منتخب تحریریں

سیاسی تماشا اور پی ایس ایل

Share

کرکٹ کی وجہ سے ’میری میکس‘ مشہور ہوئے۔ مقصود صاحب 1980 ءکی دہائی میں اسلام آباد سے نکالے انگریزی اخبار’دی مسلم‘ کے سپورٹس ایڈیٹر تھے۔ ان دنوں میں اسی اخبار کا ’چھوٹا رپورٹر‘ ہوتے ہوئے شہری مسائل اور یہاں ہوئی ثقافتی اور ا دبی تقریبات کے بارے میں ’ڈائری‘ نما کالم لکھتا تھا۔ وہ میری تحریروں کو شفیق استاد کی طرح سراہتے۔چند ستائشی جملے ادا کرنے کے بعد مگر اصرار کرنا شروع ہوجاتے کہ میں کرکٹ میچوں پر بھی تبصرہ نما چیزیں لکھاکروں۔ میں بارہا عرض کرتا کہ مجھے کرکٹ کی ککھ سمجھ نہیں ہے۔میں آج تک یہ بھی نہیں جان پایا کہ کوئی بلے باز ایل بی ڈبلیو کی وجہ سے پچ سے باہر کیوں بھیج دیا جاتا ہے۔وہ مصررہتے کہ ان کے ہمراہ دو یا تین ٹیسٹ میچ کمنٹری باکس میں دیکھنے کے بعد میں اس کھیل کے اسرارورموز بآسانی جان لوں گا۔ان کے ہاتھ مگر میں نہیں آیا۔ادب اور ثقافت پر لکھنے سے ’ترقی‘ پاکر ملکی سیاست اور خارجہ امور پر رپورٹنگ شروع کردی اور خود کو پھنے خان رپورٹر سمجھنے کا جواز ڈھونڈ لیا۔

ہفتے کی شام مرحوم مجھے بے تحاشہ یاد آئے۔ دو قریب ترین دوستوں کے ساتھ بیٹھ کر پی ایس ایل کا فائنل دیکھا۔ لاہور قلندرز اور ملتان سلطانز کے مابین آخری گیند تک کانٹے کا مقابلہ ہوا۔ بالآخر جیت قلندر کی ہوئی اور مجھے اس کی بابت بے پناہ طمانیت اس وجہ سے بھی محسوس ہوئی کہ اس ٹیم کے بانی اور سرپرست رانا برادران ہیں۔ وہ میرے چھوٹے بھائیوں کی مانند ہیں۔ مجھے اپنی ٹیم کا حصہ سمجھتے ہوئے اکثر وہ ٹی شرٹس بھیجتے رہتے ہیں جو لاہور قلندرز کے کھلاڑی میچ کے دوران پہنتے ہیں۔ان کی پشت پر میرا نام لکھا ہوتا ہے۔ ہفتے کا میچ دیکھتے ہوئے مجھے بالآخر یہ علم بھی ہوگیا کہ ’کوورڈرائیو‘ کیا ہوتی ہے!

لاہور قلندرز سے محبت کے باوجود ہفتے کے روز ہوا میچ میں نے اپنے اعصاب کو تسکین دینے کے لیے نہایت شوق سے دیکھا۔گزشتہ کئی دنوں سے حکومت اور عمران خان کے مابین ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی جو جنگ جاری تھی اس نے میرے وسوسوں بھرے دل کو ادا س وپریشان کررکھا ہے۔ دل میں کھولتی تشویش پر قابو پانے کے لیے مجھے ’کچھ اور‘ کی ضرورت تھی۔ ہفتے کے میچ نے وہ فراہم کردیا۔

یہ میچ دیکھنے کے بعد میں عمران خان اور حکومت کے درمیان جاری مقابلے کا ’سکور کارڈ‘بیان کرنے میں بھی آسانی محسوس کررہا ہوں۔ کوئی پسند کرے یا نہیں میری دانست میں سابق وزیر اعظم نے ثابت کردیا ہے کہ وہ بھان متی کا کنبہ دکھتی حکومت کے لیے ناقابل تسخیر بن چکے ہیں۔ان کے گرویدہ کارکن کئی دنوں تک لاہور کے زمان پارک میں ان کے آبائی گھر کے باہر حصار کی صورت جمع رہے۔ اپنے قائد کو انھوں نے ’ریڈ لائن‘ بنائے رکھا۔عمران خان کے خلاف بنائے مقدمات کی وجہ سے جاری ہوئے وارنٹ کی بدولت گرفتاری سے بچنے کے لیے سابق وزیر اعظم کے لیے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کرنا لازمی تھا۔ ان کی درخواست کو ہمدردی اور احترام سے سنا گیا۔ عدالت نے اس امر کو بھی تسلیم کیا کہ اپنے مداحین کے ہجوم کے ساتھ زمان پارک سے مال روڈ کے آخری گوشے میں واقع عدالت تک پہنچنے کے لیے تحریک انصاف کے قائد بروقت حاضر نہیںہوسکیں گے۔ ان کا انتظار ہوا۔ ان کی جان کو درپیش خطرات نگاہ میں رکھتے ہوئے ’ملزم‘ کی بلٹ پروف کار کو ہائی کورٹ کے احاطے میں داخلے کی اجازت بھی مل گئی۔

