پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات ملتوی ہونے کے خلاف پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی درخواست پر سپریم کورٹ نے محفوظ فیصلہ سنا دیا جس کے تحت عدالت عظمیٰ نے الیکشن کمیشن کا 22 مارچ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے 14 مئی کو پنجاب میں الیکشن کرانے کا حکم دے دیا۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکنی بینچ کی جانب سے گزشتہ روز سماعت مکمل ہونے کے بعد محفوظ کیا گیا فیصلہ سنایا گیا۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں الیکشن کمیشن کی جانب سے 8 اکتوبر کو انتخابات کرانے کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا اور پنجاب اسمبلی کے انتخابات کا شیڈول بحال کرتے ہوئے 14 مئی کو پنجاب میں انتخابات کی تاریح دے دی۔
سپریم کورٹ کے احکامات
- پہلے مرحلے میں پنجاب میں الیکشن کے لیے فنڈز فراہم کیے جائیں
- وفاقی حکومت 10 اپریل تک 21 ارب روپے جاری کرے
- امیدواروں کی حتمی فہرست 19 اپریل تک جاری کی جائے
- انتخابی نشانات 20 اپریل کو الاٹ کیے جائیں
- 14 مئی کو پنجاب اسمبلی کے الیکشن کروائے جائیں
- نگران حکومت، آئی جی اور چیف سیکریٹری پنجاب سیکیورٹی کی فراہمی یقینی بنائے
فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن 90 دن سے آگے نہیں جاسکتا، الیکشن کمیشن کے غیر قانونی فیصلے سے 13 دن ضائع ہوئے، آئین اور قانون الیکشن کمیشن کو تاریخ میں توسیع کی اجازت نہیں دیتا، الیکشن کمیشن نے انتخابات کی 8 اکتوبر کی تاریخ دے کر دائرہ اختیار سے تجاوز کیا۔
فیصلے میں کہا گیا کہ صدر مملکت کی دی گئی تاریخ کا فیصلہ بحال کیا جاتا ہے، 30 اپریل سے 15 مئی کے درمیان صوبائی انتخابات کرائے جائیں۔
سپریم کورٹ نے الیکشن پروگرام 13 دن آگے کرنے اور الیکشن کمیشن کو الیکشن ٹریبونلز سے دوبارہ کارروائی شروع کرنے کا حکم دے دیا۔
سپریم کورٹ نے محفوظ فیصلے میں نگران حکومتِ پنجاب اور وفاقی حکومت کو الیکشن کمیشن کی معاونت کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر الیکشن کمیشن کی معاونت نہیں کی جاتی تو الیکشن کمیشن ہمیں آگاہ کرے۔
فیصلے میں مزید ہدایت دی گئی ہے کہ ’الیکشن کے لیے درکار سیکیورٹی اور فنڈز فراہم کیے جائیں‘۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ’کاغزات نامزدگی 10 اپریل کو جمع کروائی جائے گی، حتمی لسٹ 19 اپریل تک جاری کی جائے گی، انتخابی نشانات 20 اپریل کو جاری کیے جائیں گے‘۔
سپریم کورٹ کی جانب سے جاری کردہ فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ ’30 اپریل سے 15 مئی کے درمیان صوبائی انتخابات کرائے جائیں، ریٹرننگ افسر کے فیصلے کے خلاف اپیلیں جمع کرانےکی آخری تاریخ 10 اپریل ہوگی، 17 اپریل کو الیکشن ٹریبونل اپیلوں پر فیصلہ کرے گا۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں وفاقی حکومت کو فنڈز کی مد میں 10 اپریل تک 21 ارب جاری کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ ’10 اپریل کو الیکشن کمیشن فنڈ کی وصولی کی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کروائے، فنڈز نہ جمع کروانے کی صورت میں عدالت مناسب حکم جاری کرے گی‘۔
