پنجابی کا ایک محاورہ اس کالم میں آپ کو اُکتادینے کی حد تک دہراتا رہتا ہوں۔ یہ کامل خلفشار کے عالم میں سکون کی تلاش کے لئے ”ماسی“ ڈھونڈ رہا ہوتا ہے۔ تکرار تحریر کو بے لطف بنادیتی ہے۔یہ تسلیم کرنے کے باوجودفریاد کو مجبور ہوں کہ جاﺅں تو جاﺅں کہاں؟
کہنے کو ہمارے ہاں ریاست کو قواعد وضوابط کو لگام ڈالنے کے لئے ایک ”تحریری آئین“ موجود ہے۔اس نوعیت کے آئین کے ہوتے ہوئے ابہام کی گنجائش نکالنا کافی دشوار ہوتا ہے۔سیاست کی بدولت ابھرے قضیے مگر ابہام کی کیفیت اجاگر کرہی دیتے ہیں۔اس کے ازالے کے لئے بھی تاہم ہمارے آئین ہی نے ایک ادارہ قائم کررکھا ہے۔نام ہے اس کا سپریم کورٹ۔ معاملہ اس کے روبرو رکھا جائے تو ابہام ختم ہوجانا چاہیے۔
گزشتہ چند دنوں سے لیکن میرے اور آپ جیسے عام شہری کو ابہام سے نجات دلانے کے لئے قائم ہوا یہ ادارہ بھی الجھنیں بڑھارہا ہے۔طے نہیں ہوپارہا کہ پنجاب اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ دینے کو مجبور کرنے والا ”فیصلہ“ واقعتا آیا بھی تھا کہ نہیں۔یہ سوال اٹھانے کا باعث 27 صفحات پر مشتمل ایک اور ”فیصلہ“ ہے جو رواں ہفتے کے آ غاز میں برسرعام ہوا۔اسے غور سے پڑھیں تو چار عزت مآب ججوں نے نظر بظاہر سپریم کورٹ کو پنجاب اسمبلی کے انتخابات یقینی بنانے کے سوال سے لاتعلق رکھنے کی کوشش کی تھی۔ اگر یہ تاثر درست ہے تو سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ مبینہ ”اکثریتی“ فیصلے کے باوجود سپریم کورٹ کا ایک بنچ ان دنوں چیف جسٹس صاحب کی سربراہی میں 30اپریل والی تاریخ مو¿خر ہوجانے کے عمل پر سوالات کیوں اٹھارہا ہے۔
بدھ کی شام دو عزت مآب ججوں کی جانب سے لکھا ایک اور فیصلہ بھی منظر عام پر آگیا۔یہ فیصلہ ازخود نوٹس کے حوالے سے چیف جسٹس صاحب کو حتمی اختیار دینا مناسب تصور نہیں کرتا۔ مذکورہ عمل کو چند قواعد وضوابط کے تحت چلانا چاہ رہا ہے۔اس فیصلے کے منظر عام پر آنے سے قبل شہباز حکومت بھی انگڑائی لے کر بیدار ہوچکی تھی۔ نہایت عجلت میں اس نے قومی اسمبلی سے ایک قانون منظور کروایا۔ مذکورہ قانون”از خود نوٹس“ کے اختیار کو قواعد وضوابط کی لگام ڈالنے کا خواہاں ہے۔اس کی منظوری سے قبل وزیر اعظم اور وزیر خارجہ نے دھواں دھا ر تقاریر بھی فرمائیں۔ مسلم لیگ (نون) اور پیپلز پارٹی کے سربراہان نے اپنی تقاریر کے ذریعے ”ازخود نوٹس“ کی بدولت”فرعون“ ہوئے افراد کے لئے اقدامات کے خلاف اپنے دلوں میں جمع ہوئے غصے کا اظہار بھی کردیا۔ قضیہ اس کے باوجود ختم ہوتا نظر نہیں آرہا۔
سپریم کورٹ کے عزت مآب ججوں کے مابین تقریباََ روزانہ کی بنیاد پر نمودار ہوتے اختلافات ہمارے ذہنوں کو ماﺅف کرنے کو کافی تھے۔رعایا کو مگر مزید اضطراب میں مبتلا کرنے کے لئے حال ہی میں ریٹائر ہوئے جنرل باجوہ کے مبینہ انٹرویو کی تیسری قسط بھی ما رکیٹ میں آگئی ہے۔ ”مبینہ“ کا لفظ میں اس وجہ سے استعمال کرنے کو مجبور ہوا ہوں کیونکہ مذکورہ ”انٹرویو“ کی دوسری قسط آنے کے بعد باجوہ صاحب نے ہمارے دو معتبر ساتھیوں -منصور علی خان اور سلیم صافی- سے ٹیلی فون کے ذریعے گفتگو کی۔اس کے دوران مصر رہے کہ انہوں نے شاہد میتلا کو کوئی ”انٹرویو“ دیا ہی نہیں۔یہ تاثر بھی دیا کہ وہ ”جھوٹا انٹرویو“ منظر عام پر لانے والے کے خلاف قانونی کارروائی کرنا چاہیں گے۔
