ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حسب عادت صبح اُٹھتے ہی یہ کالم لکھنے کے بجائے میں ٹی وی اور لیپ ٹاپ کھول لیتا۔تمام تر اعتراضات کے باوجود -جن کے واجب یا غیر واجب ہونے کی بحث میں الجھنا نہیں چاہتا -عزت مآب چیف جسٹس صاحب تین رکنی بنچ کو برقرار رکھتے ہوئے پیر کے دن ایک اہم ترین معاملہ پر سماعت جاری رکھنے کو ڈٹے ہوئے ہیں۔مجھے چاہیے تھا کہ سماعت شروع ہونے کا انتظارکرتا اور وہاں جو موڈبنتا محسوس ہوتا اسے تبصرہ آرائی کے لئے استعمال کرتا۔ بعدازاں مگر خیال آیا کہ ’’پارٹی‘‘ تو ابھی شروع ہوئی ہے۔میرا کالم چھپنے سے کئی گھنٹے قبل ہی عوام جان چکے ہوں گے کہ سپریم کورٹ میں کیا ہوا تھا۔ جو بھی ہوگا اس کے بارے میں اندھی نفرت ومحبت میں تقسیم ہوئے لوگ اپنی رائے بھی بناچکے ہوں گے۔ خود کو عقل کل تصور کرنے کے زعم میں ’’ذہن سازی‘‘ کی علت مجھے ویسے بھی کبھی لاحق نہیں رہی۔
بہرحال حسب عادت اخبار میں چھپے کالم کو سوشل میڈیا پر پوسٹ کیا۔تازہ کالم لکھنے سے قبل ٹویٹر کی بدولت نمودار ہوئی خبروں پر سرسری نگاہ بھی ڈالی۔ٹویٹر کی بدولت پھیلی خبروں اور تصویروں سے تاثر یہ ملا کہ وکلا کا ایک پرجوش گروہ سپریم کورٹ پہنچنا چاہ رہا ہے۔نظر بظاہر سپریم کورٹ پہنچنے کے بے قرار افراد کا مقصد پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت کویقین دلانا تھا کہ ’’عوام‘‘ عدلیہ کی حفاظت کو ڈٹ چکے ہیں۔’’تیرا باپ بھی دے گا-آزادی‘‘ والے نعرے لگ رہے تھے۔ دعویٰ یہ بھی ہورہا تھا کہ اسلام آباد پولیس نے سپریم کورٹ تک جانے والے راستوں کو ’’سیل‘‘ کردیا ہے۔
فواد چودھری صاحب سے منسوب ایک بیان بھی نظر سے گزرا ۔ان کا دعویٰ تھا کہ اسلام آباد کو ’’غزہ‘‘ بنادیا گیا ہے۔ اسلام آباد پولیس گویا ان کی دانست میں ویسے ہی ہتھکنڈے اختیار کررہی تھی جن کے ذریعے صہیونی نسل پرست’’غزہ‘‘ کی پٹی میں محصور ہوئے عرب عوام کو غلام بنائے ہوئے ہیں۔’’تیرا باپ بھی دے گا-آز ادی‘‘ والے نعروں کا جواز غالباََ یہ ہی سوچ تھی۔ یہ سوچ اس رویے کا تسلسل ہے جو گزشتہ برس کے اپریل سے قائم ہوئی شہباز حکومت کو ’’امپورٹڈ حکومت‘‘ پکارے جارہا ہے۔اس حکومت کے قیام سے قبل عمران خان صاحب کو قومی اسمبلی میں پیش ہوئی تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹا یاگیا تھا۔سابق وزیر اعظم اور ان کے حامی اصرار کرتے رہے کہ مذکورہ تحریک واشنگٹن کے اشارے پر بروئے کار لائی گئی تھی۔مقصد اس کا وطن عزیز کو قومی حمیت کے نگہبان وزیر اعظم سے محروم کرنا تھا۔’’بیرونی سازش‘‘ عمران خان شاید اپنے تئیں ناکام بناسکتے تھے۔’’سازشیوں‘‘ کو لیکن ان کی دانست میں ہمارے ریاست کے دائمی اداروں سے ’’میر جعفروں‘‘ کی معاونت میسر ہوگئی۔ اس کے بعد حقیقی آزادی‘‘ کی جنگ لڑنا ہر پاکستانی پر گویا واجب ہوچکا ہے۔
عمر کے اس حصے میں پہنچ چکا ہوں جہاں ’’حقیقی آزادی‘‘ کے حصول کے لئے لڑتے لشکرمیں شامل ہونا تو دور کی بات ہے چند بنیادی اشیا کی خریداری کے لئے بھی گھر سے نکلنے کو جی مائل نہیں ہوتا۔ 2007تک مگر ’’آتش‘‘ کسی حد تک جوان تھا۔ان دنوں کے چیف جسٹس افتخار چودھری کو جنرل مشرف نے اپنے دفتر طلب کرنے کے بعد استعفیٰ دینے کو مجبور کیا۔ چودھری صاحب نے ’’انکار‘‘ کردیا۔مذکورہ ’’انکار‘‘ کے حوالے سے میں چودھری اعتراز احسن کے زمان پارک والے گھر میں ان کے ہمراہ بیٹھا مضطرب رہا۔