Site icon DUNYA PAKISTAN

241 سال قید کی سزا سے آزاد ہونے والے شخص کو نئی دنیا میں کیا سب سے عجیب لگا

Share

241 سال قید کی سزا میں سے 27 سال قید کاٹنے کے بعد بوبی بوسٹک کو رہا کیا گیا تو انھیں دنیا میں بہت سی چیزیں عجیب لگیں۔

وائرلیس ایئر فونز کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ ’یہ لوگ خود سے کیوں بات کر رہے ہیں۔‘

لوگوں کو اپنے ہوم سپیکر سے بات کرتا دیکھنے پر ’میں سوچتا ہوں کہ یہ الیکسا کون ہے؟‘

مشروبات کی سیلف سروس مشینوں کو دیکھ کر وہ پوچھتے ہیں ’آپ ہاتھ ہلائیں تو پانی باہر آتا ہے کیا؟‘

دسمبر 1995 کے بعد دنیا کافی بدل گئی ہے۔ مگر سب سے عجیب بات لوگوں میں بدلاؤ ہے۔

44 سالہ بوبی کہتے ہیں ’قید خانے کی نسبت باہر لوگ کافی دوستانہ رویہ رکھتے ہیں۔

’آپ پرچون کی دکان پر جاؤ تو وہ پوچھتے ہیں سر کیا ہم آپ کی مدد کر سکتے ہیں؟ جبکہ جیل میں آپ کو صرف غصیلے چہرے اور ہراسانی نظر آتی تھی۔۔۔‘

انھیں تاحال اس کی عادت نہیں پڑی کہ لوگ ان سے پوچھیں ’ہیلو آپ آج کیسے ہیں؟‘ بلکہ انھیں جیل کے وہی رویے یاد ہیں جس میں لوگ کہتے تھے ’میرے زیادہ قریب مت چلو۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’یہاں باہر سب خوشحال ہیں۔ لوگ مسکرا رہے ہیں۔ بچے آپ کو دیکھ کر ہاتھ ہلاتے ہیں۔ میں سوچتا ہوں یہی اصل زندگی ہے۔ یہ معمول ہے۔ چیزیں ایسی ہی ہونی چاہییں۔‘

مگر 27 سال قید اور ادارہ جاتی جارحیت جھیلنے کے بعد اس ماحول کو اپنانا مشکل ہوسکتا ہے۔ ’کیونکہ اندر ہی اندر آپ ہمیشہ انسانیت چاہتے ہیں۔ آپ انسانی رابطوں کی تلاش میں رہتے ہیں۔۔۔ یہی زندگی ہے۔ یہی اس کی خوبصورتی ہے۔ انسانیت میں یہی خوشی کا باعث ہے۔‘

قید خانے میں 10 ہزار راتیں گزارنے کے بعد 8 نومبر 2022 کو بوبی کو خوشخبری ملی مگر وہ اس رات سو نہ سکے کیونکہ وہ آزادی کے خواب دیکھ رہے تھے۔

وہ قید خانے کی تاریکی میں اپنا سامان پیک کرتے رہے۔ انھوں نے اپنی قیمتی چیزیں دوسرے قیدیوں کو دے دیں مگر صرف ایک چیز اپنے پاس رکھی۔ یہ ان کا ٹائپ رائٹر تھا جس کے ساتھ ان کی کئی یادیں جڑی ہیں۔

جب سورج طلوع ہوا تو انھوں نے دیکھا تختی پر ان کے نام کے ساتھ ’رہائی‘ لکھا تھا۔ ’وہ الفاظ میرے روح کے لیے موسیقی جیسے تھے۔ تب تک مجھے یقین نہیں آ رہا تھا۔‘

بوبی نے قیدیوں کا سرمئی لباس اتار کر اپنی آزادی کے کپڑے پہنے: ایک نیلے رنگ کا تھری پیس سوٹ جو ’زندگی کے نئے باب کے آغاز کی علامت تھی۔‘

25 سال قبل جج ایوولن بیکر نے بوبی سے کہا تھا کہ وہ ’اپنی غلطیاں سدھارتے سدھارتے ہی مر جائیں گے‘۔ لیکن اب نومبر کی اس صبح ساڑھے سات بجے وہ قید و بند سے نکل کر ایک سوٹ اور مسکراہٹ پہنے سورج کی کرنوں سے روبر تھے۔

انھوں نے باہر نکل کر دیکھا کہ سیاہ ٹوپی پہنے ایک خاتون ان کی منتظر تھی جس نے آگے بڑھ کر انھیں گلے لگایا۔ یہ وہی جج ایوولن بیکر تھیں۔

