کل ایک نوجوان سے ملاقات ہوئی عمر یہی کوئی سولہ سترہ سال وہ پاک آرمی کو بے تھکان گالیاں دے رہا تھا اور اس کی زد میں چھوٹے بڑے ہر رینک کے افسر اور نوجوان آ رہے تھے یہ نوجوان کہہ رہاتھا کہ ہماری آرمی نے پاکستان کو تباہ کر دیا ہے اب یہاں رہنے کو جی نہیں چاہتا ۔آخر میں اس نے کہا کاش میں پاکستان کی بجائے انڈیا کا شہری ہوتا۔۔میں اس کی گفتگو سن کر کانپ گیا ہمیں اپنے تمام اداروں بشمول آرمی سے متعدد شکایات ہیں لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اس پر دشنام طرازی کی جائے اور ان شہیدوں کی قربانیوں کو نظر انداز کر دیا جائے جو آج آئے روز پاک سرحد پر دشمن کا راستہ روکنے کی پاداش میں اپنی جانوں کی قربانی پیش کر رہے ہیں اور اس وقت تو خصوصاً میں نے بمشکل اپنے جذبات پر قابو پایا جب اس نے کہا کہ کاش وہ انڈین شہری ہوتا ،مجھے اس پر نہیں خود پر بے تحاشا غصہ آیا کہ ہم نے اپنا نصاب غلط سمت میں مرتب کیا اور نئی نسل کو صحیح طور پر یہ نہیں بتایا کہ متحدہ ہندوستان میں ہم مسلمان شودروں جیسی زندگی بسر کر رہے تھے اور آج بھی انڈیا میں اقلیتوں کے ساتھ بہیمانہ سلوک کیا جا رہا ہے کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب گائو کشی کا بہانہ بنا کر یا غلط الزام سے ہٹ کر بھی ان کے گھروں پر حملے نہ ہوتے ہوں اور راہ چلتے ان پر تشدد نہ کیا جاتا ہو۔کشمیری مسلمان ایک عرصے سے جانوں اور عصمتوں کی قربانی دیتے چلے آ رہے ہیں اور اب تو انہوں نے اس متنازعہ علاقے کو انڈیا کا قانونی حصہ قرار دینے کا اعلان کر دیا ہے جس کا جواب ہم نے مکمل خاموشی کی صورت میں دیا۔میں ماضی میں متعدد بار مشاعروں اور کانفرنسوں میں شرکت کے لئے انڈیا جاتا رہا ہوں اور جب انڈین حکومت نے مجھے چار سال کے لئے بین کر دیاتو پابندی کے چار سال مکمل ہونے کے بعد میں ایک بار پھر انڈیا گیا اور وہاں پنجاب کی وزیر اطلاعات نام یاد نہیں رہا سے ایک محفل میں جھڑپ ہو گئی، اپنی تقریر میں اس نے ’’بھائی چارے‘‘ کے نام پر یہ ’’تجویز‘‘ پیش کی کہ پاکستان کو انڈیا میں ضم ہو جانا چاہئے۔ میں اس وقت اسٹیج پر بیٹھا تھا بے اختیار بآواز بلند میرے منہ سے ’’لاحول والا قوۃ‘‘ کے الفاظ نکلے اور پھر اس کی تقریر ختم ہوتے ہی میں بغیر کسی دعوت کے مائیک پر آیا اور کہا یہی وہ لوگ ہیں جو دونوں ملکوں میں امن اور آشتی کی راہ ہموار نہیں ہونے دیتے ،اس پر ہال میں سناٹا چھا گیا مگر مجھے بہت خوشی ہوئی جب اگلے روز ’’ہندوستان ٹائمز‘‘ نے بغیرکسی اینگلنگ کے میری تقریر ڈبل کالم کی صورت میں شائع کی ۔
