بہت حوالوں سے نسیم زہرہ ہمارے گھر کا فرد بن چکی ہے۔ بطور صحافی میری اس سے دیرینہ بے تکلفی بھی ہے۔ نہایت سنجیدہ طبیعت کی مالک ہوتے ہوئے بھی میرا پھکڑپن برداشت کرلیتی ہے۔ گزشتہ کئی ہفتوں سے مجھے اپنے شو میں مدعو کرنا چاہ رہی تھی۔ چند واجب وجوہات کے باعث میں شریک نہ ہو پایا۔ جائز وجوہات ہوتے ہوئے بھی انکار سے نادم رہا۔ گزرے جمعہ شرکت کی دعوت ملی تو انکار کا حوصلہ نہ ہوا۔
اس دن کی صبح جو کالم چھپا تھا اس کا موضوع تحریک انصاف کی لاہور کے زمان پارک سے داتادربار جانے کے ارادے سے نکالی ریلی کو پولیس تشدد کے ذریعے روکنا تھا۔ تحریک انصاف کے بارے میں اپنے دل میں جمع ہوئے بے شمار تحفظات کے اعتراف کے باوجود صراحت سے یہ لکھنے کو مجبور ہوا کہ اسلام آباد بیٹھے میرے موبائل فون پر مذکورہ ریلی کے ساتھ ہوئے ’سلوک‘ کی بابت تواتر سے وصول ہوتی وڈیوز نے تاثر یہ دیا ہے کہ لاہور پولیس کا رویہ بلاجواز حد تک جارحانہ تھا۔ نگران حکومت کے پاس اس کا مو¿ثر دفاع موجود نہیں۔
چھپا ہوا کالم سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے کے بعد دل خوش فہم نے امید باندھی کہ تحریک انصاف کے چند سنجیدہ طبع قاری میری ’غیر جانب داری‘ کو سراہیں گے۔ کسی بھی نوع کی ستائش مگر نصیب نہ ہوئی۔ دل کو مگر ملال بھی نہیں ہوا۔ برسوں سے یہ طے کررکھا ہے کہ بطور کالم نگار میرا فرض دل کی بات کرنا ہے۔ دکھ فقط اس وقت ہوتا ہے جب نام نہاد ’آزادیِ اظہار‘ کے مفروضہ موسم میں بھی چند اہم ترین موضوعات کا اشاروں کنایوں میں ذکر بھی ناممکن نظر آئے۔ بہرحال دیگر مصروفیات سے فراغت کے بعد نسیم زہرہ کے شو میں شرکت کے لیے جمعہ کی شام اس کے دفتر روانہ ہوگیا۔
وہاں پہنچا توطویل وقفے کے بعد مطیع اللہ جان سے بھی ملاقات ہوگئی۔ دوہری خوشی یہ جان کر بھی ہوئی کہ ابصار عالم سٹوڈیو میں نہ سہی وڈیو لنک کے ذریعے ہماری گفتگو میں شریک ہونے والے تھے۔ روایتی سلام دعا اور حال احوال پوچھنے کے بعد پروگرام کا آغاز ہوگیا۔ نسیم زہرہ ملک کی عمومی سیاسی صورتحال زیر بحث لانا چاہ رہی تھی۔ اس ضمن میں زیادہ توجہ ان نکات پر مرکوز رکھی جو محترمہ مریم نواز صاحبہ نے حال ہی میں دیے چند ٹی وی انٹرویوز میں اجاگرکیے ہیں۔ ہمارے تبصرہ نگاروں کی اکثریت مریم نواز صاحبہ کے تازہ انٹرویوز کا باریک بینی سے جائزہ لینے کے بعد یہ سوچ رہی ہے کہ وہ انتخاب سے قبل ’احتساب‘ کی طلب گار ہیں۔آئی ایس آئی کے سابق سربراہ فیض حمید کے ’کورٹ مارشل‘ کا مطالبہ اور نواز شریف کو سیاست کے لیے تاحیات نااہل قرار دینے والے عدالتی فیصلوں پر کڑی تنقید مذکورہ تناظر میں ’جواز‘ فراہم کرتے محسوس ہوئے۔
نسیم زہرہ نہایت خلوص سے یہ جاننا چاہ رہی تھیں کہ محترمہ مریم نواز واقعتا انتخاب سے پہلے احتساب کی خواہاں ہیں یا نہیں۔ یہ سوال پروگرام کے شرکاءمیں سے سب سے پہلے مجھ سے پوچھا گیا۔ تفصیلات میں الجھنے کے بجائے ’پہلے احتساب پھر انتخاب‘ کے تصور نے مجھے 1977ءکی یاددلادی جب جنرل ضیاءسے ملاقات کے بعد ولی خان صاحب نے یہی مطالبہ اٹھایا تھا۔ یہ مطالبہ میری دانست میں جنرل ضیاءکے مارشل لاءکو آٹھ برسوں تک پھیلانے کا باعث ہوا۔ انتخابات اس کی وجہ سے ہمیں 1985ءمیں نصیب ہوئے۔ وہ بھی ’غیر جماعتی بنیادوں‘ پر۔ اس کے نتیجے میں عوامی نمائندوں کو آج بھی کامل اقتدار منتقل نہیں ہوا ہے۔ سیاستدان مقتدر کہلاتے حلقوں کی ’بی ٹیم‘ ہی ثابت ہورہے ہیں۔
