دنیابھرسے

52 اہداف کا ذکر کرنے والوں کو 290 کا نمبر بھی یاد کرنا چاہیے، ایرانی صدر

Share

ایران کے صدر حسن روحانی نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے 52 اہداف کو نشانہ بنانے کی دھمکی پر جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں 290 کا نمبر بھی یاد کر لینا چاہیے۔

سماجی رابطےکی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے پیغام میں ایرانی صدر کا کہنا تھا کہ ‘جو 52 کے نمبر کا حوالہ دے رہے ہیں انہیں آئی آر655 کے 290 کے نمبر کو بھی یاد کرلینا چاہیے’۔

حسن روحانی نے کہا کہ ‘ایرانی قوم کو کبھی دھمکی نہ دینا’۔

قبل ازیں ڈونلڈ ٹرمپ نے جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد ایرانی قیادت کے بیانات پر تہران کے ثقافی مراکز کو نشانہ بنانے کی دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر ایران نے امریکیوں یا امریکی اثاثوں پر حملہ کیا تو ہم 52 ایرانی اہداف کو نشانہ بنائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘یہ 52 اہداف میں سے چند ایران اور ایرانی ثقافت کے لیے نہایت اہم اور اعلیٰ سطح کے ہیں اور ان اہداف سے ایران کو بہت بڑا دھچکا لگے گا، امریکا مزید دھمکیاں نہیں دینا چاہتا’۔

امریکی صدر نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ‘ایران کئی برسوں سے ایک مسئلہ بنا ہوا ہے اور اسے ایک دھمکی سمجھا جائے کہ اگر ایران نے امریکیوں یا امریکی اثاثوں پر حملہ کیا تو ہم 52 ایرانی اہداف کو نشانہ بنائیں گے’۔

حسن روحانی نے 52 اہداف کا ذکر کرنے پر 290 کے نمبر کی طرف بھی اشارہ کیا جو امریکا کی جانب سے مشرق وسطیٰ میں ایرانی مسافر جہاز کو نشانہ بنانے کے بدترین واقعے کی یاد دلانا تھا۔

یاد رہے کہ ایران میں انقلاب کے بعد نومبر 1979 میں 52 امریکی شہریوں کو یونیورسٹی کے طلبہ نے یرغمال بنایا تھا جو ایرانی انقلاب کے حامی تھی۔

طویل عرصے تک حراست میں رکھنے کے بعد بالآخر20 جنوری 1981 کو تمام 52 افراد کا رہا کردیا گیا تھا۔

بعد ازاں جولائی 1988 میں خلیج فارس میں امریکی نیوی کے جنگی جہاز نے ایرانی ہوائی جہاز کو نشانہ بنایا تھا جس کے نتیجے میں 66 بچوں سمیت تمام 290 مسافر جاں بحق ہوگئے تھے۔

امریکی صدر نے یہ بیان سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای اور صدر حسن روحانی کی جانب جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کا بدلہ لینے کے اعلان پر دیا اور کہا کہ ’انہیں سڑکوں پر بم استعمال کرنے اور ہمارے لوگوں کو دھماکے سے اڑا دینے کی اجازت ہے اور ہمیں ان کے ثقافتی مقامات کو چھونے کی بھی اجازت نہیں؟ اب ایسا نہیں چلے گا‘۔

واضح رہے کہ عالمی قانون اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد اور ثقافتی املاک کے تحفظ سے متعلق ہیگ کنونشن 1954 کے تحت فوجی کارروائی کے ساتھ ثقافتی مقامات کو نشانہ بنانا جنگی جرم سمجھا جاتا ہے۔

اس حوالے سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد کی حمایت 2017 میں ٹرمپ انتظامیہ نے کی تھی۔