دسمبر 1995 میں سینٹ لوئس میں شراب، بھنگ اور پی سی پی کے نشے میں 16 سال کے بوبی اپنے دوست ڈونلڈ ہٹسن کے ساتھ مسلح ہو کر ڈکیتیاں ڈال رہے تھے۔ انھوں نے ایک تنظیم سے ضرورت مندوں کے کرسمس کے تحفے چرائے اور گولیاں چلائیں مگر کوئی زخمی نہیں ہوا۔ انھوں نے گن پوائنٹ پر ایک حاتون سے کار چھین لی۔

بوبی کو کہا گیا کہ اگر وہ اپنا جرم مان لیں تو انھیں 30 سال قید اور اچھے رویے پر ضمانت ملے گی۔ تاہم انھوں نے اس پیشکش کو قبول نہ کیا۔ وہ قصوروار تھے جس پر جج بیکر نے انھیں 17 جرائم کے بدلے مجموعی طور پر 241 برس قید کی سزا سنائی۔

دوسری طرف ان کے دوست ہٹسن نے ڈیل کر کے اپنا جرم قبول کیا اور انھیں 30 سال قید کی سزا ملی۔

جب 2018 میں بی بی سی نے پہلی بار بوبی کا انٹرویو کیا تو وہ کافی پُرامید تھے۔ 2010 میں امریکہ کی سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ قتل کے مقدمات کے سوا نابالغوں کو ضمانتوں کے بغیر عمر قید کی سزا نہیں دی جاسکتی۔ 2016 میں یہ طے تھا کہ اس کا اطلاق بوبی کے کیس پر بھی ہوگا۔

مگر ریاست مسوری نے بوبی کی رہائی روک دی اور دلائل دیے کہ انھیں تو عمر قید ملی ہی نہیں بلکہ انھیں مختلف جرائم پر متعدد سزائیں ملی ہیں جن کا اطلاق ایک ساتھ ہو رہا ہے۔

ریاست نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ان کو ضمانت ملنے کے امکانات بھی صرف ’عمر رسیدہ ہونے پر‘ ہیں۔ اپریل 2018 میں بی بی سی کے ساتھ انٹرویو کے بعد امریکی سپریم کورٹ نے بوبی کی اپیل مسترد کر دی مگر یہ نہیں بتایا کہ کیوں ایسا کیا گیا۔

بوبی کا کہنا ہے کہ ’اکثر لوگ ایسے وقت میں ہار مان جاتے ہیں۔ ایک بار آپ کو نہ ہوجائے تو آگے کچھ نہیں بچتا۔‘

مگر بوبی نے ہار نہیں مانی۔ وہ اپنا حوصلہ بڑھانے کے لیے کتابیں پڑھتے رہے، جیسے نپولیئن ہِل جو ان کی پسندیدہ کتاب ہے۔ اور وہ اپنے ٹائپ رائٹر سے کھیلتے رہے۔ ان کی امید باقی رہی۔

اسی دوران مسوری کے قانون میں ترمیم ہوئی جس کے ذریعے بوبی کو نیا موقع ملا۔ اب ایسے قیدی، جنھیں نابالغ ہوتے ہوئے طویل قید ہوئی ہو وہ ضمانت پا سکتے تھے۔

14 مئی 2021 تک یہ قانون منظور نہ ہوا۔ بوبی کہتے ہیں کہ ’مجھے بہت زیادہ امید نہیں تھی۔ عام طور پر اگر قانون جنوری یا فروری میں منظور نہیں ہوتا تو توقعات کم ہوجاتی ہیں۔‘

سزا دینے والی جج کو اپنے فیصلے پر پچھتاوا

پھر بوبی کو ایک کلمی دوست کا پیغام موصول ہوا۔ ’جیل نے ہمیں ای میلز موصول ہونے کی اجازت دے دی۔ کسی نے مجھے ایک ای میل کی جس میں بتایا گیا تھا کہ قانون منظور ہو گیا ہے۔۔۔ یہ ایک معجزہ تھا۔ مجھے یقین نہیں آیا کہ کیا ایسا واقعی ہونے لگا ہے؟ کیا گورنر اس قانون پر دستخط کر دے گا؟‘

گورنر نے اس پر دستخط کر دیے اور اسے ’بوبی لا‘ کا نام دیا گیا۔ بوبی اور سینکڑوں دوسرے قیدی ضمانت کے لیے اہل ہوگئے۔ ان کے کیس کی سماعت نومبر 2021 میں طے ہوئی۔ ’مجھے سمجھ نہ آیا آگے کیا ہوسکتا ہے۔ پیرول بورڈ آسانی سے کسی کو جیل سے نکلنے کی اجازت نہیں دیتا۔‘

سماعت کے دوران قیدیوں کو ایک ساتھی ملتا ہے جو ان کی مدد کرتا ہے۔ تو انھوں نے اسی جج کا انتخاب کیا جس نے انھیں ’عمر بھر کے لیے‘ جیل بھیجا تھا۔