واضح رہے کہ جسٹس امین الدین اور جسٹس جمال خان مندوخیل کے 5 رکنی بینچ سے علیحدہ ہونے کے بعد چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکنی بینچ نے گزشتہ روز دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
عدالت نے سیکریٹری دفاع حمود الزمان اور ایڈیشنل سیکریٹری خزانہ عامر محمود کو پنجاب میں انتخابات کے انعقاد میں حائل رکاوٹوں کے بارے میں رپورٹس پیش کرنے کی ہدایت کی ہدایت کی تھی۔
آج اہم فیصلہ سنائے جانے سے قبل وزارتِ دفاع نے سیکیورٹی اہلکاروں کی دستیابی سے متعلق سربمہر رپورٹ چیف جسٹس کو چیمبر میں پیش کی جہاں چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس منیب اختر، جسٹس اعجاز الاحسن نے رپورٹ کا جائزہ لیا۔
دریں اثنا کئی وکلا اور سیاسی رہنما کورٹ روم نمبر ایک کے اندر جمع ہوگئے تھے جہاں مذکورہ فیصلہ سنائے جانے کا امکان تھا، عدالت عظمیٰ کی عمارت کے باہر مرکزی دروازے پر پولیس کی بھاری نفری اور سیکیورٹی اہلکار بھی تعینات کیے گئے۔
سپریم کورٹ نے آج نظریہ ضرورت کو دفن کردیا، رہنما پی ٹی آئی
سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد پی ٹی آئی کے وکیل فیصل چوہدری نے بات کرتے ہوئے کہا کہ آج جسٹس منیر کے نظریہ ضرورت کے فیصلے کو دفن کر کے نئی تاریخ رقم کی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ججز نے نظریہ ضرورت کے بجائے آئین و قانون کے ساتھ کھڑا ہونا پسند کیا، ان کا فیصلہ تاریخ کے عظیم فیصلوں میں لکھا جائے گا، آج پاکستان کی عدلیہ خراجِ تحسین کی مستحق ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ میں پوری قوم کی جانب سے جج صاحبان کا شکریہ ادا کرتا ہوں کیوں کہ آپ آئین کے ساتھ کھڑے ہوئے۔
فیصل چوہدری نے مزید کہا کہ جس طرح آج مسلم لیگ (ن) اپنے وزرا کی قیادت میں سپریم کورٹ پر حملہ آور ہوئے اس کی بھرپور مذمت کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم تمام اداروں سے یہ توقع کرتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق الیکشن کمیشن کو فنڈ اور ووٹرز کو سیکیورٹی فراہم کی جائے۔
فیصل چوہدری نے مزید کہا کہ ہم ایمرجنسی نہیں مانتے صرف آئین و قانون کو مانتے ہیں یہی جمہوریت کی اساس ہے۔
ان کے علاوہ پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹرعلی ظفر نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ آج سپریم کورٹ نے پنجاب میں انتخابات کے حوالے سے بہت واضح، آئینی اور تاریخی فیصلہ سنا دیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ عدالت نے الیکشن کی تاریخ کو آگے بڑھا کر اکتوبر میں لے جانے کو غیر آئینی اور کالعدم قرار دے دیا ہے۔
بیرسٹر علی ظفر کے مطابق عدالت کہا ہے کہ نگراں حکومت، وفاقی حکومت سمیت تمام عہدیداروں پر ذمہ داری ہے کہ وہ اس انتخابات میں الیکشن کمیشن کی بھرپور مدد کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ عدالت نے واضح کردیا ہے کہ وہ 5 رکنی بینچ ہی تھا جس نے اکثریت سے الیکشن کا فیصلہ سنایا تھا جو قانونی اعتبار سے درست ہے، ساتھ ہی عدالت نے یہ بھی واضح کردیا ہے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلے کا اس بینچ کے فیصلے کے اوپر کوئی اثر نہیں ہوگا۔
اس موقع پر بات کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ آج عدالت نے نظریہ ضرورت کو دفن کردیا، آئین کے تقدس کوبحال کردیا، ان سازشی قوتوں جو اس ملک میں جمہوری اور آئینی نظام کی رہا میں رکاوٹ کھڑی کررہے تھے انہیں زندہ درگور کردیا۔
