امریکی محکمہ دفاع کے مطابق عراق میں کم از کم دو امریکی فضائی اڈوں پر ایک درجن سے زائد بیلسٹک میزائلوں سے حملہ کیا گیا ہے۔
ایران کے سرکاری ٹی وی کے مطابق یہ حملہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حکم پر بغداد میں ڈرون حملے میں ملک کے اعلیٰ کمانڈر قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد انتقامی کارروائی ہے۔
پینٹاگون کا کہنا ہے کہ عراق میں کم از کم دو فضائی اڈوں ایربل اور عین الاسد کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
تاہم ابھی تک ان حملوں میں کسی جانی نقصان کے متعلق اطلاعات نہیں ہیں۔
ایران نے عراق میں دو امریکی فضائی اڈوں پر بدھ کی علی الصبح راکٹ حملے کیے۔
وائٹ ہاؤس کی ترجمان اسٹیفنی گریشام نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’ہم عراق میں امریکی تنصیبات پر حملوں کی اطلاعات کے بارے میں آگاہ ہیں۔ صدر ٹرمپ کو اس حوالے سے آگاہ کر دیا گیا ہے اور، اس صورتحال کا بغور جائزہ لے رہے ہیں اور اپنی قومی سلامتی ٹیم سے مشاورت کر رہے ہیں۔‘
ایران کے سرکاری میڈیا کا کہنا ہے کہ اس حملے کا نام ’آپریشن سلیمانی‘ رکھا گیا ہے۔ ایران کے پاسداران انقلاب کا کہنا ہے کہ یہ حملے جمعہ کے روز امریکی حملے میں قاسم سلیمانی کی ہلاکت کا بدلہ تھا۔
ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ‘ایران نے اقوام متحدہ کے چارٹر 51 کے تحت اپنے دفاع میں مناسب اقدامات اٹھاتے ہوئے اس فضائی اڈے کو نشانہ بنایا ہے جہاں سے ہمارے شہریوں اور اعلیٰ حکام کے خلاف بزدلانہ مسلح حملے کیے جاتے تھے۔ ہم کشیدگی یا جنگ کے خواہاں نہیں ہیں، لیکن کسی بھی جارحیت کے خلاف اپنا دفاع کریں گے۔’
جبکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کی جانب سے کیے گئے حملے پر ردعمل دیتے ہوئے ٹویٹ کیا ‘سب کچھ ٹھیک ہے۔ عراق میں واقع دو فوجی اڈوں پر ایران سے میزائل داغے گئے۔ ہلاکتوں اور نقصانات کا اندازہ لگایا جا رہا ہے۔ اب تک سب کچھ بہتر ہے۔ ہمارے پاس دنیا کی سب سے طاقتور اور مسلح فوج ہے۔ میں کل صبح اپنا بیان دوں گا۔’
ایران کے سرکاری نیوز ایجنسی کے مطابق پاسداران انقلاب کے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ ’ہم ان تمام امریکی اتحادیوں کو خبردار کر رہے ہیں، جنھوں نے اس کی دہشت گرد فوج کو اپنے اڈے دیئے تھے کہ ایران کے خلاف جارحانہ کارروائیوں کا نقطہ آغاز کرنے والے کسی بھی علاقے کو نشانہ بنایا جائے گا۔‘
یہ حملے ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کی تدفین کے چند گھنٹوں بعد کیے گئے ہیں۔ مقامی ٹی وے المیادین کا کہنا ہے کہ پہلا راکٹ حملہ عراق میں امریکی فضائی اڈے الاسد پر کیا گیا جبکہ اس کے فوری بعد دوسرا حملہ اربل کے امریکی فضائی اڈے پر کیے گئے۔
ایران کی جانب سے عراق میں امریکی اڈوں پر میزائل حملوں کے بعد امریکہ کی جانب سے جاری کیے گئے سرکاری بیان کے مطابق میزائل حملوں کی تصدیق کی گئی اور کہا گیا کہ ہونے والا نقصانات کا اندازہ لگایا جا رہے ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ محکمہ دفاع نے گذشتہ چند روز سے سامنے آنے والے خطرات کے پیش نظر تمام ممکنہ اقدامات اٹھائے تھے تاکہ امریکی افواج اور اتحادیوں کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔
’امریکی فوج کا انخلا عراق کے لیے نقصان دہ ہوگا‘
اس سے قبل ہی امریکی صدارتی دفتر اوول میں گفتگو کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے عراق کے معاملے پر بھی بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکی فوج کا انخلا ملک (عراق) کے لیے سب سے خراب چیز ہو گی۔
ان کا یہ بیان ایک خط کے بعد سامنے آیا ہے جس پر امریکی فوج نے عراق سے انخلا سے متعلق پیغام عراقی وزیر اعظم کو بھیجا تھا جبکہ بعدازاں امریکی حکام کا کہنا تھا کہ یہ خط غلطی سے عراق کے وزیر اعظم کو بھیجا گیا تھا۔
یاد رہے کہ پانچ جنوری کو عراق کی پارلیمان نے امریکی فوج کے ملک سے انخلا سے متعلق ایک قرار داد منظور کی تھی۔ جبکہ امریکی صدر نے ایسا کرنے پر عراق پر سخت پابندیوں کا کہا تھا۔
عراق میں امریکہ کے تقریباً 5 ہزار فوجی موجود ہیں۔
ایسوسی ایٹڈ پریس نیوز ایجنسی کے مطابق امریکہ نے عین الاسد کا فضائی اڈا پہلی مرتبہ سنہ 2003 میں کیا تھا جب امریکہ کی زیر قیادت حملے میں اس وقت کے عراق کے صدر صدام حسین کی حکومت کا تختہ الٹا گیا تھا اور پھر اس کے بعد نام نہاد شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کے خلاف لڑائی میں استعمال کیا
تاہم دوسری جانب برطانیہ کے دفتر خارجہ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہم زمینی حقائق کا فوری جائزہ لے رہے ہیں۔ ہماری پہلی ترجیح برطانوی فوجی اہلکاروں کی حفاظت ہے۔‘
یاد رہے اس سے قبل برطانوی سیکریٹری دفاع بین والیس نے کہا تھا کہ برطانیہ نے مشرق وسطیٰ میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے پیش نظر رائل نیوی اور فوجی ہیلی کاپٹر کو سٹینڈ بائی پر رکھا ہے۔
دوسری جانب حملے کے پیش نظر امریکہ کی فیڈرل ایوی ایشن انتظامیہ نے امریکی شہری فضائی کمپنیوں کو ایران، عراق، خلیج فارس اور خلیج عمان کے پانیوں پر فضائی حدود استعمال کرنے پر پابندی عائد کر دی ہے۔