اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جائیں!
ان دنوں بہت سے لوگ ایسی پوسٹس بھیج رہے ہیں جن پر مودی کی تصویر ہوتی ہے اور نیچے انڈیا کی معاشی ترقی اور پاکستان کے معاشی زوال کی تفصیل دی گئی ہوتی ہے۔ اسکے علاوہ بنگلہ دیش کی ترقی کا بیان بھی ہوتا ہے۔ بادی النظر میں نہ صرف یہ کہ اس میں کوئی حرج نہیں بلکہ سوئی ہوئی قوم کو جگانے کی خواہش بھی نظر آتی ہے۔ دوسری طرف عوام کے ہاتھ میں کچھ نہیں، وہ اس وقت اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں جب ان کی حکومت اور ادارے ایسی پالیسیاں بنائیں جو پاکستان کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرنے کی صلاحیت رکھتی ہوں۔ یہ اس صورتحال کا ایک پہلو ہے۔
دوسری طرف اگر بیدار مغز لوگ اپنے اپنے دائرہ اثر میں ایسی خبروں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی مایوسی کو صحیح رُخ پر ڈالنے اور ملک و قوم کیلئے اپنی ذاتی حیثیت میں کچھ نہ کچھ کرنے کا ٹھان لیتے ہیں تو دوسری طرف کچھ سادہ لوگ اس سے بہت سے منفی نتائج بھی اخذ کرتے ہیں، چند روز قبل ایک صاحب مجھے ملے اور کہنے لگے قاسمی صاحب کہیں ہم لوگوں نے پاکستان غلط تو نہیں بنایا، مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہوا اور اس نے دن دگنی رات چوگنی ترقی کی، تو کیا ہمیں بھی یہی راہ اختیار نہیں کرنی چاہئے؟ یہ سن کر مجھے لگا کسی نے میرے دل پر تیر چلا دیا ہے، تاہم میں نے اپنے جذبات پر قابو پا کر جتنی میری سمجھ تھی، اسے تصویر کا دوسرا رُخ دکھانے کی کوشش کی، میں نہیں جانتا اسے میری بات سمجھ آئی کہ نہیں کیونکہ اس نے کسی ردِعمل کا اظہار نہیں کیا۔عوام میں پائی جانے والی مایوسی کی وجہ اس طرح کی خبروں سے کہیں زیادہ ہمارے ملک کا سیاسی انتشار ہے جو آتش فشاں کی صورت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ آپ ٹی وی کا کوئی بھی چینل آن کریں آپ کو وہاں سیاسی مار دھاڑ کے مناظر دکھائی دیں گے۔ قانون کی بالادستی کا خواب بھی آئے روز چکنا چور ہو جاتا ہے جب عدالتی فیصلے سامنے آتے ہیں، دوسری طرف بے پناہ مہنگائی نے غریبوں کا جینا دوبھر کر دیا ہے، آج ایک خبر پڑھی جو دل دہلا دینے والی تھی، حالات کے مارے ایک شخص نے پہلے اپنے دو معصوم بچوں کو زہر دے کر موت کی نیند سلا دیا، بعد میں میاں بیوی نے بھی خود کشی کرلی۔ اس کی طرف دو مہینوں کا مکان کا کرایہ واجب الادا تھا جو وہ ادا کرنے کے قابل نہیں تھا، بچے دودھ مانگ رہے تھے، اوپر سے بجلی کا بل سترہ ہزار روپے آگیا، اس نے ان مسائل کا حل وہی سوچا جو اس نے کر دکھایا۔ ایک طرف یہ صورتحال ہے، دوسری طرف سڑکوں پر مہنگی گاڑیاں دوڑتی پھر رہی ہیں۔ آپ کسی مال میں جائیں وہاں لوگ لاکھوں کی خریداری کرتے نظر آتے ہیں، اسی طرح پاکستان کے کسی شہر میں چلے جائیں ان کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک انتہائی مہنگے گھر بنے ہوئے ہیں، نئی کالونیوں کا افتتاح ہو رہا ہے اور وہاں گھروں اور فلیٹس کی بکنگ کا لامتناہی سلسلہ جاری ہے۔ ٹی وی پر یہ خوبصورت گھر دکھائے جاتے ہیں، جنہیں دیکھ کر دو مہینے کا مکان کا کرایہ نہ دے سکنے اور بچوں کے لئے دودھ خریدنے کی سکت نہ رکھنے والے وہی کچھ کرتے ہیں جو وہ کر سکتے ہیں۔