اس وقت ہمارا ملک خانہ جنگی کے دہانے پر کھڑا ہے ہر طرف افراتفری ہے ایک عجیب سا عالم ہے اور بزرگ نسل کے علاوہ ہمارے نوجوان بھی اس آگ کی تپش سے جھلس رہے ہیں جو دن بدن پھیلتی نظر آرہی ہے۔ آپ کوئی سا چینل ہی آن کریں وہاں سے کوئی اچھی خبر سننے کو نہیں ملتی میری دیرینہ خواہش تھی کہ کچھ دانا لوگ آگےآئیں اور ان کی کوششیں ناکام بنا دیں جو اس جلتی پر تیل ڈال کر اسے مزید بھڑکانے کی کوشش کر رہے ہیں چنانچہ مجھے یہ خبر سن کر اطمینان ہوا کہ سول سوسائٹی کی طرف سے مجیب الرحمان شامی، سہیل وڑائچ اور امتیاز عالم یہ مشن لے کر آگے بڑھے ہیں اور انہوں نے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے تاہم یہ اتنا آسان کام نہیں ہے اس سے بہت سوں کے مفاد پر زد پڑے گی اور وہ اس مشن کے آڑے آئیں گے لیکن اگر جذبہ صادق ہو اور نیت نیک ہو تو راستے سے پہاڑ بھی ہٹائے جا سکتے ہیں۔ میری دعائیں ان دوستوں کےساتھ ہیں مگر نئی نسل کی سوچ میں جو کجی آ گئی ہے وہ جاتے جاتے ہی جائے گی اوپر سے انڈین میڈیا اس صورتحال سے بھرپور فائدہ اٹھا رہا ہے صرف میڈیا نہیں بلکہ یورپ اور امریکہ میں آباد انڈین شہری اور ان کی خفیہ ایجنسیاں (پاکستان ہی نہیں ) بھی اس ضمن میں اپنا بھرپور کردار ادا کر رہی ہے یہ ایک بار پھر پاکستان کو دولخت کرنا چاہتے ہیں اس بار ان کی یہ سازش کامیاب نہیں ہوسکتی اگر ہم پاکستانی بھی باہمی اتفاق و اتحاد کے ساتھ جینا سیکھ لیں ،اس حوالے سے ہمارے والدین کو خواہ ان کا تعلق کسی بھی مکتب خیال، کسی بھی سیاسی جماعت سے ہو اپنے بچوں کو پاکستان ایسی نعمت کی قدر کرنا سکھا سکیں، میں پورے یقین کے ساتھ یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ انڈیا میں اقلیتوں کے ساتھ جو ہو رہا ہے سو ہورہا ہے وہاں ہمارے ہاں سے کہیں زیادہ غربت ہے ہمارے کسی بھی شہر میں سائیکل رکشہ نہیں جس میں مہاشے اپنی توند سمیت بیٹھے ہوتے ہیں اور ٹی بی میں مبتلا زرد رنگ کا دبلا پتلا شخص آدھاکھڑا ہو کر پیڈل مار رہا ہوتا ہے اور یہ زندہ لاشیں کھینچنے کی کوشش کرتا ہے ۔میں ایک روز اپنے ایک مقامی دوست کے ساتھ رات گئے فلم دیکھ کر دہلی کے چاندنی چوک سے گزر رہا تھا وہاں میں نے فٹ پاتھ پر قطار در قطار سائیکل رکشے کھڑے دیکھے۔ میں نے دوست سے پوچھا یہ کیا ہے؟ اس نے کہا یہ سائیکل رکشہ والے جب پیڈل مار مار کر تھک جاتے ہیں تو رات کو انہی رکشائوں میں سوجاتے ہیں، اسی طرح میں نے کلکتہ میں فٹ پاتھوں پر ہزاروں خاندانوں کا ’’گھر‘‘ فٹ پاتھ پر دیکھا ان کے بچے یہیں پیدا ہوتے ہیں یہیں جوان ہوتے ہیں، ایک فٹ پاتھ سے دوسرے فٹ پاتھ پر ان کی بارات جاتی ہے اور اسی فٹ پاتھ سے ان کی ارتھی اٹھتی ہے۔ ہمارے ہاں بھی غربت ہے مگر اتنی نہیں تاہم جتنی بھی ہے وہ بہت قابل تشویش ہے ،چارہ گرو اس کا بھی کوئی چارہ کرو۔
اور آخر میں اس معصوم نوجوان کے نام پیغام جس نے کہا تھا کاش وہ انڈیا میں پیدا ہوا ہوتا بیٹے خدا کا شکر ادا کرو کہ تم ایک آزاد ملک کےشہری ہو جہاں بطور شہری تمہارے حقوق ہیں جو حاصل ہونا چاہئیں وہاں اس دھرتی کے بھی کچھ تقاضے ہیں تم اپنے حقوق کی جدوجہد کے علاوہ اپنے فرائض بھی ادا کرتے رہو ایک دن سب ٹھیک ہو جائے گا۔ بیٹے پلیز مایوس نہ ہونا مایوسی سے منزل دور سے دور تر ہوتی چلی جاتی ہے۔