ہم اِس تنازعے میں فریق نہیں بنیں گے۔ آپ سے کس نے کہا کہ فریق بنیں؟ پاکستانی سرزمین کسی کے خلاف استعمال نہیں ہو گی۔ کس نے کہا ہے کہ پاکستانی سرزمین استعمال کرنی ہے؟ ایران پہ حملے کے لئے امریکا کو پاکستانی سرزمین کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں۔ امریکی فوجیں کویت سے لے کر قطر تک تعینات ہیں۔ قطر میں بہت بڑا امریکی فوجی اڈہ موجود ہے۔ جس چیز کا کوئی خطرہ ہی نہیں اُس کے بارے میں ہم اتنے بہادر کیوں بن رہے ہیں؟ یہ تاثر دفتر خارجہ سے لے کر دوسروں تک کیوں دیا جا رہا ہے کہ ہم استعمال نہیں ہوں گے جب اُس طریقے سے استعمال ہونے کا کوئی خدشہ نہیں؟
ہم ایران اور امریکا‘ دونوں کو صبر کی تلقین کر رہے ہیں۔ حملہ ایک طرف سے ہوا ہے اور نقصان دوسرے فریق نے اُٹھایا ہے لیکن کمال مہربانی سے ہم دونوں کو صبر کا کہہ رہے ہیں یعنی قاتل اور مقتولین دونوں کو ایک جیسی نصیحت۔
کوئی نہیں کہہ رہا کہ پاکستان اس تنازعے میں فریق بنے۔ اُس کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ایک طرف امریکا ہو اور ہم اُس کے خلاف معمولی سی حرکت بھی کریں، اس سے زیادہ مضحکہ خیز تصور کوئی ہے نہیں۔ لیکن اس موقع پہ چاہے دبے لفظوں میں کچھ تو تشویش کا اظہار ہوتا کہ جارحیت ہوئی ہے جس سے خطے کا امن تباہ ہو سکتا ہے۔ ہم اتنا بھی نہ کر سکے۔ اظہارِ تشویش تو دور کی بات ہے، لیکن جس دن جنرل قاسم سلیمانی پہ حملہ ہوا اور وہ شہید ہوئے‘ ہمارے کئی ٹی وی چینل تو ایسے رپورٹ کر رہے تھے جیسا کہ وہ امریکا کی نمائندگی کر رہے ہوں۔ جو صدر ٹرمپ نے کہا کہ جنرل سلیمانی امریکیوں پہ حملوں کی تیاری کر رہے تھے اور اس لئے اُنہیں مارا گیا‘ یہی کچھ کئی ٹی وی چینل برابر نشر کر رہے تھے۔ یعنی اُس دن لگتا تھا کہ ہم ترجمانی ایک فریق کی کر رہے ہیں۔
ایک دفعہ پھر اس بات کا اعادہ ہو جائے کہ کون کہہ رہا ہے فریق بنیے۔ لیکن کچھ تو ہمت ہونی چاہیے۔ ہمیں ایران کا ترجمان بننے کی ضرورت نہیں‘ لیکن اتنی بھی کوئی تمیز نہیں ہو سکتی کہ حملہ آور کون ہے اور حملہ سہنے والا کون؟ محتاجی ہو گی، مجبوریاں ہوں گی لیکن اتنی محتاجی اور اتنی مجبوریاں؟ مجبوری تو اب ہمارا عذر بن گئی ہے کہ ہمارے معاشی حالات بہت خراب ہیں اور ہم سیدھی لائن سے ادھر اُدھر نہیں ہو سکتے، لیکن تاریخِ پاکستان دیکھی جائے تو کئی اہم موڑ آئے جب کوئی مجبوری بھی نہ تھی اور ہمارا کردار کاسہ لیسوں کا رہا۔
