گزشتہ دنوں ایک لکھاری نے ملک کی مشہور اداکارہ کاانٹرویو کیا۔ لکھاری کا نام لکھنے کی ضرورت نہیں کہ آپ اپنا تعارف ہوا بہار کے ہیں ۔گزشتہ کئی دہائیوں سے ٹی وی اور اسٹیج کےلئے ڈرامے لکھ رہے ہیں، طنزو مزاح کے پروگرام تحریر کر چکے ہیں ، اُن پروگراموں کی میزبانی بھی خود کرتےہیں ، بڑی بڑی اشتہاری کمپنیاں انہیں تقریبات میں مدعو کرتی ہیں جہاں وہ (اپنے تئیں) انقلابی باتیں کرکے کارپوریٹ کلاس کا خون گرماتے ہیں ، چونکہ طنز کرنا جانتے ہیں اِس لئے اپنےفقروں پر خوب دادسمیٹتے ہیں ، بعض اوقات اُن کی بات میں طنز یا مزاح نہیں بھی ہوتا تو حاضرین ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی یہ سوچ کر تالیاں بجا دیتے ہیں کہ شاید کوئی گہری بات کہہ گئے ہوں گے۔موصوف کو یہ کہنے کابھی بہت شوق ہے کہ اُن کی ’باغیانہ گفتگو ‘ کی وجہ سے اُن پر پابندی لگا دی جاتی ہے ، یہ بات خود کسی لطیفے سے کم نہیں کیونکہ انہیں اندازہ ہی نہیں کہ اِس ملک میں حقیقی باغیوں کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے ۔بہرکیف،میری ذاتی پسند یا نا پسند سے قطع نظر ،اُن کا شمار بہرحال ملک کے بہترین ڈرامہ نگاروںمیں ہوتا ہے ۔جس اداکارہ کا انہوں نے انٹرویو کیا اُس کا نام بھی لکھنے کی ضرورت نہیں ، صف اول کی ’heer one‘ ہیں ، ڈراموں سے آغاز کیا اور آج کل فلم میں گنڈاسے گاڑ رہی ہیں،اداکارہ واقعی اچھی ہیں اِس لئے پاکستان سے باہر بھی کام کا موقع ملا اور اپنا لوہا منوایا،تاہم وہ خود کو صرف اداکارہ نہیں سمجھتیں،انٹلکچوئل بھی سمجھتی ہیں اور آج کل چونکہ ایکٹیوسٹ بننے کا رجحان ہے سو آپ چھوٹی موٹی فیمنسٹ بھی ہیں۔ کبھی کبھار جب موسم اچھا ہو تو کالا چشمہ لگا کر ریپ کے خلاف واک کر لیتی ہیں اورکہیں کسی عورت کے ساتھ زیادتی ہوجائے تو ایک آدھ بیان بھی داغ دیتی ہیں ، اچھا ہے ، ہمیں ایسی باتوں کی قدر کرنی چاہئے ، کم ازکم دیگر اداکاراؤں سے تو بہتر ہیں جو سارا دن بیٹھے بیٹھے اونگھتی رہتی ہیں ، رائٹ!
جس انٹرویوکی ہم بات کر رہے ہیں اُس کا ایک ٹکڑا کسی جرثومے کی طرح سوشل میڈیا پر پھیل گیا ، بولے تو وائرل ہو گیا،اُس کلپ میں لکھاری نے دو خواتین سیاستدانوں کے بارے میں اِس قسم کے الفاظ کہے جو کم ازکم کسی ایسے ادیب کو زیب نہیں دیتے جس کی عمر اسّی برس کے قریب ہو اور جو لوگوں کو تہذیب اور علم دوستی کا درس دیتا ہو اور اپنے ڈراموں میں میر، غالب اور اقبال کے قصے سناتا ہو اور قائد اعظم کے پاکستان کو یاد کرکے ٹسوے بہاتا ہو۔ چونکہ موصوف کی سیاسی وابستگی کسی سے پوشیدہ نہیں لہٰذا اُن کے ریمارکس پر کم ازکم مجھے تو حیرت نہیں ہوئی ، آپ اِس سے پہلے بھی اپنے ایک اسٹیج ڈرامے میں بیہودہ مکالمے لکھ چکے ہیں جن کا مقصد اپنے مخالف نقطہ نظر کے سیاستدان کی کردار کُشی میں اپناحصہ ڈالنا تھا ۔یہ کام موصوف نے اُن دنوں کیا جب وہ کردار کُشی کی مہم اپنے عروج پر تھی ۔چلئے کوئی بات نہیں ، اِس عمر میں اکثر لوگ سٹھیا جاتے ہیں ،سو ہم انہیں یہ رعایت دے دیتے ہیں ، لیکن اُس خاتون اداکارہ کو کس بات کی رعایت دیں جو ایک ایسے جملے پرہنس ہنس کر دہری ہوگئیں جس میں ہنسنے والی کوئی بات ہی نہیں تھی اور اُس پر طرہ یہ ہے کہ انہوں نے تالیاں بجا کرمحترم لکھاری کے خواتین کے خلاف نفرت انگیز تبصرے کی تائید کی۔ جو بات لکھاری نے کہی اسے عورتوں کے خلاف نفرت انگیز تبصرے کے سوا کچھ نہیں کہا جا سکتا ، اُس اداکارہ کو چاہئے تھاکہ وہ کچھ ہمت سے کام لیتیں ، اپنےفیمنسٹ ہونے کی لاج رکھتیں اور انہیں ٹوکتیں کہ ایسا کرنا درست نہیں ، لیکن محترمہ نے یہ مناسب نہیں سمجھا اور یوں اُس موقع پر اُن کا اپنا بغض بھی سامنے آگیا۔
یہاں تین سوال پیدا ہوتے ہیں ۔پہلا ،کیا ادیب کو سیاسی نظریات پر اظہارخیال کرنا چاہئے ؟ یقینا ً کرنا چاہئے، ہر شہری کی طرح یہ ادیب کا بھی حق ہے بلکہ اُس پر تو دہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے ، وہ نہ صرف تاریخ کی درست سمت میں کھڑا ہو بلکہ اپنی تحریروں سے قارئین کی رہنمائی بھی کرے۔ ہمارے محبوب لکھاری تاریخ کی درست سمت میں کھڑے ہیں یا نہیں اِس کا فیصلہ تو تاریخ ہی کرے گی لیکن جب وہ بار بار کہتے ہیں کہ اُنہیں سیاسی معاملات پر رائے دینے سے کوئی دلچسپی نہیں اور پھراسی لمحے وہ اپنے مخالف پر تبرّا بھی کرتے ہیں تو کیا اِس عمل کو نرم سے نرم الفاظ میں منافقت نہیں کہا جائے گا؟ دوسرا سوال فیمینزم کی علمبردار اداکارہ سے ہے ، کیا محض جدید کپڑے پہننے سے کوئی عورت فیمنسٹ ہوجاتی ہے ؟ ظاہر ہے کہ نہیں ۔فیمینزم ایک نظریے کا نام ہے جس میں خواتین کے خلاف نفرت پر مبنی گفتگو کی کوئی گنجائش نہیں،انگریزی میں اسےmisogynyاورفارسی میں ’’تنفر از زن ‘‘کہتے ہیں ۔ ہماری انٹلکچوئل اداکارہ کو بغض معاویہ میں یہ یاد ہی نہیں رہا کہ وہ کس بات پر تالیاں پیٹ رہی ہیں۔تیسرا سوال یہ ہے کہ طنز اور مزاح کیا ہوتا ہے ؟ سچی بات ہے کہ اِس بات کا مذکورہ لکھاری سے بہتر کوئی جواب نہیں دے سکتا ، میں صرف یہ عرض کر سکتا ہوں کہ فی زمانہ ایسے مزاح کی گنجائش ختم ہوچکی ہے جس میں خواتین، خواجہ سراؤں، ہیجڑوں اور معذوروںکو تضحیک کا نشانہ بنا کر لوگوں کو ہنسانے کی کوشش کی جاتی تھی ۔ ہمارے پنجابی کے اسٹیج ڈراموں میں کسی بھی مرد کو ہیجڑا بنا کر ہنسانا سب سے آسان کام ہوتا ہے ، اداکار اُس پر باآسانی جگتیں لگا کر حاضرین سے داد سمیٹ لیتے ہیں۔ لیکن یہ بیچارے تو ان پڑھ لوگ ہیں، آپ تو پڑھے لکھے تھے، ادیب تھے، دانشور تھے، آپ کو کیا ہوا، بغض معاویہ میں آپ اتنا آگے چلے گئے کہ misogynistبن گئے! نہیں صاحب ،یہ آپ کا مقام نہیں تھا۔لیکن سچ پوچھیں تو مجھے اِس پر کوئی حیرت نہیں ، ہمارے ہاں اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ اندر سے پکے misogynist ہیں، ہمارے ڈرامے اِس کی بہترین مثال ہیں، جن میں یہ پیغام پوشیدہ ہوتا ہے کہ عورت کے اندر نفرت اور زہر بھرا ہے اور وہی فساد کی اصل جڑ ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ مردوں کے منفی کردار نہیں دکھائے جاتے، بالکل دکھائے جاتے ہیں مگر اِس طرح کہ boys will be boys۔خیر،یہ ایک علیحدہ موضوع ہے جس پر پھر کبھی بات ہوگی، فی الحال تو آئیں سب مل کر اِس ملک میں دانشوری کی فاتحہ کے لئے ہاتھ اٹھاتے ہیں!