آئی ایس آئی سے وابستہ ہونے کا دعویٰ کرتے افراد ’پھٹتے آموں کا کیس‘ کی تمام کاپیاں لے گئے
معروف مصنف اور صحافی محمد حنیف کی سنہ 2008 میں لکھی گئی کتاب ‘اے کیس آف ایکسپلوڈنگ مینگوز’ کے اردو ترجمے ’پھٹتے آموں کا کیس‘ کی کاپیاں پاکستانی خفیہ اداروں کی جانب سے ضبط کرنے کے الزام کے بعد سوشل میڈیا پر صارفین اور قارئین میں یہ بحث بھی چھڑ گئی کہ آخر اصل کتاب کی اشاعت کے ایک دہائی سے زیادہ عرصے بعد اب ایسی کارروائی کیوں ہوئی۔
محمد حنیف نے چھ جنوری کو ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا کہ مبینہ طور پر پاکستانی فوج کے خفیہ ادارے انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) کے اہلکار ہونے کا دعویٰ کرنے والے کچھ افراد نے ان کی ایک کتاب کی کاپیاں ناشر کے دفتر میں زبردستی داخل ہو کر ضبط کر لی ہیں۔
محمد حنیف کا کہنا تھا کہ ‘آئی ایس آئی سے ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے کچھ لوگ مکتبہ دانیال کے دفاتر میں زبر دستی داخل ہوئے، کتاب کے اردو ترجمے کی کاپیاں ضبط کر لیں، میرے بارے میں معلومات طلب کی اور مینجر کو کل دوبارہ آنے کی دھمکی دی ہے۔’
محمد حنیف نے یہ بھی کہا کہ یہ کارروائی ایسے وقت ہوئی جب ’گذشتہ ہفتے ہمیں جنرل ضیا الحق (پاکستان کے سابق فوجی آمر) کے صاحبزادے اعجاز الحق کی جانب سے ایک ارب روپے کا ہتکِ عزت نوٹس آیا تھا جس میں دعویٰ کیا گیا کہ ہم نے جنرل ضیا کو بدنام کیا ہے۔‘
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے محمد حنیف نے بتایا کہ ’یہ افراد بغیر کسی ثبوت اور شناخت کے آئی ایس آئی سے ہونے کا دعویٰ کر رہے تھے اور ان کی کتاب ’پھٹتے آموں کا کیس‘ کی تمام کاپیاں اپنے ساتھ لے گئے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ان افراد نے مکتبہ دانیال کے مینجر کو دھمکیاں دیں اور کہا کہ وہ ’کتاب فروشوں کی فہرستیں لینے دوبارہ آئیں گے۔۔۔ ان افراد نے دھمکی دی کہ کتابوں کے خلاف نیا حکومتی آرڈیننس بھی لایا جائے گا۔‘
یاد رہے کہ مکتبہ دانیال پاکستان کا ایک جانا مانا پبلشنگ ہاؤس ہے جس نے معروف ادبی شخصیات جیسے حبیب جالب، افتخار عارف، مشتاق احمد یوسفی کی تصانیف شائع کی ہیں۔ یہ کتابیں ملک بھر سمیت کئی ملکوں میں خریدی جاتی ہیں۔
’کتاب 11 سال پہلے شائع ہوئی تھی‘
محمد حنیف کا کہنا ہے کہ ان کی کتاب ’اے کیس آف ایکسپلوڈنگ مینگوز‘ 11 سال قبل شائع ہوئی تھی۔ ’اس وقت سے اب تک کسی نے مجھے کچھ نہیں کہا۔ تو اب کیوں؟ میں یہاں بیٹھا انتظار کر رہا ہوں کہ وہ کب آئیں گے۔‘
محمد حنیف نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ اعجاز الحق کی جانب سے دیے گئے نوٹس کے خلاف جواب تیار کر رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’یہ معلوم کیا جائے کہ ان افراد کا اعجاز الحق سے کیا تعلق ہے۔‘
انھوں نے سوال کیا کہ ’کیا آئی ایس آئی ایک انفرادی شخص کے لیے یہ اقدامات کر رہی ہے؟‘
جب بی بی سی نے ان سے پوچھا کہ ان کے مطابق ان افراد کا مقصد کیا تھا تو انھوں نے جواب دیا کہ ’ایسا لگتا ہے کہ وہ کچھ بچی کھچی کتابیں پڑھنے کے شوقین افراد کو ڈرانا چاہتے ہیں۔‘
دوسری طرف محمد حنیف کے انگریزی ناول کے اردو مترجم سید کاشف رضا نے بھی فیس بک پر ایک پوسٹ میں کہا کہ نوٹس کے جواب میں انھوں نے بھی ایک وکیل سے رابطہ کیا تھا تاہم سکیورٹی ادارے کا دعویٰ کرتے ہوئے کچھ افراد پبلشر سے تمام کاپیاں لے گئے۔
