متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان نے پارٹی کے بانی الطاف حسین کے خلاف لندن میں پارٹی کی جائیدادوں کی ملکیت کا مقدمہ جیت لیا۔
انگلینڈ اینڈ ویلز ہائی کورٹ میں بزنس اینڈ پراپرٹی کے جج طور فرائض انجام دینے والے جائیداد اور کاروباری امور کے جج کلائیو جونز نے ایم کیو ایم پاکستان کی درخواست پر فیصلہ جاری کیا۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان ہی اصل ایم کیو ایم ہے اور اس کے اراکین ہی ٹرسٹ اور جائیدادوں کے مالک ہیں، جہاں عدالت میں درخواست وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) امین الحق نے دائر کی تھی۔
جج نے فیصلے میں کہا کہ یہ ثابت نہیں کیا گیا کہ 2015 کے آئین پر عمل درآمد کیا گیا ہے اور مقدمے کی رو سے بھی ایسا نہیں ہوا اور اس کے بجائے اپریل 2016 کے آئین کی پیروی کی گئی۔
جائیداد کا ایک حصہ عمران فاروق کے بچوں کو دیا جائے گا، خالد مقبول صدیقی
بعد ازاں ایم کیو ایم کے کنوینر خالد مقبول صدیقی نے کراچی میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یقین دلاتے ہیں کہ امانت کا ایک ایک پیسہ خدا کی رضا کے لیے استعمال کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ یہ جائیدادیں کوئی بھی اپنی ذاتی یا سیاسی فائدے کے لیے استعمال نہیں کر پائے گا، ہم سب نے مل کر یہ طے کیا ہے کہ ان جائیدادوں میں سے ایک حصہ ڈاکٹر عمران فاروق، جن کی بیوہ اور بچے لندن میں کسمپرسی میں وقت گزار رہے ہیں اور ان کے پاس علاج کے پیسے بھی نہیں ہیں، ان کا حق وہی لندن میں دیا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک نئے عزم اور نئے حوصلے کے ساتھ اپنے اصولوں پر قائم رہنے کے بعد مشکلات سے گزر کر ہمیں کامیابی ملنا شروع ہوئی ہے جو نہ صرف سندھ کے شہری علاقوں بلکہ پاکستان کے لیے بھی امید کی ایک کرن ہے۔
سربراہ ایم کیو ایم پاکستان نے کہا کہ ہمارے پاس ایک ہسپتال، یونیورسٹی، اسکول بھی ہے تو ہم یہ فنڈ تعلیم اور صحت پر استعمال کریں گے اور خاص طور پر خواتین کو ہنر سکھانے کے لیے بھی فنڈ استعمال ہوگا۔
برطانیہ میں ایم کیو ایم کی جائیداد کا مقدمہ
ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما اور وفاقی وزیر سید امین الحق، الطاف کی زیر قیادت ایم کیو ایم کے سابق کنوینر ندیم نصرت اور سابق معتمد طارق میر نے نومبر 2022 کے اواخر میں ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین کے خلاف جائیداد کا مقدمہ دائر کیا تھا۔
امین الحق کی سربراہی میں درج مقدمہ شمالی لندن کی سات جائیدادوں کے حوالے سے ایک کروڑ پاؤنڈ مالیت کا تھا، جس پر الطاف حسین کے سابق وفاداروں نے ملکیت کا دعویٰ کیا تھا۔
ایم کیو ایم کے رہنماؤں نے اثاثوں کی ملکیت کے حوالے سے مقدمے میں کہا تھا کہ یہ جائیداد ایم کیو ایم پاکستان کی ہے جس کے اراکین ٹرسٹ یا اس کے تحت تعمیری ٹرسٹس سے مستفید ہوتے ہیں اور کرائے کی آمدنی یا فروخت سے حاصل ہونے والی آمدنی سمیت اس سے حاصل ہونے والے تمام فوائد ایم کیو ایم پاکستان کو ’غریب اور نادار لوگوں‘ کو فائدہ پہنچانے کے لیے وقف کرنا چاہیے۔
ایم کیو ایم پاکستان کا موقف تھا کہ ٹرسٹ کی اس شق کی خلاف ورزی کی گئی ہے، ایم کیو ایم پاکستان کی جانب سے دعویٰ کرنے والے نے کہا کہ دیانت داری سے کام کرنے میں ناکامی اور فائدہ اٹھانے والوں اور یا ٹرسٹس کے مفاد میں وہ اپنے اور ایم کیو ایم پاکستان کے لیے یو کے ٹرسٹیز ایکٹ 1925 کے تحت ٹرسٹیز کو ہٹانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
شمالی لندن میں جائیدادوں کے حوالے سے ٹرائل جنوری کے آخر میں مکمل ہوگیا تھا، جس کے دوران ایم کیو ایم کے بانی نے سماعتوں میں شریک ہوئے اور اپنے ہی سابق وفاداروں کا سامنا کیا اور وہ خود کو بطور پارٹی سربراہ ان 7 جائیدادوں کا مالک ہونے کا دعویٰ کر رہے تھے۔
یاد رہے کہ ایم کیو ایم اگست 2016 میں الطاف حسین کی اشتعال انگیز تقریر کے بعد تقسیم ہوگئی تھی اور اس سے قبل مارچ 2016 میں کراچی کے سابق ناظم مصطفیٰ کمال کی سربراہی میں اہم رہنماؤں نے پاک سرزمین پارٹی کے نام سے الگ جماعت بنانے کا اعلان کیا تھا۔
ایم کیوایم نے الطاف حسین سے علیحدگی کے بعد پارٹی کا نام ایم کیو ایم پاکستان رکھا اور نیا آئین ترتیب دیا تھا اور اس کے تحت لندن کی جائیدادوں کی ملکیت کا بھی دعویٰ کیا گیا تھا۔