رہنما پی ٹی آئی نے کہا کہ اس معلوم ہوا کہ آج بھی ہمارے معاشرے میں ایسے لوگ موجود ہیں جو مرعوب نہیں ہوتے، دباؤ میں نہیں آتے،دھمکیوں سے خوفزدہ نہیں ہوتے بلکہ اپنے ضمیر، آئین و قانون کے مطابق فیصلے کرتے ہیں۔
سابق وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ آج ان لوگوں کو شکست ہوئی ہے جو جسٹس منیر اور نظریہ ضرورت کے پیروکار تھے، اس سے جمہوری اور غیر آئینی قوتوں میں فرق واضح ہوگیا ہے۔
انہوں نےکہا کہ میری سیاسی جماعتوں سے درخواست ہے کہ آیے ایسا ماحول پیدا کریں جس میں صاف شفاف انتخابات ممکن ہو سکیں ،ہماری لڑائی ذاتی نہیں ہے، آپ کو عدالت نے موقع فراہم کردیا ہے کہ آپ اپنی قیادت کے ہمراہ لوگوں کے سامنے جا کر اپنا نقطہ نظر رکھیں اور ہم اپنا رکھیں گے جس کے بعد فیصلہ عوام کا ہوگا۔
3 رکنی بینچ کے بارے میں ہمارا آج بھی وہی مؤقف ہے، رانا ثنا اللہ
فیصلہ سنائے جانے سے قبل سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے کہا کہ ہم توقع کرتے ہیں کہ آج عدالت عظمیٰ سے ایسا فیصلہ سامنے آئے گا جو ملک کو سیاسی بحران سے نکلالے گا اور معاملات کو بہتر انداز میں آگے بڑھائے گا۔
انہوں نے کہا کہ 3 رکنی بینچ کے بارے میں ہمارا آج بھی وہی مؤقف ہے لیکن ہم بہتری کی امید رکھتے ہیں کہ ذمہ دارانہ فیصلہ سامنے آئے گا۔
ان کہا کہنا تھا کہ عمران خان کی وجہ سے ملک سیاسی و معاشی عدم استحکام کا شکار ہوا، عدالتی بحران کی وجہ بھی عمران خان کی فتنہ اور فساد پر مبنی سیاست ہے۔
رانا ثنا اللہ نے کہا کہ پوری قوم اور بارز کا یہی مؤقف ہے کہ اس معاملے کا فیصلہ فل کورٹ کرے اور پورے ملک میں بیک وقت انتخابات ہونے چاہئیں۔
انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال ایک دانا اور متوازن شخصیت کے مالک ہیں، ان سے توقع ہے کہ پوری قوم کے منشا کے مطابق معاملات کو آگے بڑھائیں گے۔
سماعتوں کا احوال
خیال رہے کہ 27 مارچ کو ہونے والی پہلی سماعت کے اختتام پر عدالت نے وفاق، پنجاب اور خیبرپختونخوا حکومت اور الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کرتے ہوئے اگلے روز صبح ساڑھے 11 بجے تک جواب طلب کرکے سماعت ملتوی کردی تھی۔
سماعت کے بعد جاری ہونے والے تحریری حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابات ملتوی کرنے کا آرڈر چیلنج کیا، پی ٹی آئی کے مطابق الیکشن کمیشن کے پاس انتخابات ملتوی کرنے کا کوئی قانونی اور آئینی اختیار نہیں۔
تحریری حکم نامے میں مزید کہا گیا کہ ’بروقت عام انتخابات کا ایمانداری، منصفانہ اور قانون کے مطابق انعقاد جمہوریت کے لیے ضروری ہے، انتخابات میں تاخیر شہریوں کے بنیادی آئینی حقوق متاثر کرنے کے مترادف ہے‘۔
سپریم کورٹ نے حکم نامے میں کہا کہ ’تمام فریقین کو نوٹس جاری کردیے گئے ہیں، الیکشن کمیشن درخواست میں اٹھائے گئے اہم قانونی اور حقائق پر مبنی سوالات کا جواب دے‘۔
28 مارچ کو سپریم کورٹ میں ہونے والی دوسری سماعت میں چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے تھے کہ ’کارروائی کو لمبا نہیں کرنا چاہتے، سادہ سا سوال ہے کہ الیکشن کمیشن تاریخ آگے کر سکتا ہے یا نہیں، اگر الیکشن کمیشن کا اختیار ہوا تو بات ختم ہوجائے گی‘۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ’انتخابات آگے کون لے جا سکتا ہے، یہاں آئین خاموش ہے، کیا پارلیمنٹ کو آئین میں ترمیم نہیں کرنی چاہیے؟‘
