ناسا کی جانب سے سنہ 2025 میں چاند پر جانے کے لیے تیار خلابازوں کے لیے جدید ’سپیس سوٹ‘ یعنی خلا میں پہننے والے لباس کی رونمائی کی گئی ہے جس کے بعد سے خلائی سفر کے بارے میں ہلچل مچ گئی ہے۔
امریکہ میں خلابازوں کے لباس سنہ 1981 کے بعد سے مکمل طور پر دوبارہ سے ڈیزائن نہیں کیے گئے تھے۔
نئے لباس کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ خواتین خلابازوں کے لیے بہتر ہے اور اگر منظوری مل جاتی ہے تو انھیں آرٹیمس تھری مشن میں استعمال کیا جائے گا جو پانچ دہائیوں میں پہلی مرتبہ انسان کا چاند پر قدم ہو گا۔
اس پسِ منظر میں اکثر افراد یہ سوال پوچھ رہے ہیں کہ خلا میں زندگی کیسی ہوتی ہے اور آپ وہاں روزمرہ کے کام جیسے کھانا کیسے کھاتے ہیں؟
بی بی سی کے ریڈیو پروگرام ’فوڈ چین‘ نے ناسا کی ریٹائرڈ خلا باز نکول سٹاٹ سے بات کر کے اس بارے میں جاننے کی کوشش کی ہے۔
’میرا پیزا کھانے کا دل کرتا تھا‘
نکلول سٹاٹ اپنے طویل کریئر میں دو مختلف خلائی مشنز پر بین الاقوامی سپیس سٹیشن پر گئیں اور وہاں انھوں نے 100 سے زیادہ دن گزارے۔ اس دوران انھوں نے مخصوص کھانا کھا کر یہ دن بسر کیے۔
سٹاٹ کہتی ہیں کہ ’میں ہر وقت پیزا کے بارے میں سوچتی رہی۔‘
انھوں نے اپنے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے بتایا کہ ’پیزا کے ایک سلائس کا خیال، جو کھانے میں لذیذ ہو اس میں پگھلی ہوئی پنیر اور گرم گرم چٹنی کا ذائقہ بہت یاد آیا۔‘
سپیس میں ملنے والے کھانوں میں ردوبدل اس لیے کیا جاتا ہے کیونکہ انھیں صفر کششِ ثقل کے حساب سے موزوں بنانا ہوتا ہے۔ اس لیے بریڈ نہیں بھیجی جاتی کیونکہ اس کے ٹکڑے خلا میں تیرتے رہیں گے۔ اس کی بجائے مکئی کی روٹی بھیجی جاتی ہے ۔
’ناشتے میں آپ انڈے کھا سکتے ہیں۔ اگر آپ چاہیں تو آپ آملیٹ بھی کھا سکتے ہیں۔‘
بین الاقوامی خلائی سٹیشن میں مختلف ممالک کے افراد ہوتے ہیں اور سٹاٹ بتاتی ہیں کہ اکثر خلاباز ایک دوسرے کا کھانا لیتے ہیں جیسے سکول کے بچے شیئر کیا کرتے ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’دن کے کھانے میں یخنی ہوتی ہے اور آپ مکئی کی روٹی میں کچھ بھی رول کر کے کھا سکتے ہیں اور رات کے کھانے میں میرا پسندیدہ کھانا یعنی جاپانی کھانے ہوتے ہیں کیونکہ وہ بہت لذیذ ہوتے ہیں۔‘
خلا میں معلق کھانا
بین الاقوامی خلائی سٹیشن میں پلیٹیں یا پیالے نہیں ہوتے کیونکہ وہاں سب کچھ خلا میں معلق رہتا ہے۔ وہاں جو کھانا کھایا جاتا ہے وہ عموماً پراسیسڈ ہوتا ہے اور اس کا وزن کم کرنے کے لیے اس میں سے پانی نکال لیا جاتا ہے۔
خلاباز کھانے سے پہلے گرم اور ٹھنڈے پانی کے ڈسپنسرز کی مدد سے کھانے کو دوبارہ ہائیڈریٹ کر لیتے ہیں۔
کھانا عام طور پر پیکٹس میں ہوتا ہے تو اسے ہی پلیٹ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے اور ساتھ ایک خاص چمچ کے ذریعے اس میں سے کھانا کھایا جاتا ہے۔
سٹاٹ وضاحت کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’لمبے ہینڈل والے چمچ کے ذریعے آپ چاول نکالتے ہیں اور پھر اسے سالن میں ڈبوتے ہیں اور پھر مزے سے کھاتے ہیں۔‘
خلا میں معلق کھانا کھانا خاصا مشکل محسوس ہوتا ہے تو سٹاٹ کو یہ عمل کیسا لگا؟
وہ کہتی ہیں ’یہ سارا عمل بہت تفریح والا ہوتا ہے۔ ایک دوسرے کی جانب کھانا پھینکنا یا اسے خلا میں ہی کھانے کی کوشش کرنے کا اپنا مزہ ہوتا ہے۔‘
