Site icon DUNYA PAKISTAN

عمر شیخ: سابق سی سی پی او لاہور، جو خود کو پاکستان کا ’بہترین پولیس افسر‘ قرار دیتے تھے

Share

جنوبی پنجاب کے ضلع رحیم یار خان کی تحصیل خان پور سے تعلق رکھنے والے پولیس افسر اور سابق سی سی پی او لاہور عمر شیخ وفات پا گئے ہیں۔

سی سی پی او دفتر لاہور نے عمر شیخ کی وفات کی تصدیق کی ہے۔

پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں پولیس کے سربراہ بننے والے عمر شیخ کی زندگی تنازعات سے بھرپور رہی جس کے نشیب و فراز پر نظر ڈالنے سے قبل ایک دلچسپ قصے کے بارے میں جاننا ضروری ہے جو ان کے ایک پرانے قریبی دوست نے سنایا:

یہ نواز شریف کا دوسرا دور حکومت تھا۔ اس وقت کے آرمی چیف پرویز مشرف سری لنکا کا دورہ کرنے کے بعد پاکستان آئے تو انھیں کراچی ایئرپورٹ پر اترنے کی اجازت نہ مل سکی۔

نواز شریف حکومت نے پرویز مشرف کو برطرف کر کے اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی ضیا الدین بٹ کو نیا آرمی چیف تعینات کر دیا مگر یہ پلان ناکام ہو گیا۔

جب کراچی ایئرپورٹ کے کنٹرول ٹاور سے پرویز مشرف کے طیارے کو نواب شاہ کے ایئرپورٹ پر اترنے کے احکامات موصول ہوئے تو پولیس کی طرف سے جو افسر اُن کا استقبال کرنے کے لیے وہاں پہنچ گئے تھے وہ عمر شیخ ہی تھے۔ عمر شیخ اس وقت سندھ کے ضلع نواب شاہ پولیس کے سربراہ تھے۔

عمر شیخ اپنے 28 برس کے پولیس کرئیر میں سنہ 1997 سے لے کر 2008 تک سندھ اور پنجاب کے دس اضلاع میں پولیس کے سربراہ رہے۔ عمر شیخ واشنگٹن اور پھر گوانتاناموبے میں بھی تعینات رہے۔

عمر شیخ نے ابتدائی تعلیم سرکاری سکول سے حاصل کی جسے وہ بڑے فخر سے ’ٹاٹ سکول‘ کہتے تھے۔

ان کے مطابق انھیں پولیس میں جس طرح سے فیلڈ میں کام کرنے کا موقع ملا وہ کم ہی کسی پولیس افسر کو ملا ہو گا۔ وہ اپنے آپ کو پاکستان کا ’بہترین پولیس افسر‘ قرار دیتے تھے۔

ان کے ایک اور بچپن کے دوست نے بی بی سی کو بتایا کہ عمر شیخ کے والدین سیالکوٹ کے نواحی علاقے ڈسکہ سے ہجرت کر کے خان پور چلے گئے تھے۔ ان کے والد چمڑے کا کاروبار کرتے تھے۔

عمر شیخ نے ابتدائی تعلیم خان پور سے حاصل کی اور پھر 1989 میں مقابلے کا امتحان پاس کیا۔

عمر شیخ کے بچپن کے دوست جن کا تعلق خان پور کے قریب تحصیل لیاقت پور سے ہے، کا کہنا ہے کہ عمر شیخ کا ابتدائی دنوں میں مذہب کی طرف رحجان زیادہ تھا۔

ان کے دوست کا کہنا ہے کہ عمر شیخ ایک ہنس مکھ اور یار باش انسان تھے جنھیں شعر و شاعری سے خاصا لگاؤ تھا۔

جب عمر شیخ پولیس افسر نہ بن سکے

عمر شیخ نے پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ایم بی اے کیا اور اس کے بعد سی ایس ایس کا امتحان پاس کیا مگر ان کی پولیس افسر بننے کی خواہش ادھوری رہ گئی۔

