صحت

بھوک بڑھانے والے ’ہارمون‘ سے دل کے جان لیوا مرض کا علاج ممکن

Share

ایک تازہ مگر مختصر تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ انسانوں میں بھوک بڑھانے والے خصوصی ہارمون سے ’ہارٹ فیل‘ کے مریضوں کا علاج کیا جا سکتا ہے اور مذکورہ ہارمون کے استعمال سے ہارٹ فیل جیسی سنگین بیماری سے بھی بچا جا سکتا ہے۔

انسان کا دل اس وقت ناکارہ ہوجاتا ہے جب اسے مطلوبہ خون مہیا نہیں ہو پاتا اور دل کو خون کی مناسب ترسیل نہ ہونے کی متعدد وجوہات ہوتی ہیں،جن میں سے بعض سنگین بھی ہوتی ہیں۔

اگرچہ خیال کیا جاتا ہے کہ دل ناکارہ ہونے سے انسانی جان نہیں بچ پاتی، تاہم بعض اوقات ہارٹ فیل ہونے کے باوجود انسان کی زندگی بچ جاتی ہے لیکن ایسے کیسز میں متاثرہ مریض کو بروقت طبی امداد کی ضرورت ہوتی ہے۔

یورپی ماہرین نے ہارٹ فیل کے مریضوں کو خون کی مناسب اور ترتیب وار خون کی ترسیل کے لیے ایک مختصر تحقیق کی، جس کے نتائج نے ماہرین کو بھی حیران کردیا اور انہوں نے اس پر مزید تحقیق پر زور دیا ہے۔

طبی جریدے ’یورپین ہارٹ جرنل‘ میں شائع تحقیق کے مطابق ماہرین نے 30 رضاکاروں پر بھوک بڑھانے والے ہارمون (acyl ghrelin) کے اثرات جانجنے کے لیے تحقیق کی۔

تحقیق میں شامل تمام رضاکاروں کے ماضی میں دل فیل ہوچکے تھے اور انہوں نے متعدد ادویات سے صحت اور زندگی پائی تھی۔

ماہرین نے تمام رضاکاروں کو دو گروپوں میں تقسیم کرکے ایک گروپ کو بھوک بڑھانے والے ہارمون (acyl ghrelin) سے دوائی دی جب کہ دوسرے گروپ کو ماہرین نے فرضی دوائی دی۔

تمام رضاکاروں کو دو گھنٹے تک فیوژن ڈرپ لگایا گیا اور انہیں ایسے عمل سے دو سے پانچ بار وقفے وقفے سے گزارا گیا۔

نتائج سے معلوم ہوا کہ جن رضاکاروں کو بھوک بڑھانے والے ہارمون (acyl ghrelin) سے تیار دوائی دی گئی ان کے دل کی حالت دوسرے گروپس کے مقابلے 28 فیصد بہتر ہوئی اور ان کے دل کو مناسب اور معیاری مقدار میں مطلوبہ خون کی ترسیل بھی ہوئی۔

علاوہ ازیں تمام رضاکاروں پر دوائی کے دوسرے کوئی منفی اثرات بھی نوٹ نہیں کیے گئے، ان میں پیٹ کے درد، بلڈ پریشر کم ہوجانے یا بڑھ جانے سمیت دیگر شکایات بھی سامنے نہیں آئیں۔

ماہرین کے مطابق مختصر اور محدود تحقیق سے معلوم ہوا کہ بھوک بڑھانے والے ہارمون (acyl ghrelin) سے دوا ہارٹ فیل کے مریضوں پر بہترین طریقے سے کام کرتی ہے، اس لیے مذکورہ معاملے پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

ماہرین کا کہنا تھا کہ مذکورہ معاملے پر مزید تحقیق کرکے ہارٹ فیل کے مریضوں کے لیے علاج کے نئے طریقے تلاش کیے جائیں۔