خفیہ عبادت!
شیخ صاحب میرے دیرینہ دوست ہیں اکبری منڈی کے آڑھتی ہیں بہت عبادت گزار ہیں، مگر دینی عبادات کو خفیہ رکھنے کے قائل ہیں چنانچہ کبھی ایسی بات نہیں کی جس سے ان کے عبادت گزار ہونے کا شائبہ بھی گزر سکتا ہو، گزشتہ روز میرے پاس تشریف لائے اور کہا پتہ نہیں کیسے لوگ ہیں جو ہر وقت خود کو پارسا بلکہ اللہ کے ولی ثابت کرنے میں لگے رہتے ہیں۔میں نے کبھی کسی پر ظاہر نہیں کیا کہ ماہ رمضان کے سارے روزے رکھتا ہوں بس روزے کی وجہ سے منہ کی مہکتی بو سے لوگوں کو میرے روزے کا پتہ چلتا ہے اس کے بعد انہوں نے بلاوجہ اپنا منہ میری جانب موڑا ،میں نے کہا شیخ صاحب آپ بتائیں نہ بتائیں مجھے آپ کے منہ کی بو سے پتہ چل گیا ہے کہ آپ کا روزہ ہے، اس پر فرمایا برادر کبھی کسی کا پردہ بھی رہنے دیا کرو۔
ایک دن ان پرخشیت ِالٰہی بہت زیادہ طاری تھی بہت دکھ سے کہنے لگے’’ کیا فائدہ ایسی عبادت کا کہ عبادت بھی کرتے رہو، اپنے دونمبری کاموں سے لوگوں کا جینا بھی حرام کر دو ‘‘،میں نے عرض کی بجا فرماتے ہیں آپ، دیکھ لیں جب سے رمضان شروع ہوا ہے مسجدیں بھی بھری رہتی ہیں اور ذخیرہ اندوزوں اور بلیک مارکیٹ کرنےوالوں کے پیٹ بھی اپنی حدود سے باہر نکل آئے ہیں سبزیوں اور پھلوں کی قیمتیں دگنی تگنی ہوگئی ہیں انہیں بالکل خدا کا خوف نہیں ،یہ سن کر کچھ گھبرا سے گئے ان کی پیشانی پر پسینہ نمودار ہوا جو انہوں نے اپنے رومال سے پونچھ لیا، کہنےلگے میں تو اپنے آڑھتی بھائیوں سے کہتا رہتا ہوں کہ کیا تم نے قیامت کے روز خدا کو منہ نہیں دکھانا مگر وہ بے شرم جواب میں یہی بات مجھ سے کہتے ہیں ،بندہ پوچھے تم یہ بات مجھے کیسے کہہ سکتے ہو میں تو معمولی سا منافع لیتا ہوں اور رمضان المبارک کے مہینے میں قیمت خرید پر سامان فروخت کرتا ہوں تاکہ کسی روزہ دار کی مجھے بددعا نہ لگے ،میں نے کہا شیخ صاحب آپ جیسے لوگ ہمارے ہاں کتنے ہیں اللہ آپ کو اس کا اجر دے اگر ہو سکے تو آپ اپنی شاپ کا نمبر مجھے دیں میں اپنے علاقے کے سب پھل فروشوں اور سبزی فروشوں سے کہوں گا کہ وہ تھوک کی ساری خریداری صرف آپ سے کیا کریں۔اس پر شیخ صاحب ایک دفعہ پھرگھبرائے اور کانپتی آواز میں کہالے لیں مگرمیںرمضان کا سارا مہینہ داتا صاحب ؒکے قدموں میں گزارتا ہوں اور آخری عشرہ مدینہ منورہ میں بسر ہوتا ہے ۔
جیسا کہ میں نے شروع میں عرض کیا کہ شیخ صاحب عبادات کو خدا اور بندے کے درمیان رازونیاز کہتے ہیں اور یوں کسی کو درمیان میں نہیں آنے دیتے تاہم روزانہ صبح سویرے میرے موبائل فون پر ان کا میسج آتا ہے کہ ’’تہجد اور فجر کی نماز کے بعد آپ اور آپ کے اہلخانہ کیلئے خصوصی دعائیں کی ہیں ۔ایک دن میں نے کہا شیخ صاحب آپ کی خفیہ عبادت کی اطلاع روزانہ آپ کے میسج سے مل جاتی ہے ’’اس پر کہنے لگے‘‘ دراصل ایک ریا کار شخص مجھے روزانہ میسج بھیجتا ہےجو میں غلطی سے آپ کو فارورڈ کردیتا ہوں گا ،اللہ میری اس ناکردہ خطا سے درگزر فرمائے‘‘۔ شیخ صاحب کے بڑے بیٹے کا ایک بہت بڑا مال ہے جس میں روز مرہ کی ہر چیز دستیاب ہے وہ بھی شیخ صاحب کی طرح بہت عبادت گزار ہے یہ بات مجھے آپ نے خود بتائی ہے ایک دن کہنے لگے ’’بس اس میں ایک خرابی ہے میرے ساتھ تراویح کے لئے بھی جاتا ہے مگر معمولی سا بھی بیمار ہو تو ناغہ کر دیتا ہے میں اسے کہتا ہوں شفا دینے والا اللہ ہے شفا اس کے سامنے جھکنے ہی سے ملتی ہے اللہ کرے اس کی سمجھ میں یہ بات آ جائے ‘‘ میں نے عرض کی شیخ صاحب میں میڈیسن، ملبوسات، اشیائے خورونوش سب اس کے مال سے خریدتا ہوں تین چار گنا زیادہ منافع لینے کا عفریت قوم کا جینا حرام کئے ہوئے ہے یہی صورتحال آپ کے صاحبزادے کے ہاں بھی نظر آتی ہے، آپ نیک آدمی ہیں رزق حلال پر یقین رکھتے ہیں اسے سمجھائیں کہ ناجائز منافع خوری کو جہنم کے شعلے خس وخاشاک بنا کر رکھ دیں گے ’’یہ سن کر شیخ صاحب نے کہا‘‘دراصل میرا بیٹا پورا سال گھر پر ہی یاد خدا میں مست رہتا ہے کبھی کبھار اپنے مال کا چکر لگاتا ہے یقیناً اس کے ملازمین اپنی عاقبت خراب کر رہے ہیں۔
اور ہاں شیخ صاحب روزانہ کسی نہ کسی بزرگ کے نام کی نیاز دیتے ہیں چنانچہ افطاری کے وقت وہ کبھی زردے، کبھی پلائو، کبھی قورمے ، کبھی مٹن چنے کی تین چار پلیٹیں منگواتے ہیں اور ان پر فاتحہ پڑھ کر اہلخانہ کے ساتھ نوش فرماتے ہیں ایک دن انہوں نے مجھے بھی نیاز کھانے کی دعوت دی شیخ صاحب چونکہ اکثر نیاز کے انواع واقسام کا ذکر کرتے رہتے تھے چنانچہ میں اس سعادت سے بہرہ ور ہونے کے لئے ان کے دولت کدے پر پہنچ گیا مگر قدرے تاخیر سے پہنچا شیخ صاحب نے بہت آئو بھگت کی سب اہلخانہ سے ملایا میرے ساتھ گروپ فوٹو بھی بنایا آخر میں کہنے لگے آپ تاخیر سے پہنچے ہم اہلخانہ چونکہ آٹھ پہرے روزے سے تھے چنانچہ آپ کا انتظار نہیں کر سکے مگر آپ نے پہلی دفعہ میرے غریب خانے پر قدم رنجہ فرمایا ہے اور میری عزت افزائی کی ہے اب آپ کو کھانا کھلائے بغیر نہیں جانے دوں گاروزہ تو ظاہر ہے آپ نے رستے میں کھول لیا ہو گا ’’میں نے کہا جی برادر‘‘ اس پر انہوں نے اپنے ملازم کو بلایا اور کہا ’’فریج میں سحری کا بچا جتنا بھی کھانا ہے وہ لائو اور دسترخوان سجا دو یہ سن کر فرطِ شرمندگی سے میرے آنسو نکل پڑے ۔
اور اب آخر میں حضرت ضمیر جعفری کی حسب حال نظم ’’میں روزے سے ہوں‘‘ ملاحظہ فرمائیں ۔
مجھ سے مت کر یار کچھ گفتار، میں روزے سے ہوں
ہو نہ جائے تجھ سے بھی تکرار، میں روزے سے ہوں
ہر اک شے سے کرب کا اظہار، میں روزے سے ہوں
دو کسی اخبار کو یہ تار، میں روزے سے ہوں
میرا روزہ اک بڑا احسان ہے لوگوں کے سر
مجھ کو ڈالو موتیے کے ہار ،میں روزے سے ہوں
میں نے ہر فائل کی دمچی پر یہ مصرعہ لکھ دیا
کام ہو سکتا نہیں سرکار، میں روزے سے ہوں
اے مری بیوی مرے رستے سے کچھ کتراکے چل
اے مرے بچو ذرا ہوشیار، میں روزے سے ہوں
شام کو بہر زیارت آ تو سکتا ہوں مگر
نوٹ کر لیں دوست رشتہ دار، میں روزے سے ہوں
تو یہ کہتا ہے لحن تر ہو کوئی تازہ غزل
میں یہ کہتا ہوں کہ برخوردار،میں روزے سے ہوں