اس کے بعد دل میں پولیس افسر بننے کی آس لیے انھوں نے سی ایس ایس کی دوبارہ تیاری شروع کی۔ عمر شیخ اس بار نمایاں پوزیشن حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے اور پھر یوں انھوں نے 20 ویں کامن گروپ سے اپنے پولیس کریئر کا آغاز کیا۔

پولیس میں اہم عہدوں پر فائز رہنے کے علاوہ عمر شیخ موٹروے پولیس اور نیکٹا میں بطور ڈائریکٹر جنرل انسداد دہشت گردی بھی تعینات رہے۔ انھوں نے امریکہ کی جارج واشنگٹن یونیورسٹی سے سائبر کرائم اور ڈیجیٹل فرانزک میں کورسز کیے۔

اس کے علاوہ لندن میں برطانیہ کی خفیہ ایجنسی ایم آئی 6 سے ٹریننگ بھی حاصل کی۔

سی سی پی او لاہور تعینات ہونے سے پہلے عمر شیخ ڈی آئی جی سپیشل پروٹیکشن یونٹ تعینات تھے، جس کے ذمہ سی پیک کے منصوبوں پر تعینات چینی باشندوں کی حفاظت کرنا تھی۔

گریڈ 20 سے 21 میں ترقی کا تنازع

جب انھیں گریڈ 20 سے 21 میں ترقی نہیں مل سکی تو انھوں نے قانونی راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا اور سینٹرل بورڈ کے اس فیصلے کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ چلے گئے۔

اس مقدمے میں عمر شیخ نے الزام عائد کیا کہ بورڈ نے انھیں نظر انداز کر کے جس افسر کو ترقی دی وہ ساہیوال واقعے کے بعد اس وجہ سے کئی ماہ تک معطل کر دیے گئے تھے کہ وہ اس وقت پنجاب کے کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کے سربراہ تھے۔

یاد رہے کہ ساہیوال میں پولیس نے بچوں کے سامنے گاڑی پر فائرنگ کر کے ان کے والدین کو ہلاک کر دیا تھا۔

عمر شیخ کے مطابق عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے سے قبل وہ فیڈرل پبلک سروس کمیشن (ایف پی ایس سی) کے چیئرمین کو بھی یہ کہہ کر آئے تھے کہ وزیر اعظم سے کہیں کہ وہ اس معاملے پر تحقیقات کرائیں کہ انھیں ترقی کیوں نہ دی گئی اور ان کا نام سی کیٹیگری میں کس وجہ سے شامل کیا گیا۔

انھوں نے ترقی نہ دینے والے بورڈ میں شامل چیئرمین ایف پی ایس سی اور چاروں صوبوں کے سربراہان (انسپکٹر جنرلز) سے شکوہ کیا کہ ’جب ان سب نے میرے ساتھ کام تک نہیں کیا تو پھر میرے خلاف رائے کیوں قائم کی۔‘

عمر شیخ کے ساتھ کیریئر کا آغاز کرنے والے ان کے دوست کی رائے میں یہ کسی افسر کو معلوم نہیں ہوتا کہ اسے سی کیٹیگری میں شامل کر لیا گیا ہے۔ ان کے خیال میں عمر شیخ نے یہ بات جوش خطابت میں کر دی ہو گی۔

عمر شیخ سے جڑے تنازعات

موٹروے ریپ کیس سے متعلق بیان

موٹروے پر پیش آنے والے ریپ کے واقعے کے بعد عمر شیخ نے متعدد ٹی وی چینلز پر انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’تین بچوں کی ماں اکیلی رات گئے اپنے گھر سے اپنی گاڑی میں نکلے تو اسے سیدھا راستہ لینا چاہیے ناں؟ اور یہ بھی چیک کرنا چاہیے کہ گاڑی میں پیٹرول پورا ہے بھی یا نہیں۔۔۔‘

