Site icon DUNYA PAKISTAN

ذریعہ بخشش

Share

اسلامی جمہوریہ پاکستان بدقسمتی سے فلاحی ریاست نہیں ہے جبکہ یورپ،امریکہ اور بہت سے ممالک اسلامی تو نہیں لیکن فلاحی ریاست ضرور ہیں وہاں بیروزگار کو تب تک الائونس دیا جاتا ہے جب تک گورنمنٹ اسے ملازمت لے کر نہ دے یا وہ خود سے نوکری تلاش نہ کرے۔ اسی طرح بزرگوں کو مفت علاج اور رہائش دی جاتی ہے، اگر وہ معاشی طور پر مضبوط نہ ہوں۔ بچوں کو پیدائش سے لے کر اٹھارہ سال تک وظیفہ دیا جاتا ہے تاکہ ان کی نشوونما میں کسی قسم کی کمی نہ آئے تعلیم مفت اور یونیورسٹی میں وظیفے دیئے جاتے ہیں ،یتیموں کی کفالت اسٹیٹ یعنی گورنمنٹ کے ذمے ہوتی ہے کام کرنے والے خاندانوں کو کام کرنے پر فیملی ٹیکس کریڈٹ دیا جاتا ہے کہ اگر ان کی آمدنی کم ہے تو ہاتھ پھیلانے یا قرض لینےکے باعث اپنی عزت نفس کو مجروح نہ ہونے دیں۔پاکستان میں یہ سارے کام زکوۃ اور صدقے کے پیسوں سے گورنمنٹ اور مسلمان پاکستانی اپنے خاندانوں اور ہمسایوں کے لئے سرانجام دیتے ہیں جو غربت کی لکیر سے نیچے یا پھر کم آمدنی کی وجہ سے اپنے اخراجات نہیں چلا سکتے !

یورپ اور امریکہ کی آبادیاں ایک حد تک کنٹرول میں رہتی ہیں جس کی وجہ سے ضروریات پوری کرنے میں ان امیر ملکوں کو زیادہ مشکلات درپیش نہیں کیونکہ پاکستان کی آبادی اپنے کنٹرول سے باہر ہے اس لئے یہاں ضروریات کو پورا کرنا انتہائی مشکل کام ہے لیکن میرے تجربے میں چند ایک ادارے ایسے ہیں جن کی وجہ سے گورنمنٹ کے اخراجاتی بوجھ میں یہ فلاحی ادارے بے انتہا موثر ثابت ہوتے ہیں امجد ثاقب صاحب اس میں سرفہرست ہیں جو اخوت کے نام سے اپنے ادارے سے فلاحی کاموں میں نمایاں ہیں، منوبھائی تھیلی سیمیا کے بچوں کےذریعے اپنے لئے اجر عظیم کما رہے ہیں، اللہ ان کے درجات بلند کرے ۔اللہ والے اسکولوں میں کھانا مہیا کر رہے ہیں اور ساتھ اور بہت سے منصوبے بنا رہے ہیں جن سے پاکستان میں غربت کو کم کرنے میں مدد مل رہی ہے۔قاسم علی شاہ فائونڈیشن نوجوانوں کے لئے مشعل راہ ہے۔ انڈس اسپتال، کینسر کیئر ہسپتال اور عمران خان کا شوکت خانم بھی باکمال کام کر رہے ہیں۔ کراچی میں کم از کم دو سو فلاحی ادارے کام کر رہے ہیں، یہی صورتحال ملک کے دوسرے شہروں میں بھی ہے ۔گوجرانوالہ میں بخاری ویلفیئر فائونڈیشن اور ڈاکٹر شعیب اپنی اپنی حدود میں خدمت خلق میں مشغول ہیں۔ لاہور میں مقبول بٹ نے مفت تعلیم کے حوالے سے جو معیار قائم کیا ہے اور جتنے وسیع پیمانے پر یہ کام کیا ہے اس کی مثال نہیںملتی اسی طرح دی تسنیم فائونڈیشن کی کارکردگی بھی قابلِ قدر ہے۔ جماعت اسلامی کی الخدمت نے بھی خدمت کا ریکارڈ قائم کیاہے، اسی طرح کئی لوگ ذاتی حیثیت میں نام ونمود کے بغیر جتنا کماتے ہیں اس کا ایک قابل ذکر حصہ اللہ کےراستے میں بانٹ دیتے ہیں ان میں ایک نام ندیم اشرف کا بھی ہے ۔گورنمنٹ کی طرف سے بیت المال اور یوٹیلیٹی اسٹورز متوسط طبقے کی دیکھ بھال کرتے نظر آتے ہیں ،آغوش اور سب سے بڑھ کر ایدھی صاحب کی کاوشیں جن کو بالکل بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا اور بھی بہت سےلوگ اور ادارے ہیں جو پاکستان کے کمزور طبقوں کا کسی نہ کسی طرح سے خیال رکھنے پر مامور ہیں ،وہ بے شک تعریف کے قابل ہیں۔

یہاں میں اپنے علاقے کے ایک نوجوان کا ذکر ضرور کرنا چاہوں گا جو پچھلے دس برسوں سے نور پروجیکٹ کے نام سے ہمارے امیر علاقوں کے ارد گرد رہنے والےپینتیس سے چالیس دیہات کے غریب اور نادار لوگوںکی کفالت کر رہا ہے ۔امجد وٹو اور خالد شیخ اپنے دوستوں اور رشتہ داروں سے پیسے اکٹھے کرتے ہیں یتیم بچیوں کی کفالت، ایک ہزار بچوں کا اسکول، راشن، قانونی امداد، کلینک، دانتوں کا کلینک، دستر خوان، تکنیکی تعلیم کے ساتھ ساتھ لاہور میں پانچ سو تنوروں سے دو سے ڈھائی لاکھ روٹیاں مفت تقسیم کرتا ہے، اتنے سارے کام ایک ساتھ کرنا ناممکن سا لگتا ہے لیکن میں جب کل اپنی سارے دن کی تھکاوٹ کے باوجود اس کے امداد ی پروگرام میں پہنچا تو ان کی دستاویزی فلم دیکھ کر حیران رہ گیا مجھے ضرور اس کا حصہ بننا چاہئے یہ سوچتے ہوئے کہ یہ زندگی تو بس اتنی سی ہے کہ ’’توچل تے میں آیا‘‘ میرے بہت سے دوست اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں چشم دید گواہ ہوں کہ وہ اپنے اعمال کے علاوہ اس دنیا سے کچھ لے کر نہیں جا سکے۔ آپ ایک دفعہ نور پروجیکٹ کو دیکھنے EME ضرور آئیں شاید میری باتوں کی تصویر آپ کو مل سکے اور امجد وٹو جو آج کل ایک نیا ساٹھ بیڈ کا اسپتال بنا رہا ہے اس میں آپ کی اینٹ بھی لگ جائے اور کسے پتہ یہ اینٹ بخشش کا سبب بن جائے ۔

Exit mobile version