بیکر 1983 میں مسوری میں جج بننے والی پہلی سیاہ فام خاتون تھیں۔ انھوں نے نوجوان اور بالغ دماغوں میں فرق پر مطالعے کے بعد 2010 میں بوبی کے خلاف فیصلے پر سوال اٹھائے۔ اس وقت انھیں ریٹائر ہوئے دو برس گزر چکے تھے۔ اپنے 25 سال کے کیریئر میں انھیں اپنے اسی فیصلے پر پچھتاوا رہا۔

فروری 2018 میں انھوں نے اخبار واشنگٹن پوسٹ کے لیے ایک تحریر لکھی جس میں بوبی کی سزا کو ’ناانصافی‘ قرار دیا گیا۔ پھر بی بی سی سے گفتگو میں بھی اسی چیز کو دہرایا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’بوبی 16 سال کا ایک بچہ تھا جسے بالغ سمجھا گیا، جو کہ غلط تھا۔ میرا بوبی اور ان کی بہن سے تعلق قائم ہوا ہے۔ اب وہ بچہ ایک سمجھدار بالغ بن گیا ہے۔‘

بوبی کے جرائم سے متاثرہ لوگوں میں سے ایک نے بھی ان کی حمایت کی ہے۔ ان کی مدد سے ضمانت کی سماعت کامیاب رہی۔ جج بیکر کہتی ہیں کہ ’میں اس کے لیے قلابازیاں کھا سکتی تھی۔‘

اس کے ایک سال بعد جج بیکر نے نومبر کی دھوپ میں آزاد بوبی کو گلے لگایا۔ ’یہ ایسا تھا جیسے کرسمس، نئے سال اور ہر چھٹی کو ملا دیا گیا ہو۔ میں رونے لگی کیونکہ بوبی اب آزاد تھا۔‘

جج بیکر اور دیگر دوست احباب سے ملنے کے بعد بوبی 1995 کے بعد پہلی بار جیل سے باہر کھانا کھا رہے تھے۔ مگر اس میں ایک دشواری تھی۔ بوبی کہتے ہیں کہ ’جب میں گاڑی میں بیٹھا تو میں نے سارا کھانا پھینک دیا۔ جب آپ 27 سال بعد ہائیوے پر جائیں تو آپ کو موشن سِکنس (یعنی سفر سے طبیعت خراب) ہوتی ہے۔‘

اپنی صحتیابی کے بعد وہ اپنی بہن کے گھر گئے۔ اس روز انھیں 400 سے زیادہ لوگ ملنے آئے اور رات دو بجے تک ان سے ملتے رہے۔

وہ اور ان کی بہن خیراتی کام کرتے ہیں جس میں کھانا اور کھلونے کم آمدن والے گھروں میں تقسیم کیے جاتے ہیں۔ وہ نابالغوں کے حراستی مرکز میں لکھائی پڑھائی کی ورکشاپس بھی کراتے ہیں۔ مگر یہ سب رضاکارانہ کام ہے۔

انھیں ایمیزون پر اپنی ان سات کتابوں کی فروخت سے پیسے ملتے ہیں جو انھوں نے قیدخانے میں رہتے ہوئے اپنے ٹائپ رائٹر پر لکھی تھیں۔ وہ اکثر تقاریب میں بطور مہمان مدعو کیے جاتے ہیں۔

بوبی ایک کمرے کے فلیٹ میں کرائے پر رہتے ہیں اور اپنے بِل خود ادا کرتے ہیں مگر ’مشکل سے گزر ہوتا ہے۔‘

انھیں امید ہے کہ انھیں مستقبل میں کوئی اچھی نوکری مل جائے گی اور وہ اس کے لیے انٹرویو وغیرہ بھی دے رہے ہیں۔ جیب میں پیسے کم ہونے کے باوجود وہ باہر کی بدلی سی دنیا سے محظوظ ہوتے رہتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’باہر زندگی خوبصورت ہے۔ میں فریج میں کھانا دیکھتا ہوں، باتھ ٹب میں نہاتا ہوں۔ میں 27 سال تک باتھ نہیں لے سکا تھا اس لیے میں کسی چیز کو معمولی نہیں سمجھتا۔‘

تو یوں بوبی کو اس نئی دنیا میں ایک نئی زندگی ملی ہے۔ مگر جرم میں ان کے ساتھی کے ساتھ ایسا نہیں ہوسکا۔

ڈونلڈ ہٹسن، جنھوں نے ان کے ساتھ ڈکیتیاں ڈالی تھیں اور ڈیل کر کے صرف 30 سال قید پائی تھی، کی موت ستمبر 2018 میں جیل میں ہی ہوگئی تھی۔ ایک ماہر ڈاکٹر نے اسے منشیات کی زیادتی قرار دیا تھا۔

صرف نو ماہ میں وہ ضمانت کے لیے اہل ہونے والے تھے۔

Exit mobile version