انھوں نے اپنے اس بیان پر معافی مانگ لی تھی لیکن ان پر شدید تنقید ہوئی۔

پنجاب کے آئی جی سے تنازع

شعیب دستگیر کو جب آئی جی پنجاب کے عہدے سے ہٹایا گیا تو اس فیصلے کے پس منظر میں لاہور کے سی سی پی او کے عہدے پر عمر شیخ کی تعیناتی کا معاملہ بھی تھا۔

اس وقت پنجاب کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ہم کوئی افسر لگائیں اور کوئی آ کر کہے کہ یہ نہ لگائیں، یہ نہیں ہو سکتا۔‘

شعیب دستگیر نے بھی میڈیا کو ایک بیان جاری کیا تھا جس میں ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے سی سی پی او لاہور عمر شیخ کی تعیناتی پر کوئی اعتراض نہیں کیا بلکہ ان کے ایک بیان سے متعلق وزیراعلیٰ پنجاب سے کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔

آئی جی پنجاب کے عہدے سے ہٹائے گئے شعیب دستگیر گریڈ 22 کے افسر تھے جو اس کمیٹی کا بھی حصہ تھے جس نے عمر شیخ کی گریڈ 20 سے 21 میں ترقی کے خلاف سخت رائے دی تھی، جس کے بعد انھیں ترقی نہ مل سکی۔

شعیب دستگیر کی عمر شیخ سے ناراضگی کی وجہ عمر شیخ کا ایک متنازع بیان بتایا جاتا ہے۔

شعیب دستگیر نے میڈیا کو بتایا کہ ’تعیناتی کے بعد لاہور کے نئے سربراہ نے اپنے ماتحت افسران کا ایک اجلاس بلایا اور اس میں کہا کہ وہ ان کی بات پر کان دھریں اور آئی جی کی کسی ہدایت پر عمل نہ کریں۔‘

شعیب دستگیر کے مطابق انھوں نے اس صورتحال کے بارے میں وزیر اعلیٰ پنجاب اور وزیر اعظم کو آگاہ کیا اور ساتھ یہ مطالبہ بھی کیا کہ لاہور پولیس کے سربراہ کے خلاف انضباطی کارروائی عمل میں لائی جائے۔

ادھر عمر شیخ نے سابق آئی جی سے معافی مانگتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے بیان کو سیاق و سباق سے ہٹا کر ان تک پہنچایا گیا۔

تاہم شعیب دستگیر نے ان کی معافی تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

اس صورتحال کے بعد حکومت نے شعیب دستگیر کو ان کے عہدے سے ہٹا کر گریڈ 21 میں کام کرنے والے ان کے ماتحت پولیس افسر انعام غنی کو پنجاب پولیس کا نیا سربراہ مقرر کر دیا۔

عمر شیخ کے خلاف گردش کرنے والی مبینہ آئی بی رپورٹ

مقامی میڈیا پر عمر شیخ کے خلاف آئی بی کی ایک مبینہ رپورٹ نے بھی ان کی ذات کو متنازع بنایا ۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق سرگودھا میں عمر شیخ کی تعیناتی سے متعلق ملک کی سویلین خفیہ ایجنسی انٹیلیجنس بیورو کی رپورٹ میں ان پر بدعنوانی جیسے الزامات کا ذکر کیا گیا تاہم عمر شیخ نے اس رپورٹ کو مسترد کیا تھا۔

عمر شیخ کے دوست کے مطابق، جو ڈی آئی جی کے عہدے سے ریٹائر ہوئے ہیں، آئی بی سے منسوب اس رپورٹ کی تصدیق ممکن نہیں۔

عمر شیخ کے ساتھ کریئر کا آغاز کرنے والے ان کے ایک دوست کی رائے میں آئی بی کی جو مبینہ رپورٹ عمر شیخ کے بارے میں اس وقت گردش میں تھی اس کی تصدیق نہیں کی جا سکتی کیونکہ ’ایسی رپورٹس آؤٹ نہیں کی جاتی ہیں۔‘

Exit mobile version