’پانی ری سائیکل کرنا پڑتا ہے‘
خلا میں پیاس بھجانا اور پانی پیتے رہنا ضروری ہے لیکن یہ پانی آتا کہاں سے ہے؟ کچھ پانی تو خلاباز اپنے ساتھ زمین سے لے کر جاتے ہیں اور باقی خلا میں ہی ری سائیکل کیا جاتا ہے۔
خلائی شٹل کے ویسٹ کے ایندھن کے سیلز میں سے ضائع ہونے والے پانی، حبس اور پیشاب کو بھی ری سائیکل کیا جاتا ہے۔
یہ پڑھ کر شاید آپ کو گھن آئے لیکن ناسا کا دعویٰ ہے کہ یہ پانی اس پانی سے زیادہ صاف ہے جو ہم زمین پر پیتے ہیں۔
طبی مسائل
ایک اور اہم چیز جو کھانے سے منسلک ہے وہ غذائیت ہے۔ خلا میں متوازن غذا کھانے سے وہاں پر موجود ہونے کے باعث صحت کو لاحق خطرات کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔
ناسا کے چیف نیوٹرشنسٹ سکاٹ سمتھ کہتے ہیں کہ ’خلا میں جانے سے ہمارے جسم کے بوڑھے ہونے کا عمل تیز ہو جاتا ہے۔ اس سے ہڈیاں کمزور اور وزن کم ہو سکتا ہے۔‘
’ہم جانتے ہیں کہ سفر کے دوران لوگوں کا وزن کم ہوتا ہے۔ ہمیں اندیشہ ہے کہ ایسا اس لیے ہے کیونکہ خلا میں کھانا ویسے آپ کے معدے میں جا کر ٹھہرتا نہیں، جیسے زمین پر ٹھہرتا ہے۔ پھر آپ کا معدہ آپ کے دماغ کو فوراً یہ پیغام دے دیتا ہے کہ آپ کا پیٹ بھر چکا ہے حالانکہ ایسا نہیں ہوتا، اس لیے ہم نے خلابازوں کو ایک آئی پیڈ ایپ دی ہوتی ہے جس سے یہ اعداد و شمار ریکارڈ کیے جاتے ہیں۔‘
دیگر صحت کے مسائل میں ہڈیوں کا جھڑنا بھی شامل ہے۔
سکاٹ بتاتے ہیں کہ ’خلائی سفر کے دوران ہڈیوں کا جھڑنا مینوپاز کے بعد خواتین میں ہڈیاں جھڑنے سے 10 گنا تیز ہوتا ہے۔‘
اس لیے خلا میں متوازن غذا جیسے مائیکرونیٹورینٹس، کاربوہائیڈریٹس، پروٹین، وٹامن اور منرلز استعمال کرتے رہنا جسمانی صحت کے لیے بہت اہم ہوتا ہے تاہم سکاٹ کے مطابق اس سے خلابازوں کی ذہنی صحت بھی بہتر ہوتی ہے۔
’جب بھی کوئی خلائی شٹل سپیس سٹیشن جاتی ہے تو ہم تازہ پھل اور سبزیاں جیسے مالٹے، سیب وغیرہ بھیج دیتے ہیں۔ یہ زیادہ دیر تک تازہ تو نہیں رہتے لیکن ذہنی اعتبار سے ان کا بڑا اثر ہوتا ہے۔‘
چاکلیٹ، خربوزے اور شراب
سکاٹ کہتے ہیں کہ خلا میں میسر کھانا اس سے بہت اچھا ہوتا ہے جو عام طور پر لوگ سوچتے ہیں اور خلاباز سٹاٹ اس سے اتفاق کرتی ہیں۔
سٹاٹ کہتی ہیں کہ ’مجھے نہیں یاد پڑتا کہ میں کسی بھی موقع پر کھانے سے بوریت کا شکار ہوئی ہوں۔‘
خلابازوں کے خاندان بھی انھیں کھانے پینے کی اشیا بھیج سکتے ہیں۔
سٹاٹ کے شوہر نے انھیں ایک مرتبہ لندن سے ڈارک چاکلیٹ سے لپٹی ہوئی ٹافیاں بھیجیں اور سٹاٹ کے ساتھی خلابازوں کو شراب اور مچھلی ملی اور پھر انھوں نے تمام ساتھیوں سے شیئر کیا۔
اگر کوئی ایسا کھانا ہو بھی جسے یہ خلاباز یاد کرتے ہیں، تو وہ واپس زمین پر آ کر تو کھا ہی سکتے ہیں۔ جیسے ایک مرتبہ روسی خلاباز ایلیکس اووچینن کا استقبال ہی خربوزے سے کیا گیا تھا جب وہ سنہ 2016 میں خلائی سفر سے واپس آئے تھے۔
مستقبل کے خلائی مشنز کے لیے ناسا ابھی سے کھانوں کے بارے میں تیاری کر رہا ہے اور ایسا کینیڈا کی خلائی ایجنسی سی ایس اے کی مدد سے ’ڈیپ سپیس فوڈ چیلنج‘ میں کیا جا رہا ہے۔
سٹاٹ کہتی ہیں کہ ’ابھی آگے بہت ساری تبدیلیاں آ سکتی ہیں۔‘ وہ سمجھتی ہیں ک مستقبل میں خلائی کھانا شاید ’کیپسولز کے ذریعے کھایا جائے۔‘