گو شہ خاص

ڈان لیکس، توسیع کا شیش ناگ اور مریم کے آنسو

Share

اکتوبر2016ءکی اٹھائیس تاریخ تھی۔ زمستانی ہوائیں شہرِخوش جمال کا رُخ کر رہی تھیں۔ مجھے پیغام ملا کہ وزیراعظم یاد کررہے ہیں۔ وزیراعظم ہائوس پہنچ کر اپنی آمد کی اطلاع دی اور فواد کے کمرے میں جا بیٹھا۔ بلاوے کا انتظار تھا کہ وزیراعظم نوازشریف خود اُس کمرے میں آگئے۔ سلام دعا کے بعد فواد سے کہنے لگے، ’’فواد تم نے صدیقی صاحب کو بریف کردیا ہے؟‘‘ فواد بولا ، ’’بس سرسری سی بات ہوئی ہے سَر۔‘‘ وزیراعظم کا چہرہ خزاں رنگ ہورہا تھا۔کسی تمہید کے بغیر کہنے لگے ،’’آپ ڈان کی خبر سے تو آگاہ ہیں جسے ’ڈان لیکس‘ کے نام سے ایک بڑاا سکینڈل بنادیاگیا ہے۔ میں نے کافی باتیں آپ سے شیئر کی ہیں۔اب مجھے ایک نہایت ہی ناخوشگوار کام پر مجبور کیا جارہا ہے۔ اُن لوگوں کا اصرار ہے کہ پرویز رشید کو فارغ کردیاجائے۔‘‘ وزیراعظم کے چہرے کی پت جھڑ پر گہرے کرب کی سنولاہٹ غالب آگئی۔ بولے، ’’آپ جانتے ہیں کہ میں پرویز کی کتنی عزت کرتا ہوں۔پہلے اسی طرح کے کھیل تماشے میں مشاہد اللہ کو نکلوایا گیا۔ اب پرویز رشید کا خون مانگتے ہیں۔ میں اس صورت حال پر بہت پریشان ہوں۔ابھی ایک چھوٹی سی میٹنگ سے فارغ ہوکر آپ سے پھر ملتا ہوں۔ اس دوران فواد آپ کو بریف کرتا ہے۔‘‘

فواد کی بریفنگ میں اِس کے سوا چونکا دینے والی کوئی بات نہ تھی کہ پرویز رشید کو ٹارگٹ کیاجاچکا ہے۔ جلد ہی وزیراعظم آگئے۔ فواد نے اپنی رپورٹ دی۔ میاں صاحب کہنے لگے، ’’آپ کو اِس لئے بلایا ہے کہ بتائیں کیا کیا جائے؟‘‘ میں نے کہا . ’’پرائم منسٹر! بہت افسوس کی بات ہے کہ آپ سے پرویز رشید کی قربانی مانگی جارہی ہے۔ آپ اشارہ بھی کریں گے تو وہ استعفے میں لمحہ بھر کی دیر نہیں کرے گا لیکن یہ سلسلہ کہاں جا کے رُکے گا؟ تاہم اگر ضمانت دی جارہی ہے تو فساد رفع کرنے کے لئے آپ وقتی طور پر یہ کڑوا گھونٹ پی لیں۔‘‘ میاں صاحب کے لہجے کی شکستگی میں تلخی کی کڑواہٹ بھی گھُلنے لگی تھی۔ ’’لیکن صدیقی صاحب یہ کوئی حل تو نہیں نَا۔ ہم کب تک اِس طرح کے ناجائز اور بے تُکے مطالبات کے سامنے سرجھکاتے رہیں گے؟ میں کس طرح پرویز رشید جیسے شخص کو سامنے بٹھا کر کہوں کہ استعفیٰ دو؟ کیا وزیراطلاعات کا کام خبریں رکوانا ہے ؟ مجھے سو فیصد یقین ہے کہ پرویز رشید اِس معاملے میں ملوث نہیں۔ ملوث کیا ہونا، یہ سرے سے کوئی معاملہ ہی نہیں۔ اگر میں کسی کو ایکسٹینشن نہیں دے رہا تو کیا اِس کا مطلب یہ ہے کہ میرے قریبی ساتھیوں کے چہروں پر کالک تھوپ دی جائے؟ یہ پرویز رشید نہیں، میری توہین ہے۔ نوازشریف کی نہیں وزیراعظم کی توہین ہے۔‘‘ میرے پاس زخم خوردہ وزیراعظم کے لئے کوئی حرف تسلّی نہ تھا۔ کارگاہِ سیاست کا ایک اور حیا باختہ باب وا ہورہا تھا۔ پانامہ کا الائو بھڑکانے والوں کو منوں تیل میسر آگیا تھا۔