اپنا ملک چھوڑ کر یورپ اور امریکہ جانے کا خواب دیکھنے والے لاکھوں نوجوان ہیں جن میں سے کچھ کا یہ خواب پورا ہو جاتا ہے اور باقیوں کی کشتی سمندرمیں ڈوب جاتی ہے اور ان کی لاش بھی نہیں ملتیں۔ صاحب حیثیت لوگوں کے پاس ان ملکوں کی شہریت ہے ، چنانچہ انہیں اس کی کوئی فکر نہیں کہ اگر ملک کو کچھ ہوا تو ان کا کیا بنے گا،کہ ان کے پاس تو سب کچھ ہے اور جو متوسط طبقے کے لوگ ہیں ان میں سے اکثریت کے والدین نے اپنا سب کچھ بیچ کر اپنے بچوں کو باہر بھیجا ہوتا ہے میں ایسے بیسیوں لوگوں کو جانتا ہوں جو اپنے گھروں میں تنہائی کے دن گزار رہے ہیں، ان کا پرسانِ حال کوئی نہیں، انہیں ماہوار خرچہ تو بھیج دیا جاتا ہے لیکن وہ بیمار پڑ جائیں توان کے لخت جگر ان کے پاس نہیں ہوتے اور اگر وفات پا جائیں تو کچھ جنازے کو کاندھا دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور کچھ کو بروقت فلائٹ نہیں مل پاتی۔ یہ انتہائی افسوس ناک صورتحال ہے۔ اب پاکستان میں بھی اولڈ پیپلز ہوم بننا شروع ہوگئے ہیں۔ میری خوش فہمی ہے کہ ان ہومز میں صاحب حیثیت افراد کے والدین نہیں رہتے ہوں گے۔ البتہ غریب اور متوسط طبقے میں ایسے لوگ یقیناً موجود ہیں جو اپنے والدین کو یہاں جمع کرا جاتے ہیں اور رسید حاصل کر لیتے ہیں کہ ایک عدد بوڑھا یا بوڑھی جمع کرا کے رسید حاصل کرلی تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔
ہمارے حکمرانوں نے قائد اعظم کے دو قومی نظریے کو دفن کرکے جو دو قومی نظریہ رائج کیا ہے وہ غریبوں اور امیروں کی دو الگ الگ ’’قومیں‘‘ ہیں، ایک کے بچے سرکاری اسکولوں میں پڑھتے ہیں اور دوسروں کے بچے لاکھوں روپوں کی فیسیں ادا کرکے ایلیٹ تعلیمی اداروں میں تعلیم کم حاصل کرتے ہیں، موج میلہ زیادہ کرتے ہیں، اب تعلیم بھی اسٹیٹس سمبل بن گئی ہے۔اگر آپ کے پاس وافر تعداد میں پیسہ ہے تو آپ کے بچے پرائیویٹ لاء کالجزاور پرائیویٹ میڈیکل کالجز کی لاکھوں کی فیسیں ادا کرکے وکیل اور ڈاکٹر بھی بن سکتے ہیں، بصورت دیگر آپ کی قسمت ساتھ دے تو ۔
یہاں تک لکھ کر مجھے خیال آیا کہ میں نے صورت حال کی کچھ زیادہ ہی بھیانک تصویر پیش کردی ہے۔ ورنہ اس گئے گزرے دور میں بھی آپ کی محنت آپ کے کام آتی ہے۔ چنانچہ ہماری بیورو کریسی اور دوسرے شعبوں میں نمایاں کارکردگی دکھانے والے لوگ بہت غریب اور متوسط طبقوں سے ہیں، بہت بڑے بڑے صنعت کاروں نے بھی بہت کم سرمائے سے اپنے کام کا آغاز کیا اور کہیں کے کہیں پہنچ گئے۔ میں نے لالٹین کی روشنی میں پڑھنے والے بچوں کا بامِ عروج بھی دیکھا ہے، سو بے شک حالات اچھے نہیں ہیں، سیاسی ابتری ہے، لوگوں کو انصاف نہیں سکتا، سفارش بھی سو دکھوں کا ایک حل ہے تاہم ہمیں مایوس ہونے کی ضرورت نہیں، ہمیں اس ظلمت کو روشنی میں بدلنے کے لئے اپنا بھرپور کردار ادا کرنا چاہئے، بقول احمد فراز ؎
شکوۂ ظلمتِ شب سے تو کہیں بہتر ہے
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جائیں