اسلام آباد ہائی کورٹ نے جوڈیشل کمپلیکس میں پیشی کے دوران عدالتی احکامات کی خلاف ورزی پر سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کو توہین عدالت کی درخواست پر نوٹس جاری کردیا۔
اسسٹنٹ کمشنر (شالیمار) اسلام آباد عبداللہ خان کی جانب سے دائر توہین عدالت کی درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے سماعت کی، درخواست گزار کی جانب سے ان کے وکیل راجا رضوان عباسی عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔
درخواست گزار نے مؤقف اختیار کیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کو حکم دیا تھا کہ وہ جوڈیشل کمپلیکس میں پیشی کے دوران امن و امان کا مسئلہ پیدا نہ کریں، پولیس نے اِس عدالتی حکم کے مطابق سیکیورٹی انتظامات کر رکھے تھے تاہم اس حکم کی تعمیل نہیں کی گئی اور پی ٹی آئی کے کارکنوں نے پتھراؤ کیا جس سے متعدد پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔
درخواست گزار نے استدعا کی کہ عمران خان نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے 17 مارچ کے حکم نامے کی تعمیل نہیں کی اس لیے انہیں طلب کر کے قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔
عدالت نے اِس کیس کو توشہ خانہ کیس میں عمران خان کی حاضری والی فائل کی گمشدگی کے کیس کے ساتھ منسلک کرنے کا حکم دیا اور جوڈیشل کمپلیکس پیشی کے دوران عدالتی احکامات کی خلاف ورزی پر عمران خان کو نوٹس جاری کرکے 7 اپریل تک جواب طلب کر لیا۔
بعدازاں عدالت نے امن و امان کی صورتحال پیدا کرنے سے متعلق اسلام آباد انتظامیہ اور آئی جی سے معاملے کی رپورٹ طلب کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت 7 اپریل تک ملتوی کردی۔
واضح رہے کہ 18 مارچ کو عمران خان توشہ خانہ کیس کی سماعت میں پیشی کے لیے جوڈیشل کمپلیکس اسلام آباد پہنچے تو اسلام آباد پولیس اور پی ٹی آئی کارکنان کے درمیان گھنٹوں تک جاری رہنے والی جھڑپوں کے دوران 25 افراد زخمی ہوگئے جبکہ موٹر سائیکلوں سمیت 30 گاڑیوں اور ایک پولیس چوکی کو نذر آتش کردیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق پرتشدد جھڑپوں کے دوران پولیس اور پی ٹی آئی کے حامیوں کی جانب سے ایک دوسرےکو پیچھے دھکیلنے کے لیے آنسو گیس کا استعمال کیا گیا، پی ٹی آئی نے پولیس کی گاڑیوں کو آگ لگانے کے لیے پٹرول بموں کے ساتھ ساتھ پولیس پر پتھراؤ بھی کیا۔
جوڈیشل کمپلیکس پر ہجوم پی ٹی آئی قیادت کی کال پر اکٹھا ہوا تھا جنہوں نے کارکنان کو جوڈیشل کمپلیکس پہنچنے کی کال دینے کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال کیا۔
امن و امان کو برقرار رکھنے اور ہجوم کو جوڈیشل کمپلیکس تک پہنچنے سے روکنے کے لیے تقریباً 4 ہزار پولیس اہلکار (جن میں 700 ایف سی اور ایک ہزار پنجاب پولیس کے اہلکار بھی شامل تھے) کمپلیکس کے اندر اور اس کے اطراف میں تعینات کیے گئے تھے۔
علاوہ ازیں جوڈیشل کمپلیکس سے ملحقہ سروس روڈ پر بھی کنٹینرز لگا دیے گئے تھے، علاقے کو گھیرے میں لینے کے لیے خاردار تاریں اور رکاوٹیں بھی لگائی گئی تھیں، پولیس اہلکاروں سمیت اینٹی رائٹس ٹیم کو بھی جوڈیشل کمپلیکس میں تعینات کیا گیا تھا۔
جھڑپوں کے دوران دارالحکومت انتظامیہ نے تمام سرکاری ہسپتالوں میں ایمرجنسی بھی نافذ کر دی تھی، 25 پولیس اہلکار اور 5 شہریوں سمیت تقریباً 30 زخمیوں کو طبی امداد کے لیے ہسپتال منتقل کیا گیا، شام 6 بجے کے قریب عمران خان جوڈیشل کمپلیکس سے واپس روانہ ہوگئے تھے لیکن ان کے جانے کے بعد آدھے گھنٹے سے زیادہ وقت تک جوڈیشل کمپلیکس کا ماحول میدان جنگ بنا رہا۔
پولیس کے پی آر او نے کہا کہ پولیس اور پی ٹی آئی کے درمیان ایک معاہدہ طے ہوا تھا کہ عمران خان کی جوڈیشل کمپلیکس آمد کے دوران اسلام آباد کا امن و امان متاثر نہیں ہونا چاہیے، تاہم پی ٹی آئی کارکنان نے انتشار کی صورتحال پیدا کی اور پولیس پر حملہ کیا۔
پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ انتشار پھیلانے میں ملوث پی ٹی آئی کے متعدد کارکنان کو گرفتار کر کے ان کے خلاف مقدمات درج کیے جا رہے ہیں۔