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ ’پارلیمنٹ ترمیم کر لے تو یہ سب سے اچھا ہو گا، سوال یہ ہے کہ ترمیم ہونے تک جو انتخابات ہونے ہیں ان کا کیا ہوگا‘۔
دوران سماعت انتخابات کے انعقاد کے لیے فنڈز کی عدم دستیابی کا معاملہ زیر بحث آیا تو چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ’انتخابات کرانے کے لیے مجھ سمیت دیگر افراد کی تنخواہوں پر کٹ لگا دیا جائے تو انتخابات جیسا اہم ٹاسک پورا کیا جاسکتا ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’الیکشن کے لیے پورے بجٹ کی ضرورت ہی نہیں ہے، 20 ارب کا کٹ ہماری تنخواہوں پر بھی لگایا جاسکتا ہے، حکومت اخراجات کم کر کے 20 ارب نکال سکتی ہے‘۔
چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں مزید کہا تھا کہ ’فوج کی نقل و حرکت پر بھی اخراجات ہوتے ہیں، کیا یہ ایسا مسئلہ ہے جسے حل نہیں کیا جاسکتا، دہشت گردی کا مسئلہ 90 کی دہائی سے ہے، کیا نوے کی دہائی میں الیکشن نہیں ہوئے، کئی سیاسی لیڈرز کی جانیں قربان ہوئی، پیپلز پارٹی کی سربراہ کی شہادت بڑا سانحہ تھا، ان تمام حالات کے باوجود انتخابات ہوتے رہے ہیں، دوسری جنگ عظیم میں بھی انتخابات ہوئے تھے‘۔
29 مارچ کو سپریم کورٹ میں ہونے والی تیسری سماعت میں جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے تھے کہ 4 ججز نے پی ٹی آئی کی درخواستیں خارج کیں، ہمارے حساب سے فیصلہ 4 ججز کا ہے، چیف جسٹس نے آج تک آرڈر آف دی کورٹ جاری نہیں کیا، جب آرڈر آف دی کورٹ نہیں تھا تو صدر مملکت نے تاریخ کیسے دی اور الیکشن کمیشن نے شیڈول کیسے جاری کیا؟
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ ’قانون واضح ہے کہ اقلیتی فیصلے کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی، جسٹس منصور اور جسٹس جمال خان کا فیصلہ اقلیتی ہے، دونوں ججز کا احترام ہے مگر اقلیتی فیصلہ اکثریتی فیصلے پر غالب نہیں آسکتا‘۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ’دہشت گردی کا مسئلہ تو ہے، 20 سال سے ملک میں دہشت گردی کا مسئلہ ہے، اس کے باوجود ملک میں انتخابات ہوتے رہے ہیں، 90 کی دہائی میں 3 دفعہ الیکشن ہوئے، 90 کی دہائی میں فرقہ واریت اور دہشتگردی عروج پر تھی، 58 (2) (بی) کے ہوتے ہوئے ہر 3 سال بعد اسمبلی توڑ دی جاتی تھی‘۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن کو سپریم کورٹ سے رجوع کر کے قائل کرنا چاہیے تھا، آپ آج ہی عدالت کو قائل کرلیں، 8 اکتوبر کوئی جادوئی تاریخ ہے جو اس دن سب ٹھیک ہوجائے گا، 8 اکتوبر کی جگہ 8 ستمبر یا 8 اگست کیوں نہیں ہوسکتی؟
ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کے دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے کیس کی مزید سماعت 30 مارچ بروز جمعرات کی صبح ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کردی تھی جس کے دوران اٹارنی جنرل نے دلائل دینے تھے۔
سماعت کے اختتام پر سپریم کورٹ نے سیاسی درجہ حرارت کم کرنے کے لیے تحریک انصاف سے تحریری یقین دہانی مانگی تھی۔