ہماری ملاقات کے دوسرے دن چودھری صاحب اسلام آباد پہنچ گئے۔افتخار چودھری کے ’’ڈرائیور‘‘ بن کر پشاور سے کراچی تک کے ہر بڑے شہر جاتے ہوئے ’’عدلیہ آزادی‘‘ کی تحریک چلانا شروع ہوگئے۔ میرادل سادہ بھی اس تحریک سے بہت متاثر ہوا۔ جنرل مشرف جیسے آمر کی اقتدار پر کمزور ہوئی گرفت نے جی کو خوش کیا۔عقل کا غلام ہوا ذہن مگر اس سوال پر بھی غور کرتا رہا کہ ہم اس ’’انقلاب ‘‘کی جانب واقعتا بڑھ رہے ہیں یا نہیں جس کا میں برسوں سے منتظر رہا ہوں۔
شادمانی اور وسوسوں کے ملے جلے جذبات کیساتھ آج ٹی وی کے لئے ’’بولتا پاکستان‘‘ کے عنوان سے ایک شو بھی شروع کردیا۔ مشتاق منہاس میرا ’’کواینکر‘‘ تھا۔ اس کا ’’آتش‘‘مجھ سے کہیں زیادہ جوان تھا اور وہ افتخار چودھری صاحب کی عقیدت میں جذباتی حد تک مبتلا ہوچکا تھا۔اپنے پروگرام میں ہم لوگوں کی رائے جاننے کے لئے براہ راست ٹیلی فون کالز بھی لیتے تھے۔فیصل آباد سے پروگرام کے دوران ایک کال آئی۔ ہم سے مخاطب شخص نے جنرل مشرف کے خلاف آئین کے آرٹیکل6کے اطلاق کا مطالبہ کردیا۔
ٹی وی کے لئے لائیوپروگرام انتہائی ذمہ داری کا تقاضہ کرتا ہے۔ اس کے اینکر کو ہمیشہ یہ حقیقت مدنظر رکھنا ہوتی ہے کہ وہ ایک ’’ادارے‘‘ کے لئے شو کررہا ہے۔ٹی وی چینل کے قیام اور اسے کامیاب بنانے کے لئے بھاری بھر کم سرمایہ خرچ ہوتا ہے۔سینکڑوں ملازمین کا رزق اس ادارے کے وجود پرمنحصر ہوجاتا ہے۔خود کو ’’ہیرو‘‘ ثابت کرنے کی ہوس میں اینکر کے لئے احتیاط لہٰذالازمی ہے۔مذکورہ تقاضے کو ذہن میں رکھتے ہوئے میں نے فیصل آباد کے کالر کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی۔میری کاوش مگر مشرف کے دربار میں ’’رجسٹر‘‘ ہی نہ ہوئی۔’’دربار‘‘ نے میرے ماتھے پر ’’تخریب کار‘‘ کا ٹھپہ لگادیا۔
عدلیہ آزادی کی تحریک اور میرا شو البتہ چلتے رہے۔ بالآخر نومبر 2007 آگیا۔ جنرل مشرف نے ’’ایمرجنسی پلس‘‘ مسلط کردی۔ اس کی وجہ سے اپنے چند ساتھیوں سمیت میں ٹی وی سکرین سے ’’غائب‘‘ ہوگیا۔افتخار چودھری اور ان کے حمایتی جج گھروں میں نظر بند کردئیے گئے۔ اسلام آباد میں ان کی رہائشی کالونی تک جانے والے راستوں کو خاردار تاریں لگاکر سیل کردیا گیا۔
ٹی وی سے ’’غائب‘‘ ہوئے صحافیوں نے مگر ہمت نہیں ہاری۔ اسلام آباد ہی نہیں دیگر شہروں میں جاکر بھی پریس کلبوں اور بار کے دفاتر میں لوگوں کے روبرواپنے ’’شو‘‘ کرتے رہے۔ جنرل مشرف مگر عام انتخاب کی تاریخ طے کرچکے تھے۔سیاسی جماعتوں کی اکثریت انتخابی مہم میں مصروف ہوگئی۔ دریں اثناء 27دسمبر2007کا منحوس دن بھی آگیا جب ملک کی دوبار رہی وزیر اعظم کو راولپنڈی کے لیاقت باغ کے قریب قتل کردیا گیا۔ انتخابی مہم کی بدولت ’’عدلیہ آزادی‘‘ کی تحریک البتہ مانند ہونا شروع ہوگئی۔ نئے ٹی وی چینل بھی بڑی آن بان کے ساتھ متعارف ہوگئے۔بتدریج ٹی وی سکرینوں سے ’’غائب‘‘ ہوئے صحافیوں کی اکثریت کوبھی عوام بھولنا شروع ہوگئے۔ انہیں انگیج رکھنے کو کئی ’’نئے‘‘ اور’’حق گو‘‘ چہرے ٹی وی سکرینوں پر نمودار ہوگئے۔
ان دنوں اپنے گھر تک محدود ہونے کی وجہ سے آج کا کالم لکھنے سے قبل سوشل میڈیا پر ڈالی سرسری نگاہ نے مجھے غالبؔ کے ’’اندیشہ ہائے دور دراز‘‘ میں مبتلا کردیا ہے۔ محبوب کا ’’خم کا کل‘‘ ان اندیشوں کا باعث ہوا تھا۔وطن عزیز کے ’’کاکل‘‘ یا الجھنیں بھی کبھی سلجھتی نظر نہیں آتیں۔تاریخ خود کو دہرائے چلی جاتی ہے۔