”قانونی کارروائی“ کی دھمکی مگر شاہد میتلا کو تیسری قسط منظر عام پر لانے سے روک نہ پائی۔یہ قسط گزشتہ دوقسطوں سے کہیں زیادہ سنسنی خیز ہے۔باجوہ صاحب نے اس کے ذریعے نواز شریف کے مرحوم والد کو بھی نہیں بخشا۔ ”حیف ہے اس قوم پر….“ کی دہائی مچانے والے ایک سابق جج کے دل میں مبینہ طورپر موجود عصبیت کی غیبت بھری ”وجہ “بھی اپنے تئیں ”عیاں“ کردی۔تین نہیں کامل چھ برس تک وطن عزیز کے طاقت ور ترین ادارے کے سربراہ ر ہے باجوہ صاحب کی رعونت آمیز گفتگو کے اسباب فطری ہیں۔ اپنی رعونت کو وہ سیاستدانوں کی تذلیل تک ہی محدود رکھتے تو شاید میں پریشان نہ ہوتا۔
ہماری ریاست کے طاقت ور ترین ادارے سے منسلک کئی تگڑے عہدوں پر براجمان افراد میری صحافت سے اکثر نالاں رہے۔مجھے کبھی ”آف دی ریکارڈ“ ملاقا توں کے اہل نہ سمجھا۔ مذکورہ ادارے نے جب ”پانچویں پشت کی ابلاغی جنگ“ کا آغاز کیا تو یہ جنگ لڑنے کے لئے ”صحافیوں“ کی سرپرستی بھی لازمی تصور کی۔مجھ بدنصیب کو لام بندی کے دوران بھرتی کے قابل ہی نہ سمجھا گیا۔ان کی جانب سے برتے تغافل کے باوجود افغانستان، لبنان،عراق اور شام کے معاملات کا عینی شاہد ہوتے ہوئے ہمیشہ مصر رہا ہوں کہ پاکستان میں استحکام برقرار رکھنے کے لئے عسکری اداروں کو ضرورت سے زیادہ زیر بحث نہیں لانا چاہیے۔ ان سے گلہ فقط اس وقت واجب ہے جب وہ قوم کو سیدھی راہ پر چلانے کے خود ساختہ ٹھیکے داربن جائیں۔ہمارے بہلاوے کو ”جمہوری کھیل“ کے سکرپٹ لکھیں اور اس کھیل کی ”ہدایت کاری“ بھی خود ہی سنبھال لیں۔
”یونٹی آف کمانڈ“ عسکری ادارے کی ساکھ،توقیر اور اثرپذیری کو مستحکم بنانے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔اپنے مبینہ ”انٹرویو“ کی چھپی اقساط کی بدولت با جوہ صاحب مگر اپنے مادرادارے کو بے توقیر کئے چلے جارہے ہیں۔تاثر پھیلارہے ہیں کہ ان کے ”ماتحت“ افسران بسااوقات ایسے معاملات میں ملوث رہے جو ”مادر ا دارے“ کے لئے شرمندگی اور نقصان کا باعث ہوئے۔باجوہ صاحب یہ سب کرتے ہوئے خود کو سادہ ،معصوم اور انسان دوست ثابت کرنے کے ہذیان میں مبتلا محسوس ہورہے ہیں۔
ان کا دعویٰ ہے کہ فیض حمید جیسے ”ماتحت“ اپنے تئیں کچھ افراد کو عتاب کا نشانہ بناتے رہے۔وہ اس ضمن میں اکثر بے خبر رہے۔چند ”زیادیتوں“ کا علم ہوجاتا تو ”ادارے کی توقیر“ انہیں شرمسار ہونے کو مجبور کردیتی۔باجوہ صاحب تک رسائی حاصل کرنے کی میں نے ان دنوں بھی کبھی کوشش نہیں کی جب وہ شہنشاہی اختیارات سے مالامال تھے۔ خلوتوں میں اپنے پسند کے صحافیوں سے گپ شپ انہیں علت کی طرح لاحق تھی۔ اب مگر اُن تک رسائی کا شدت سے متمنی ہوں۔ان سے اگر کسی صورت رابطہ ہوجائے تو ان کے روبرو فقط ایک سوال اٹھانے تک محدود رہوں گا۔وہ سوال یہ ہے کہ اگر بطور چیف وہ اتنے ہی ”بے بس“ اور ”بے اثر“ تھے تو اپنے عہدے کی معیاد ملازمت میں تین سال تک پھیلی توسیع کو سو حربے استعمال کرتے ہوئے یقینی کیوں بنایا۔ اپنی محدودات کو بخوبی جان لینے کے بعد ریٹائرہوکر گھر بیٹھ جاتے۔ بچوں سے کھیلتے اور اللہ اللہ کرتے۔
باجوہ صاحب کی اختیار کردہ سادگی درحقیقت غالب کی بیان کردہ ”پرکاری“ ہے۔ تغافل میں ”جرا¿ت آزما“ ہوتے ہوئے لیکن وہ اپنے مادر ادارے کو نقصان پہنچائے چلے جارہے ہیں۔ ان کی ہذیان بھری گفتگو ہمارے دائمی دشمنوں کے پھیلائے کئی الزامات درست ثابت کرنے کو ٹھوس مواد فراہم کررہی ہے۔خدارا ہمیں یہ تاثر نہ دیجئے کہ ”یونٹی آف کمانڈ“ باقی نہیں رہی۔ہوش کے ناخن لیں اور ہم پر رحم کریں۔ہمارے اذہان کو ماﺅف اور مستقل ہیجان میں گرفتار رکھنے کو تخت یا تختہ والی جنگ میں مصروف سیاستدان کافی ہیں۔اب تو سپریم کورٹ بھی معاملات کو مزید مبہم بنانا شروع ہوگیا ہے۔