تاہم 30 مارچ بروز جمعرات کو ہونے والی چوتھی سماعت میں جسٹس امین الدین نے کیس سننے سے معذرت کرلی تھی جس کے بعد 5 رکنی بینچ ٹوٹ گیا تھا۔
بعدازاں عدالتی عہدیدار نے اعلان کیا تھا کہ کیس کی سماعت 4 رکنی بینچ 31 مارچ (جمعہ کو) کرے گا۔
31 مارچ بروز جمعہ کو ہونے والی پانچویں سماعت کے دوران بینچ کے ایک اور جج جسٹس جمال خان مندوخیل نے بھی معذرت کرلی جس کے بعد چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکنی بینچ نے کیس کی کارروائی آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا تھا۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اٹارنی جنرل کی فل کورٹ بنانے کی درخواست فی الحال مسترد کرتے ہوئے ریمارکس دیے تھے کہ سماعت کے بعد کچھ ملاقاتیں کروں گا، توقع ہے کہ پیر (آج) کا سورج اچھی نوید لے کر طلوع ہوگا۔
گزشتہ روز 3 اپریل بروز پیر کو ہونے والی آخری سماعت کے آغاز پر فاروق ایچ نائیک روسٹرم پر آئے تو عدالت نے ان سے عدالتی کارروائی کے بائیکاٹ سے متعلق استفسار کیا۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے تھے کہ گزشتہ 48 گھنٹے سے میڈیا کہہ رہا ہے کہ اعلامیہ کے مطابق سیاسی جماعتیں بینچ پر عدم اعتماد کر رہی ہیں، ہم پر اعتماد نہیں ہے تو دلائل کیسے دے سکتے ہیں، اگر اعلامیہ واپس لیا ہے تو آپ کو سن لیتے ہیں۔
تاہم فاروق ایچ نائیک نے جواب دیا تھا کہ ’ہم کارروائی کا حصہ ہیں، ہم نے تو بائیکاٹ کیا ہی نہیں تھا، ہمیں درخواستوں کے قابل سماعت ہونے پر تحفظات ہیں‘۔
عدالت نے سیکرٹری دفاع حمود الزمان اور ایڈیشنل سیکریٹری خزانہ عامر محمود کو پنجاب میں انتخابات کے انعقاد میں حائل رکاوٹوں کے بارے میں عدالت کو قائل کرنے کی ہدایت جاری کرتے ہوئے کارروائی مکمل کی۔
سیکریٹری دفاع نے عدالت سے ان کیمرہ بریفنگ کی درخواست کی لیکن عدالت نے ان سے کہا کہ وہ سربمہر لفافوں میں رپورٹ فراہم کریں، جائزہ لے کر مواد اسی طرح واپس کر دیا جائے گا۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ایک بار پھر ججوں کی تنخواہوں میں کٹوتیوں کی پیشکش کی تاکہ انتخابات کے لیے درکار 20 ارب روپے اکھٹے کیے جاسکیں۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سید منصور علی شاہ جیسے سینیئر ججوں سے اپنی ملاقات کا بھی ذکر کیا جس میں عدلیہ کو درپیش مسائل کی نشاندہی کی گئی۔
چیف جسٹس نے یہ عندیہ بھی دیا کہ اس کیس کی فل کورٹ سماعت ممکن نہیں ہے، تاہم تمام ججوں کی فل کورٹ میٹنگ ممکن ہے جو سپریم کورٹ کے رولز میں ترامیم کے لیے جلد منعقد کی جا سکتی ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ایسے حالات بھی ہوسکتے ہیں جب انتخابات ملتوی ہوسکیں، وفاقی حکومت نے ایسا کوئی مواد نہیں دیا جس پر الیکشن ملتوی ہوسکیں، انتخابات کی راہ میں حائل رکاوٹوں سے بھی آگاہ نہیں کیا گیا، عدالت نے توازن قائم کرنا ہوتا ہے، حکومت اور دیگر فریقین کی درست معاونت نہیں ملی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت نے الیکشن کروانے کی آمادگی ہی نہیں ظاہر کی، ماضی میں عدالت اسمبلی کی تحلیل کالعدم قرار دے چکی ہے، ماضی میں حالات مختلف تھے، ملک میں کوئی سیاسی مذاکرات نہیں ہو رہے، رکاوٹوں سے آگاہ کرنے کی ذمہ داری وفاقی حکومت کی تھی۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے بتایا کہ وزارت دفاع اور وزارت خزانہ کی وجوہات بھی دیکھیں گے، ترقیاتی بجٹ کی کافی رقم خرچ ہو چکی ہے، آپ کو اس حوالے سے وضاحت دینا ہو گی، عوام کو مشکل میں نہیں ڈالنا چاہتے۔