شروع کے سالوں میں آزاد خارجہ پالیسی بنا سکتے تھے لیکن انگریزوں کی پرانی وفاداریاں نبھاتے ہوئے پاکستان سیدھا مغربی دفاعی معاہدوں میں کود پڑا۔ ہندوستان دشمنی تو ایک جواز بنا کہ ہندوستان سے مقابلہ کرنے کیلئے اُن دفاعی معاہدوں میں جانا ضروری تھا۔ لیکن یہ ایک بھونڈا عذر تھا۔ 1956ء میں جب نہر سویز کا بحران پیدا ہوا‘ اور اسرائیل، برطانیہ اور فرانس نے مصر پہ حملہ کیا‘ تو ہمارا کردار شرمناک تھا۔ تب کے وزیر اعظم حسین شہید سہروردی بڑے لیڈر تھے لیکن مغرب نواز تھے۔ اس نازک موقع پہ عربوں کے بارے میں وہ الفاظ کہہ گئے جو تاریخ کا اَب حصہ بن چکے ہیں کہ زیرو پلس زیرو، زیرو ہی رہتا ہے۔ ہماری داستان ایسی تلخیوں سے بھری ہوئی ہے۔ بار بار کیا دہرایا جائے۔ شورشِ افغانستان اُٹھی تو ڈالروں اور ریالوں کے عوض ہم فریق اول بن گئے۔ پاکستان کا ستیاناس ہو گیا لیکن جہاد کے نعرے بلند کیے جاتے رہے۔ اُس نام نہاد جہاد کے نقصانات واضح ہیں، فوائد نظروں سے اوجھل۔ افغانستان کو فتح کرتے کرتے سیاہ چن گلیشئر ہمارے ہاتھ سے نکل گیا۔ اُس دن سے لے کر آج تک ہماری فوجیں دنیا کے بلند ترین جنگی میدان پہ ہندوستانی فوج کے آمنے سامنے ہیں لیکن گلیشئر پہ بیشتر قبضہ ہندوستان کا ہے۔ دوسری دفعہ 9/11 کے بعد افغانستان میں شورش اُٹھی تو امریکا سے ایک فون کال آنی تھی کہ ہم لیٹ گئے اور امریکا کو وہ کچھ دینے کو تیار ہو گئے جو اس نے مانگا بھی نہ تھا۔ ہماری دریا دلی پہ امریکی بھی حیران رہ گئے۔
پاکستانی عوام امریکا نواز نہیں۔ اُن کے جذبات بالکل مختلف ہیں لیکن ہمارے بالائی طبقات پتہ نہیں کون سے مفادات کی خاطر آزاد رائے رکھنے کی صلاحیت سے قطعی محروم ہو چکے ہیں۔ مفادات بھی چھوٹے اور یوں کہیے گھٹیا قسم کے لیکن ان میں قوم کو ایسا جکڑا ہے کہ جو مرحلہ آتا ہے ہمار ے حکومتی طبقات کی امریکا نوازی بھڑک اُٹھتی ہے۔
ہمیں ایران کے تابع نہیں ہونا چاہیے۔ اُس کی خارجہ پالیسی اور خارجی اہداف جو بھی ہوں‘ ہمارے مختلف ہیں۔ ہمارا قومی مفاد اپنا ہے‘ لیکن انصاف اور ہمت بھی کوئی چیزیں ہوتی ہیں۔ ایران ہمارا ہمسایہ تو ہے، مسلمان ہونے کا رشتہ بھی اُس سے ہے۔ ایک طرف سے زیادتی ہو رہی ہو اُس پہ ہم دھیمی سی آواز سے بھی نہیں بول سکتے۔ کوئی یہ نہیں کہہ رہا کہ امریکا کے خلاف ہم برسر پیکار ہو جائیں‘ لیکن زیادتی کو زیادتی تو کہیں، جارحیت ہو تو اُس نام سے پکاریں بیشک سلجھے اور دھیمے لہجے میں۔