پاکستان میں برطانوی اشاعتی ادارے آکسفرڈ یونیورسٹی پریس کی سابق مینجنگ ڈائریکٹر امینہ سید کا کہنا ہے محمد حنیف کی کتاب بارہ سال قبل شائع ہوئی جس کے بعد اس کی رونمائی کی تقریبات اور ادبی میلوں میں کبھی کوئی ایسا رد عمل سامنے نہیں آیا۔
امینہ سید کئی سال آکسفرڈ پریس سے وابستہ رہی ہیں کراچی لٹریچر فیسٹیول کے بانیوں میں ان کا شمار ہوتا ہے، ان کا کہنا ہے کہ ایسی صورتحال سے پبلشر کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے لیکن ایسا نہیں ہونا چاہیئے انہیں آزادی ہونی چاہیے۔
’اردو کے قارین کی تعداد بہت بڑی ہے جس سے کچھ لوگ گھبراتے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ آج کل کچھ زیادہ ہی سختی ہوگئی ہے، یہ ایک افسوسناک عمل ہے یہ تو اظہار رائے ہے اس طرح نہیں ہونا چاہیئے تھا۔‘
امینہ سید کا کہنا ہے کہ اس طرح کی حرکت سے لوگوں کی اس کتاب میں زیادہ دلچسپی پیدا ہوگی۔ ’جو کتاب نہیں بھی پڑہنا چاہتا، اب وہ ضرور پڑھے گا اور کسی طرح بھی ڈھونڈ کر حاصل کریگا۔‘
امینہ سید نے کہا کہ ہمیشہ نان فکشن کے خلاف ایکشن لیا جاتا رہا ہے۔
’حالیہ دنوں شجاع نواز کی کتاب کی رونمائی نہیں ہونے دی لیکن وہ تو نان فکشن تھی۔ محمد حنیف کہہ رہے ہیں کہ ضیاالحق کے بیٹے اعجاز الحق نے شاید یہ ایکشن لیا ہے، پہلے تو انہوں نے ایسے نہیں کیا۔‘
سوشل میڈیا پر رد عمل
اس ٹویٹ کے بعد صارف ماجد خان نے محمد حنیف کی گذشتہ سال ادبی فیسٹیول میں کی گئی گفتگو یاد کرتے ہوئے لکھا کہ مجھے یاد ہے کہ جب آپ نے کہا تھا کہ اس کتاب کو انگریزی میں شائع ہوئے 10 سال ہوچکے ہیں اور مجھے کبھی کوئی مسئلہ پیش نہیں آیا۔
‘آپ کو نہیں پتہ کہ انھیں اکثر بات دس سال بعد سمجھ آتی ہے۔ یہ ظالم لطیفہ آج سچ ہو گیا۔’
صحافی حسن زیدی نے سابق جنرل ضیا الحق کے بیٹے اعجازالحق کی جانب سے محمدحنیف کو ہتک عزت کا نوٹس دیے جانے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ‘ایک بات تو ثابت ہوئی، اعجازالحق انگریزی نہیں پڑھتے۔’
بائیں بازو کی سیاست سے تعلق رکھنے والے عمار راشد کا کہنا تھا کہ ‘دی کیس اف ایکسپلوڈنگ مینگوز ’بوائز‘ کے لیے تب تک قابل قبول تھی جب تک یہ انگریزی بولنے والوں تک محدود تھی جبکہ اس کا اردو ترجمہ ایک ایسا خطرہ بن گیا جس کو روکنا لازم ہو گیا۔’
طنز و مزاح کے لیے پہچانے جانے والے ٹوئٹر اکاؤنٹ رینٹنگ پاکستانی کا کہنا تھا کہ ‘محمد حنیف کی کتاب ٹی وی سیریز بننے کے بہت قریب تھی لیکن وہ ہر صفحے پر پاکستان آرمی بہترین آرمی لکھنا بھول گئے۔’
جبکہ رکن پارلیمان محسن داوڑ کا کہنا تھاکہ دنیا ایک معروف مصنف کی کتاب پر پابندی یہ ظاہر کرتی ہے کہ قلم تلوار سے زیادہ طاقتور ہے۔’
محمد حنیف کون ہیں؟
فائٹر پائلٹ سے صحافی بننے والے محمد حنیف تین ناولوں کے مصنف ہیں۔ وہ بی بی سی اردو سروس کے سابق ایڈیٹر بھی رہ چکے ہیں۔
طنز و مزاح سے بھرپور ’اے کیس آف ایکسپلوڈنگ مینگوز‘ محمد حنیف کا پہلا ناول تھا جو سنہ 2008 میں شائع ہوا تھا۔ اسے سنہ 2009 میں کامن ویلتھ بُک پرائز ملا تھا۔
اِس ناول کے اردو ترجمے کا نام ’پھٹتے آموں کا کیس‘ رکھا گیا اور اسے 2019 میں شائع کیا گیا۔
اُن کے دوسرے ناول کا نام ’آور لیڈی آف ایلس بھٹی‘ ہے جو سنہ 2011 میں شائع ہوا۔ جبکہ سنہ 2018 میں اُن کی ناول ’ریڈ برڈز‘ منظرِ عام پر آئی۔
بشکریہ بی بی سی اُردو