مریم نواز صا حبہ سے منسوب ’پہلے ا حتساب،پھر انتخاب‘ والی سوچ کی بابت میری رائے قطعاً بے بنیاد یا ناقص ہوسکتی ہے۔ مریم صاحبہ کے وفادار اگر اس کی وجہ سے مجھے کڑی تنقید کا نشانہ بناتے تو میں پریشان نہ ہوتا۔ نسیم زہرہ کے پروگرام میں نشر ہوئی میری رائے کو تاہم کشادہ دلی سے نظرانداز کردیا گیا۔
ان دنوں نسیم زہرہ جس ٹی وی سے منسلک ہیں پنجاب کے وزیر اعلیٰ محسن نقوی اس کے بانی ہیں۔ اس حقیقت کے باوجود نسیم نے انتہائی درد مندی سے اپنے پروگرام کے آخری سیگمنٹ کو تحریک انصاف کے کارکن علی بلال کی ہلاکت کے حقیقی اسباب جاننے کو وقف کیا۔ دیرینہ ذاتی تعلق کی بنیاد پر اصرار کررہا ہوں کہ نسیم زہرہ ’ڈرا مے بازی‘ کی عادی نہیں۔ مذکورہ ہلاکت کے بارے میں اٹھایا ہر سوال اس نے فکرمندی کے جذبات سے مغلوب ہوکر اپنے پروگرام کے شرکاءکے روبرو رکھا۔ میں نے بھی دیانت داری سے کھل کراعتراف کیا کہ سوشل میڈیا کے پھیلائے ہیجان کی بدولت صحافی کے لیے ’سچ‘ ان دنوں دریافت کرنا بہت مشکل ہوگیا ہے’خبر‘یا ’سچ‘ وہی بن جاتا ہے جو کلپس کی بھرمار کی صورت آپ کے موبائل فون پر سب سے پہلے اور تواتر سے نموار ہونا شروع ہو جائے۔ جائے وقوعہ سے کہیں دور بیٹھے ہوئے میں سوشل میڈیا پر حاوی بیانیے کی بدولت یہ سوچنے کو مجبور ہوں کہ ’نظربظاہر‘ تحریک انصاف کے کارکن کی ہلاکت پولیس کے ہاتھوں ہوئی۔
میری رائے بلاکانٹ چھانٹ آن ایئر چلی گئی۔ بعدازاں اس کی کلپس سوشل میڈیا پر پوسٹ ہوئیں تو تحریک انصاف کی سپاہ ٹرول نے میری جانب سے ’نظر بظاہر‘ کے استعمال کو بنیاد بناتے ہوئے مجھے شریف خاندان کا غلام پکارنا شروع کردیا۔’صحافی‘ کا لبادہ اوڑھے ’ضمیر فروش‘ جو ’سچ‘ بتانے کی جرا¿ت سے قطعاً محروم ہے۔’سچ‘ قصہ مختصر وہی ہے جو تحریک انصاف کے بیانیے کی تصدیق کردے۔آپ اگر اس سے مکمل اتفاق نہ کریں تو ’ضمیر فروش‘ کہلاتے ہیں۔
ہفتے کے دن پنجاب پولیس سی سی ٹی وی کیمروں سے جمع کی ہوئی کلپس اور چند گرفتاریوں کی بدولت ’جوابی بیانیہ‘ بھی ہمارے روبرو لے آئی ہے۔ سچی بات یہ بھی ہے کہ اس کا سرسری جائزہ میرے ذہن میں اٹکے کئی سوالات کے تشفی بخش جواب فراہم نہیں کرتا۔ علی بلال کی الم ناک ہلاکت کے بارے میں ہمارے روبرو لہٰذا دو قطعاً متضاد بیانیے آگئے ہیں۔میں ان میں سے کسی ایک کی بھی سینہ پھلاکر تردید یا تائید کے قابل نہیں ہوں۔
اپنے عجز کے اعتراف کے بعد البتہ ہاتھ باندھ کر التجا کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اندھی نفرت وعقیدت میں مریضانہ حد تک تقسیم ہوئے معاشرے میں صحافت اگر قابل اعتبار نہیں رہی تو کوئی غم نہیں۔ 22کروڑ کے ملک میں لیکن جو خود کو جدید اور جمہوری ثابت کرنے کو بھی مصر ہے ایسا کوئی ادارہ یا قابل اعتبار افراد کا گروہ باقی کیوں نہیں رہا جو اگر علی بلال کی ہلاکت کے بارے میں ہمارے سامنے آئے دو متضاد بیانیوں میں کسی ایک کو درست قرار دے تو ہم سب کھلے دل سے اسے تسلیم کرلیں۔ اپنے اپنے ’سچ‘ کو دہراتے فریق مگر دل دہلادینے والے اس پہلو پر توجہ ہی نہیں دیں گے۔ اس پہلو کو نظرانداز کرتے ہوئے یہ حقیقت فراموش کردیں گے کہ شام جیسے ممالک میں کئی برسوں سے جو افراتفری اور وحشت پھیلی ہوئی ہے اس کی بنیادی وجہ ہی قابل اعتبار اداروں کا عنقا ہوجانا ہے۔ اب بھی وقت ہے اپنے اپنے ’سچ‘ پر ڈٹے ہوئے ہم خود کو اس جانب بڑھنے سے روکیں۔ صاف شفاف تحقیقات کے ذر یعے علی بلال کی ہلاکت کے اسباب اور ذمہ داروں کا تعین کرنے پر توجہ دیں۔وطن عزیز پر رحم کریں، رحم!