سائنس

رمضان کے چاند کا دیر رات اعلان: چاند کی پیدائش پر سائنس کیا کہتی ہے؟

Share

پاکستان میں بدھ کی رات جب مجھ سمیت بیشتر افراد سحری کی بجائے صبح کے ناشتے کا پلان کر کے سونے کی تیاریوں میں مصروف تھے تو اچانک موبائل کی سکرینز پر رمضان کا چاند مبارک کے پیغامات کی بھرمار ہو گئی جو کافی لوگوں کے لیے باعث حیرت تھا۔

پاکستان میں رمضان المبارک کا آغاز ہو یا عید کے تہوارکی خوشی، جب تک رویتِ ہلال کمیٹی کی جانب سے چاند نظر آنے کا اعلان سامنے نہ آئے، ملک کی اکثریت ایک گو مگو کی کیفیت میں رہتی ہے۔

اور یہی معاملہ بدھ کی رات بھی سامنے آیا جب رویت ہلال کمیٹی کے پانچ گھنٹے جاری رہنے والے اجلاس کے بعد رات 10 بجے کے بعد یہ اعلان سامنے آیا کہ پاکستان میں رمضان المبارک کا چاند نظر آ گیا ہے اور پہلا روزہ جمعرات کو ہو گا۔

اس اعلان کے ساتھ ہی بہت سے لوگوں نے جہاں سحری کی تیاری کی فکر کی تو کئی نے رات گئے تراویح پڑھنے کے لیے مساجد کا رخ بھی کیا اور اس کے ساتھ ہی سوشل میڈیا پر صارفین نے رات دس بجے چاند نکلنے کے معاملے پر سوالات کے انبار لگا دیے۔

ایک ٹوئٹر صارف نے پہلے روزے کے لیے چاند کے اعلان پر کمیٹی کو آڑے ہاتھوں لیا اور لکھا کہ ’اگر کمیٹی تھوڑا اور انتظار کر لیتی تو سورج بھی نظر آ جاتا۔‘

رابیل صدیقی نامی صارف نے بھی چاند کے ’اچانک‘ اعلان کو سمجھ سے بالا تر قرار دیا۔

انھوں نے لکھا ’پہلے کہتے رہے پہلا روزہ 24 مارچ کو ہو گا، پھر اچانک چاند نظر آ گیا۔ معاملہ کچھ سمجھ نہیں آیا۔‘

پاکستان میں جب بھی اسلامی کیلینڈر کا آغاز ہونا ہوتا ہے تو اس کے لیے مقرر کمیٹی سورج ڈھلنے کے ساتھ نئے چاند کی تلاش کا کام شروع کر دیتی ہے اور عام طور پر اس کا فیصلہ چند گھنٹوں میں سامنے آ جاتا ہے تاہم ماہ رمضان اور عید کے موقع پر یہی چاند اکثر ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا اور پھر یہی ہوتا ہے جو اس بار رمصان کے چاند کے ساتھ ہوا۔

چاند کی ’پیدائش‘ کے حوالے سے سائنس کیا کہتی ہے؟

سوشل میڈیا پر ملے جلے رجحان کے ساتھ جو سوال صارفین نے اٹھائے اسی کے تناظر میں ہم نے بات کی چیف میٹرولوجسٹ ڈاکٹر سردار سرفراز سے اور ان سے جانا کہ آخر ہلال (پہلی تاریخ کا چاند) کے ظاہر ہونے کا وقت کیا ہوتا ہے اور یہ آسمان پر کتنی دیر تک نظر آتا ہے۔

ڈاکٹر سرفراز کے مطابق زمین اور سورج یوں تو اپنے اپنے مدار کے گرد چکر لگا رہے ہوتے ہیں تاہم ہر ماہ کے آخر میں یہ ایک لائن میں آتے ہیں جس کو ’کنجیکشن‘ کہا جاتا ہے اور یہی وقت چاند کی پیدائش کا کہا جاتا ہے۔

’اس ماہ رمضان کے چاند کی پیدائش منگل کی رات 10 بج کر 23 منٹ پر ہو چکی تھی۔ بدھ کے روز سورج غروب ہونے کے وقت اس چاند کی عمر 20 گھنٹے سے زائد تھی۔ بلوچستان کے علاقے جیوانی میں اس چاند کی عمر 21 گھنٹے کے قریب ہو چکی تھی جو چاند نظر آنے کا بہت واضح امکان کا اشارہ ہے۔‘

ڈاکٹر سرفراز کے مطابق ہر ماہ میں پہلی کے چاند کا دورانیہ قدرے مختلف ہوتا ہے تاہم مارچ اپریل میں چاند تقریباً 40 منٹ تک دیکھا جا سکتا ہے۔

’اگر بدھ کے روز ماہ رمصان کے چاند کی بات کریں تو غروب آفتاب کے بعد 40 منٹ سے زائد چاند آسمان پر موجود تھا۔ بلوچستان کے علاقے جیوانی میں سورج 7:59 پر غروب ہوا جس کے بعد 40 منٹ تک اس کو آسمان پر دیکھا جا سکتا تھا جو ملک بھر میں سب سے ذیادہ طویل دورانیہ تھا۔‘

ڈاکٹر سرفراز کے مطابق چاند کی پیدائش اور اس کی عمر کے علاوہ تیسری چیز چاند کا زاویہ (اینگل) ہے۔ ’بدھ کی رات ماہ رمضان کے چاند کا اینگل تقریبا آٹھ ڈگری تھا جس کو انسانی آنکھ سے دیکھنا ممکن تھا۔‘

انھوں نے یہ بھی بتایا کے گزشتہ روز کئی علاقوں میں مطلع ابر آلود تھا اور اس کے بعد بہاولپور اور مردان سمیت دیگر علاقوں سے جو شہادتیں موصول ہوئیں ان کی چھان بین کے بعد مکمل کارروائی کے بعد ہی کمیٹی کا اعلان سامنے آیا۔

واضح رہے کہ محکمہ موسمیات کا ڈیٹا پروسیسنگ سینٹر ہر سال چاند کی رویت کا کیلنڈر ترتیب دیتا ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ رویت ہلال کمیٹی میں محکمہ موسمیات کا ایک نمائندہ شامل ہوتا ہے۔

حکام کے مطابق ’رویت ہلال کمیٹی چاند دیکھنے کے لیے محکمہ موسمیات کے آلات استعمال کرتی ہے اور محکمہ کی پیشگوئی کے مطابق اور چاند کی حرکت کو مدِنظر رکھ کر دوربین ان زاویوں پر لگائی جاتی ہے جہاں سے مخصوص عرض بلد یا افق پر چاند با آسانی نظر آ سکے۔‘

سائنس کے مطابق نئے چاند کی پیدائش کے 16 سے 18 گھنٹے کے بعد آپ اس کو باآسانی دیکھ سکتے ہیں۔

محکمہ موسمیات کے حکام کے مطابق ’سائنس اتنی ترقی کر چکی ہے کہ چاند کی پورے سال کی گردش کا دورانیہ پہلے ہی پتا ہوتا ہے اور یہ بھی کہ کس مخصوص علاقے میں کتنی دیر کے لیے اور کس حد تک چاند دیکھا جا سکتا ہے۔‘

محققین کے مطابق نشیبی عرض بلد والے علاقوں میں جیسا کے ساحلی علاقے جو کراچی سے پسنی گوادر تک ہیں وہاں چاند نظر آنے کے امکان زیادہ اور طویل مدت تک ہوتے ہیں جبکہ شمالی علاقہ جات میں بہت کم ہوتے ہیں۔