فائل گمشدگی کا معاملہ
18 مارچ کو توشہ خانہ کیس کی سماعت کے دوران پی ٹی آئی کے کارکنوں اور پولیس کے درمیان جھڑپوں کی وجہ سے جب سابق وزیراعظم عمران خان کمرہ عدالت میں نہیں پہنچے تو جج ظفراقبال نے الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز سے استفسار کیا کہ سماعت معمول کے مطابق ہونی چاہیے، صورت حال یہ ہے تو کیا کریں آپ ہی بتائیں۔
عمران خان کے وکیل بابراعوان نے جج سے عمران خان کی حاضری سے استثنیٰ کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ نائب کورٹ کو باہر بھیج کر عمران خان کی حاضری لگانے کی اجازت دی جائے، جو حالات ہیں اس کے پیش نظر حاضری سے استثنیٰ دیا جانا چاہیے، باہر بہت گڑبڑ ہے، آپ میری بات مان لیں آج استثنیٰ دے دیں، جس پر عدالت نے نائب کورٹ کو گیٹ پر عمران خان کے دستخط لینے کا حکم دے دیا۔
جج ظفراقبال نے کہا کہ گیٹ پر ہی دستخط لے لیں، یہی حاضری تصور ہوگی، آج سماعت واقعی ممکن نہیں ہے، دستخط ہوجائیں، پھر بات کرلیں گے اور اگلی تاریخ طے ہوگی، عمران خان کے دستخط ہونے کے بعد سب منتشر ہوجائیں۔
جج ظفراقبال نے کہا کہ عمران خان سے دستخط لیں اور انہیں کہیں یہاں سے چلے جائیں، اس دوران وکیل انتظار پنجوتا نے عدالت سے شکایت کی کہ ہمیں مارا جا رہا ہے، شبلی فراز کو ایس پی نوشیروان نے پکڑ لیا ہے۔
اس موقع پر عدالت نے شبلی فراز کو پیش کرنے کا حکم دے دیا اور پولیس نے شبلی فراز کو عدالت میں پیش کر دیا، جس کے بعد شبلی فراز، ایس پی اور نائب کورٹ کے ساتھ عمران خان کے دستخط لینے چلے گئے۔
عدالت نے سابق وزیر اعظم عمران خان کے دستخط ہونے تک سماعت ملتوی کردی، بعد ازاں پی ٹی آئی رہنما شبلی فراز کے ساتھ جانے والے ایس پی کمرہ عدالت پہنچے تو جج نے آرڈر شیٹ کے حوالے سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ آرڈر شیٹ شبلی فراز صاحب کے پاس تھی۔
بیرسٹر گوہر نے روسٹرم پر کہا کہ میں ایس پی صاحب اور شبلی فراز کے ساتھ حاضری کے لیے گیا تھا اور میں نے عمران خان سے دستخط کروائے، واپسی پر ہم پر شیلنگ ہوئی اور ایس پی صاحب نے مجھ سے فائل لے لی، اب ایس پی صاحب عدالت کے سامنے جھوٹ بول رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس تمام واقعے کی متعدد وڈیوز بھی موجود ہیں، ایس پی ڈاکٹر سمیع ملک نے عدالت کو بتایا کہ اسی وقت شیلنگ اور پتھراؤ شروع ہوگیا، میں نے اپنا رومال بھی نکال کر شبلی فراز کو دیا۔
جج ظفراقبال نے کہا کہ یہ بہت اہم دستاویز ہے، اس کو ڈھونڈ کر لائیں، ہمارے جوڈیشل ریکارڈ کا حصہ ہے۔
ایس پی سمیع ملک نے بیرسٹر گوہر کو مخاطب کرکے کہا کہ آپ نے فائل شبلی فراز کے حوالے کی تھی جبکہ بیرسٹر گوہر نے بتایا کہ عمران خان کے دستخط کی ویڈیو سب نے بنائی کہ وہ دستخط کر رہے ہیں جبکہ شبلی فراز کو عدالت پہنچے میں تاخیر ہوئی۔
سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو ایس پی نے کہا کہ میں زخمی ہو کر گر گیا تھا، جس پر جج ظفراقبال نے کہا کہ بس چھوڑ دیں، یہ بتا دیں دستخط ہو گئے تھے، ایس پی نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم دستخط ہوئے یا نہیں۔
عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ ان کا بیان ریکارڈ کریں، یہ سمجھتے ہیں ان کی نوکری بہت پکی ہے، یہ 3 بار بیان بدل چکے ہیں۔
ایس پی سمیع ملک نے کہا کہ میں جان بوجھ کر فائل کیوں گھماؤں گا جبکہ بیرسٹر گوہر نے کہا کہ ہمارے پاس اس سب کی ویڈیو ہے، جب دستخط ہوئے تو سب نے پی ٹی آئی کے نعرے لگائے، تمام کاغذات پر عمران خان دستخط تھے۔
عدالت نے دونوں فریقین کو تحریری بیان دینے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ آپ دونوں اپنا اپنا بیان لکھ کر جمع کرائیں کہ کیا ہوا، عدالتی دستاویز کی گمشدگی کا کوئی حل نکالتے ہیں۔
بعدازاں ایڈیشنل اینڈ سیشن جج ظفراقبال نے سابق وزیراعظم عمران خان کے وارنٹ گرفتاری منسوخ کیے اور سماعت 30 مارچ تک ملتوی کردی اور عمران خان کو اگلی سماعت میں ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا۔