اگلے دِن، پرویز رشید کو پیغام ملا کہ وزیراعظم ایک فوری میٹنگ کے لئے بلا رہے ہیں۔ آتے ہی اُنہیں وزیراعظم کے کمرے میں پہنچا دیاگیا۔ اسحاق ڈار، چوہدری نثار علی خان اور فواد پہلے سے موجود تھے۔ شہباز صاحب کو بھی آنا تھا لیکن نہ آ پائے۔ بارہ چودہ منٹ گزر گئے لیکن خلافِ معمول وزیراعظم بھی نہ آئے۔ اچانک دروازہ کھُلا۔ مریم نواز چادر سی لپیٹے کمرے میں داخل ہوئی۔ اُس کی آنکھیں نَم آلود تھیں۔ روایتی احترام اور قرینے کے ساتھ سب کو سلام کیا۔ پرویز سے ملی اور کھڑے کھڑے بولی ،’’انکل مجھے اَبّو نے بھیجا ہے۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ میں آپ سے آنکھیں نہیں ملا سکتا۔‘‘ ٹشو سے آنسو پونچھتے ہوئے وہ ایک کرسی پہ بیٹھ گئی۔ بوجھل ماحول کا سکوت توڑتے ہوئے چوہدری نثار نے تمہیدی گفتگو کا آغاز کیا۔ چند جملے ہی بولے تھے کہ پرویز کہنے لگا ،’’چوہدری صاحب! تاریخ دہرانے کی ضرورت نہیں۔ صرف اتنا بتا دیں کہ میں نے استعفیٰ دینا ہے یا مجھے برطرف کیا جانا ہے؟‘‘ اِس پر سناٹا چھا گیا۔ پرویز، مریم سے مخاطب ہوا، ’’بیٹا ! ابّو کو جاکر بتادو۔ مجھے اُن کے جذبات کا اندازہ ہے۔ جو کچھ ہورہا ہے مجھے اُس کے اسباب کا بھی پتہ ہے اور کرداروں کا بھی۔ میرے استعفے سے میاں صاحب کی مشکلات کم ہوتی ہیں تو مجھے بہت خوشی ہوگی۔ وہ میرے حوالے سے ہرگز پریشان نہ ہوں۔ ‘‘ استعفیٰ یا برطرفی کے سوال کا کوئی جواب نہ آیا البتہ چوہدری صاحب نے کہا ،’’فی الحال ہم یہ خبر بریک کردیتے ہیں۔ کل میں پریس کانفرنس میں تفصیل بتادوں گا۔‘‘ پرویز رشید دفتر پہنچا۔ کاغذ قلم لے کر بیٹھا۔ وہ لفظوں سے زیادہ عمل پر یقین رکھتا ہے۔ سیدھے سادے دو تین جملے ہی تو لکھنا تھے۔ غیرشعوری طور پر اُس نے ٹی وی آن کیا۔ بریکنگ نیوز چنگھاڑ رہی تھی۔ ’’پرویز رشید کی برطرفی کا فیصلہ کرلیا گیا۔ شام کو وزیراعظم ہائوس سے باضابطہ بیان جاری ہو گا۔‘‘ پرویز رشید نے قلم وہیں چھوڑا۔ حسب عادت نائب قاصد سے مانگ کر ایک سگریٹ سلگایا۔کم وبیش اپنی عمر جتنا سال خوردہ چَرمی بیگ اٹھایا اور گھر چلاگیا۔ خُنک شام شہرِسفّاک پر اتر رہی تھی تو فرمان بھی جاری ہوگیا۔ ’’اب تک کے شواہد کی رُو سے اندازہ ہوتا ہے کہ وزیراطلاعات سے کوتاہی سرزد ہوئی ہے۔ لہذا اُنہیں اپنے عہدے سے سبکدوش ہونے کے لئے کہہ دیا گیا ہے۔‘‘

پرویز کا لہو پی کر بھی ’’ایکسٹینشن‘‘ کی بِین پر جھومتے شیش ناگ کو تسکین نہ ہوئی۔ اُس کی پھنکار پہلے سے بھی زیادہ خونخوار ہوگئی۔ بلاشبہ پرویز رشید ایک مشکل شکار تھا۔ نوازشریف نے صرف ’دفعِ شر‘ کے لئے اپنی زندگی کے تلخ ترین فیصلوں میں سے ایک فیصلہ کیا لیکن ’عمران پروجیکٹ‘ کے منصوبہ کاروں نے فاتحانہ تمکنت کے ساتھ قہقہہ لگاتے ہوئے ایک دوسرے کے ہاتھ پر ہاتھ مارا۔ عمران خان کو اشارا ہوا۔ اُس نے نتھیا گلی سے اعلان کیا کہ میں اسلام آباد کا محاصرہ کرنے آرہا ہوں۔ نومبر لپکا چلا آرہا تھا اور توسیع کی تمنا بے کل ہوئے جا رہی تھی۔ ’’ڈان لیکس‘‘ اور ’’پانامہ لیکس‘‘ گرم جوش سہیلیوں کی طرح بانہوں میں بانہیں ڈالے، توسیع کی بارگاہِ ناز میں جھومر ڈالنے لگیں۔ (جاری ہے)