، ایتھوپیا، کینیا، مالی، نائیجیریا، صومالیہ، سوڈان، جنوبی سوڈان، یمن اور افغانستان میں کیے جانے والے یونیسیف کے سروے سے معلوم ہوا کہ مذکورہ ممالک میں حاملہ خواتین میں غذائی قلت خطرناک صورتحال اختیار کر چکی ہے، جس وجہ سے مذکورہ ممالک میں بچوں کی قبل از پیدائش، ماں کے پیٹ کے اندر موت اور پیدائش کے فوری بعد اموات میں ریکارڈ اضافہ دیکھا گیا۔
رپورٹ کے مطابق مذکورہ ممالک میں 2020 تک خوراک کی قلت کا شکار خواتین کی تعداد 5 کروڑ 5 لاکھ تک جو اب بڑھ کر 7 کروڑ تک جا پہنچی ہے اور مذکورہ تمام ممالک میں صورت حال سنگین ہو چکی ہے۔
رپورٹ میں مذکورہ تمام ممالک میں حاملہ اور بچوں کو دودھ پلانے والی خواتین کو آٹا، چاول اور کوکنگ آئل سمیت سبزیوں کی فراہمی پر زور دیا گیا ہے، کیوں کہ متعدد ممالک میں خواتین کو ضروری غذائی اشیا تک بھی رسائی نہیں۔
رپورٹ میں افریقہ سمیت جنوبی ایشیائی ممالک کو حاملہ اور بچوں کو دودھ پلانے والی خواتین کی غذائی قلت کا مرکز قرار دیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ ان خطوں کے بیشتر ممالک میں نہ صرف بڑی عمر بلکہ نو عمر حاملہ لڑکیاں بھی شدید غذائی قلت کا شکار ہیں۔
رپورٹ کے مطابق مائوں میں خوراک کی قلت کی وجہ سے بچے ماں کے پیٹ کے اندر ہی مختلف بیماریوں کا شکار بن جاتے ہیں اور ان کے کم وزن، چھوٹے قد سمیت دیگر بیماریوں کے ساتھ پیدا ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
عالمی ادارے نے اپنی رپورٹ عالمی یوم خواتین کے موقع پر جاری کی، تاکہ خواتین کے مسائل کو اجاگر کیا جا سکے۔۔