فیچرز

مصنوعی ذہانت کی وجہ سے ’30 کروڑ نوکریاں ختم ہو سکتی ہیں‘

Share

سرمایہ کاری بینک گولڈمین ساکس کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مصنوعی ذہانت 30 کروڑ نوکریوں کی جگہ لے سکتی ہے۔

یہ امریکہ اور یورپ میں ایک چوتھائی نوکریوں کی جگہ لے سکتی ہے لیکن اس کا مطلب نئے مواقع اور پیداواری صلاحیت میں اضافہ بھی ہو سکتا ہے اور یہ عالمی سطح پر تیار ہونے والی اشیا اور خدمات میں سات فیصد اضافہ کر سکتا ہے۔

روزگار کے مواقع

برطانیہ میں حکومت مصنوعی ذہانت میں سرمایہ کاری کو فروغ دینے کی خواہاں ہے اور اس بارے میں حکومت کا کہنا ہے کہ ’یہ معیشت میں پیداواری صلاحیت کو بڑھائی گی‘ اور اس نے عوام کو اس کے اثرات کے بارے میں بھی یقین دہانی کی کوشش کی ہے۔

ٹیکنالوجی سیکرٹری مچل ڈونیلان نے اخبار ’دا سن‘ کو بتایا کہ ’ہم برطانیہ میں اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ مصنوعی ذہانت بھی بالکل ویسے کام کرے جیسے ہم کرتے ہیں اور اس کو خراب نہ کرے اور ہماری نوکریاں ختم کرنے کی بجائے یہ ہماری نوکریوں کو آسان کرے۔‘

بینک گولڈمین ساکس کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مصنوعی ذہانت کے اثرات مختلف شعبوں میں مختلف ہوں گے جیسا کہ انتظامی نوعیت کے امور میں 46 فیصد کام، قانونی پیشوں میں 44 فیصد کام خودکار ہو سکتے ہیں لیکن تعمیرات کے شعبے میں صرف چھ فیصدجبکہ دیکھ بھال (مینٹینینس) کے شعبے میں چار فیصد کام خود کار ہوں گے۔

بی بی سی نیوز نے اس سے قبل رپورٹ کیا تھا کہ کچھ آرٹسٹس کو مصنوعی ذہانت کے امیج جنریٹرز سے متعلق یہ تحفظات ہیں کہ یہ ان کے روزگار کے مواقعوں کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔

مصنوعی ذہانت

’تنخواہوں میں کمی‘

آکسفرڈ مارٹن سکول میں ورک ڈائریکٹر کارل بینیڈکٹ فری نے بی بی سی نیوز کو بتایا کہ ’صرف ایک چیز جس کا مجھے یقین ہے، وہ یہ کہ یہ جاننے کا کوئی طریقہ نہیں کہ جنریٹیو اے آئی کتنی ملازمتوں کی جگہ لے گی۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’مثال کے طور پر چیٹ جی پی ٹی نے کیا کیا، اس نے اوسط مہارت سے لکھنے والے زیادہ لوگوں کو بہتر انداز میں مضامین اور آرٹیکلز لکھنے کے قابل بنایا۔‘

’لہٰذا صحافیوں کو زیادہ مقابلے کا سامنا کرنا پڑے گا، جس سے اجرت میں کمی آئے گی، جب تک کہ ہم اس طرح کے کام کی مانگ میں بہت زیادہ اضافہ نہ دیکھیں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’اسی طرح جی پی ایس ٹیکنالوجی پر غور کریں۔ اچانک سے لندن کی تمام سڑکوں اور راستوں کو جاننے کی اہمیت میں کمی واقع ہوئی اور ہماری تحقیق کے مطابق موجودہ ڈرائیوروں کو تقریباً دس فیصد اجرت میں کٹوتی کا سامنا کرنا پڑا تاہم اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ڈرائیورز کم نہیں ہوئے مگر صرف تنخواہیں کم ہوئیں۔‘

’اگلے چند برسوں کے دوران جنریٹیو اے آئی کے تخلیقی کاموں پر وسیع پیمانے پر ایسے ہی اثرات مرتب ہوں گے۔‘

’چٹکی بھر نمک‘

رپورٹ میں پیش کی گئی تحقیق کے مطابق 60 فیصد افراد آج ایسی نوکریاں کر رہے ہیں جو 1940 میں موجود نہیں تھیں لیکن دیگر تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ 1980 کی دہائی کے بعد ٹیکنالوجی میں تبدیلی نے ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنے سے زیادہ تیزی سے لوگوں کو بے روزگار کیا۔

رپورٹ میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ اگر جنریٹیو اے آئی نے بھی ماضی کی انفارمیشن ٹیکنالوجی کی طرح ترقی کی تو یہ بہت جلد ملازمتوں کو کم کر سکتی ہے۔

مصنوعی ذہانت کے طویل المدت اثرات انتہائی غیر یقینی ہیں۔ رسیولوشن فاؤنڈیشن تھنک ٹینک کے چیف ایگزیکٹو ٹورسٹن بیل نے بی بی سی کو بتایا کہ ’مصنوعی ذہانت سے متعلق تمام پیش گوئیوں پر مکمل انحصار نہیں کرنا چاہیے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’ہمیں نہیں پتا کہ اس ٹیکنالوجی کا ارتقا کیسے ہو گا اور کیسے کمپنیاں اس کو اپنے نظام اور کام میں شامل کریں گی۔‘

’اس کا مطلب یہ نہیں کہ مصنوعی ذہانت ہمارے کام کرنے کے طریقے میں خلل نہیں ڈالے گی لیکن ہمیں اعلیٰ پیداواری صلاحیت اور کم اخراجات سے ممکنہ معیار زندگی کے فوائد پر بھی توجہ مرکوز کرنی چاہیے اور اگر دوسری کمپنیاں اور معیشتیں بھی ٹیکنالوجی کی تبدیلی کو بہتر طور پر اپنا لیتی ہیں تو نقصان یا ناکامی کے امکانات بہت کم ہو جائیں گے۔‘