مذکورہ حقائق ہی کو نگاہ میں رکھتے ہوئے عمران خان جب لاہور سے اسلام آباد کی نچلی سطح کی عدالت کے روبرو پیش ہونے کے لیے روانہ ہوئے تو متعلقہ عدالت ’ایک دن کے لیے‘جیوڈیشل کمپلیکس منتقل کردی گئی۔ وہ عمارت بھی تاہم عاشقان عمران کے نرغے میں آگئی۔ انھیں عدالت کے کمرے میں بلوانے کے بجائے ان کے خلاف قائم ہوئے مقدمے کی فائل ان کی مداحین کے ہجوم میں گھری گاڑی تک بھجوادی گئی۔ ان کی جانب سے مذکورہ فائل پرہوئے دستخط ’حاضری‘ کے برابر قرار پائے۔

دریں اثناءعمران خان جب اسلام آباد کے لیے روانہ ہوگئے تو لاہور پولیس نے زمان پارک پر دھاوا بول دیا۔وہاں موجود حفاظتی انتظامات کو کرینوں کے ذریعے مسمار کردیا گیا۔عارضی کیمپوں میں بیٹھے چند جانثار گرفتار بھی کرلیے گئے۔ سوشل میڈیا پر پولیس دھاوے کی ’وحشت‘ اجاگر کرنے کو لمحہ بہ لمحہ تصاویر کی بوچھاڑ جاری رہی۔بنیادی پیغام اس کی وجہ سے یہ ملا کہ لاہور پولیس روایتی ’چالاکی‘ سے عمران خان کے اسلام آباد روانہ ہونے کی منتظر تھی۔ جیسے ہی وہ موٹروے پہنچے ان کے گھرپر دھاوا بول دیا گیا۔ یہ دھاوالوگوں کی اکثریت کو ’غیر قانونی اور پولیس گردی‘ بھی محسوس ہوا۔حالانکہ ایک عدالت سے پولیس نے زمان پارک میں بنائے کیمپوں میں مبینہ طورپر موجود ’دہشت گردوں‘ کو گرفتار کرنے کے وارنٹ حاصل کررکھے تھے۔ یہ پہلو تاہم ہیجان کی بدولت کماحقہ انداز میں لوگوں کے روبرو نہ آپایا۔ تحریک انصاف کی میڈیا ٹیم نے ایک بار پھر ثابت کردیا کہ حکومت کی پراپیگنڈا مشینری چلانے والے تنخواہ دار ملازمین کے پاس ان کے بیانیے کا توڑ موجود نہیں ہے۔ مقامی ہی نہیں عالمی میڈیا بھی وہ کہانی ہی پروموٹ کرنے کو ٹھوس وجوہات کی بنا پر مائل ہوجاتا ہے جو تحریک انصاف کی میڈیا ٹیم اجاگر کرتی ہے۔

عمران خان کے انداز سیاست کے بارے میں میرے ہزاروں تحفظات ہیں۔ ان کے اظہار سے کبھی گریز بھی نہیں برتا۔ میڈیا کا طالب علم ہوتے ہوئے یہ حقیقت مگر نظرانداز نہیں کرسکتا کہ سیاست میں حقائق سے کہیں اہم تاثر یا Perceptionہوتا ہے۔ اسے نگاہ میں رکھتے ہوئے تسلیم کرنا ہوگا کہ پاکستانیوں کی کماحقہ تعداد شدت سے یہ محسوس کررہی ہے کہ ’غیر ملکی سازش‘کی بدولت قائم ہوئی ’امپورٹڈ حکومت‘سابق وزیر اعظم اور ان کے حامیوں کے خلاف مسلسل ’زیادتیوں‘ کی مرتکب ہورہی ہے۔ وفاقی اور پنجاب کی نگران حکومت مذکورہ تاثر جھٹلانے میں قطعاً ناکام رہی ہےں۔

جو تماشہ کئی دنوں سے جاری ہے ’اب کیا ہوگا‘ والے سوال کا تسلی بخش جواب ڈھونڈنا دشوار تر بنارہا ہے۔میں اس ضمن میں ناکام ہوجانے کے بعد ہی نہایت اشتیاق سے پی ایس ایل کا فائنل دیکھنے کو مجبور ہوا۔پی ایس ایل کا تاہم اختتام ہوگیا ہے۔ وسوسوں بھرے دل کی تسلی کے لیے اب غیر سیاسی تماشوں کی گنجائش بھی نظر نہیں آرہی۔ بہتر یہ ہی ہوگا کہ رمضان المبارک کے آغاز کا بے تابی سے انتظار کیا جائے اور ربّ کریم سے اس مقدس مہینے میں ہاتھ اٹھاکر دعائیں مانگیں کہ وہ ہم پر رحم کرے۔ہمارے دلوں کو سکون پہنچانے کا کوئی راستہ بنائے۔