چی گویرا پاکستانی نہیں تھا لیکن اُس کی جواں مردی کا ہر آزادی پسند معترف ہے۔ چی گویرا کیوبا کا ہیرو نہیں رہا پوری دنیا میں حریت پسندوں کا ہیرو ہے۔ ویت نامی قوم کی اپنی جنگ تھی۔ ہوچی مِن اُن کے تاریخ ساز لیڈر تھے لیکن دنیا میں ویت نامی قوم کی بہادری مانی جاتی ہے۔ اُن کی امریکا مخالف جنگ کے قصّے پڑھتے ہوئے آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔
دنیائے اسلام پہ ہم ایک نظر تو دوڑائیں۔ جو مسلمان ممالک اسرائیل مخالف سمجھے جاتے تھے حالیہ سالوں میں تباہی کے دہانے پہ پہنچا دئیے گئے ہیں۔ لیبیا برباد، عراق برباد، شام طویل خانہ جنگی کے اثرات میں گھرا ہوا۔ لے دے کے اسرائیل اور امریکا کے خلاف پورے خطے میں ایک ہی طاقت کھڑی ہے اور وہ ہے ایران۔ لبنان سے لے کر یمن تک جو مزاحمت کی تحریک اُٹھی ہے‘ اُس کے پیچھے ایران کھڑا رہا ہے۔ امریکا کی دشمنی ایران سے اور کیا ہے؟ دشمنی یہی ہے کہ بیشتر مسلمان ممالک کی طرح ایران امریکی مفادات کے تابع ہونے سے گریزاں ہے۔ ایران اپنا دشمن اسرائیل کو سمجھتا ہے۔ ایران میں سب سے مقبول نعرہ ہے ‘مرگ بر امریکا‘۔ حزب اللہ کے پیچھے ایران کھڑا ہے۔ حزب اللہ عرب دنیا میں واحد طاقت ہے جس نے اسرائیل کے دانت میدان جنگ میں کھٹے کیے ہیں۔ شام میں بشارالاسد کی حکومت ختم ہو چکی ہوتی اگر حزب اللہ اور ایران اُس کی مدد کو نہ آتے (اور روس بھی اِن قوتوںکے ساتھ کھڑا نہ ہوتا)۔ عراق میں امریکی تسلط قائم رہتا‘ اگر وہاں بغاوت کی آگ نہ بھڑکتی۔ اُس آگ کے بھڑکانے میں ایران کا بڑا ہاتھ تھا‘ لہٰذا اس پورے خطے میں اگر امریکا مخالف تحریکیں چلی ہیں تو اُن کا روح رواں ایران رہا ہے۔
اور ایران کا صفِ اول کا جنگی کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی تھا۔ اُسی کو امریکا نے قتل کیا ہے۔ ہر کوئی جو مر جائے شہید نہیں ہوتا۔ شہید وہ ہے جو راہِ حق میں مارا جائے۔ اور ظلم کے خلاف مزاحمت سے زیادہ واضح راہِ حق اور کوئی نہیں۔ اِس نظر سے دیکھا جائے تو قاسم سلیمانی اُمت کے شہید کا درجہ رکھتا ہے۔
ایرانیوں کے پاس کوئی ایٹم بم نہیں۔ وہ نیوکلیئر طاقت نہیں۔ اُن کے پاس کوئی لمبی چوڑی ائیر فورس نہیں لیکن اپنی ہمت سے اُنہوں نے خطے میں امریکا کو ایسا مزہ چکھایا ہے کہ امریکا کی سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ کیا کرے۔ ہم نے ایرانی جنگوں کا حصہ نہیں بننا۔ ایران جانے اور اُس کے اہداف لیکن ہم بھی اِس خطیّ میں رہتے ہیں۔ ہمارے نزدیک کہیں ہمت کی شمع جلے تو ہمارا فرض بنتا ہے کہ اُسے قدر کی نگاہ سے دیکھیں۔ ایرانی قوم کے بکھیڑوں میں ہم نہ پڑیں لیکن ایرانی قوم کی ہمت سے تو کچھ سبق سیکھیں۔