چیف جسٹس نے مزید بتایا کہ الیکشن میں بدمزگی ہوئی تو ملبہ عدالت پر آئے گا، سیاسی مذاکرات کا آپشن اسی لیے دیا گیا تھا، آئین واضح ہے کہ الیکشن کب ہونے ہیں، مذاکرات کے آپشن کا کوئی جواب نہیں آیا، لوگ کہتے ہیں وہ آئین سے بالاتر ہیں، لوگ من پسند ججز سے فیصلہ کرانا چاہتے ہیں۔
بعد ازاں سپریم نے پنجاب اور خیبرپختونخوا انتخابات سے متعلق آئینی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا تھا، جو آج سنایا جائے گا۔
انتخابات التوا کیس کا پس منظر
واضح رہے کہ 23 مارچ کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 30 اپریل بروز اتوار کو شیڈول پنجاب اسمبلی کے عام انتخابات کو ملتوی کردیا تھا۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ پنجاب اسمبلی کے انتخابات 8 اکتوبر کو ہوں گے، آئین کے تحت حاصل اختیارات استعمال کرتے ہوئے انتخابی شیڈول واپس لیا گیا اور نیا شیڈول بعد میں جاری کیا جائے گا۔
بیان میں کہا گیا تھا کہ اس وقت فی پولنگ اسٹیشن اوسطاً صرف ایک سیکیورٹی اہلکار دستیاب ہے جبکہ پولیس اہلکاروں کی بڑے پیمانے پر کمی اور ’اسٹیٹک فورس‘ کے طور پر فوجی اہلکاروں کی عدم فراہمی کی وجہ سے الیکشن ملتوی کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
فیصلے کی تفصیل کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ اس صورت حال میں الیکشن کمیشن انتخابی مواد، پولنگ کے عملے، ووٹرز اور امیدواروں کی حفاظت یقینی بنانے کے لیے متبادل انتظامات کرنے سے قاصر ہے۔
مزید کہا گیا تھا کہ وزارت خزانہ نے ’ملک میں غیر معمولی معاشی بحران کی وجہ سے فنڈز جاری کرنے میں ناکامی‘ کا اظہار کیا ہے۔
الیکشن کمیشن نے نشان دہی کی تھی کہ الیکشن کمیشن کی کوششوں کے باوجود ایگزیکٹو اتھارٹیز، وفاقی اور صوبائی حکومتیں پنجاب میں آزادانہ، منصفانہ اور شفاف انتخابات کے انعقاد میں انتخابی ادارے کے ساتھ تعاون کرنے کے قابل نہیں تھیں۔
الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کے ردعمل میں 23 مارچ کو پی ٹی آئی نے پنجاب میں 30 اپریل کو ہونے والے انتخابات ملتوی کرنے کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا تھا۔
بعد ازاں 25 مارچ کو پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کی جانب سے پنجاب اسمبلی کے انتخابات ملتوی کرنے کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر دی تھی۔
خیال رہے کہ مارچ میں ہی الیکشن کمیشن نے 30 اپریل بروز اتوار پنجاب میں صوبائی اسمبلی کے عام انتخابات پر پولنگ کے لیے شیڈول جاری کر دیا تھا۔
3 مارچ کو صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے پنجاب اسمبلی کے عام انتخابات 30 اپریل بروز اتوار کرانے کی تجویز دی تھی۔
ایوان صدر کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ صدر مملکت نے تاریخ کا اعلان الیکشن کمیشن کی جانب سے تجویز کردہ تاریخوں پر غور کرنے کے بعد کیا۔
یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کے انتخابات 90 روز کی مقررہ مدت میں کرائے جائیں، تاہم عدالت عظمیٰ نے الیکشن کمیشن کو اجازت دی تھی کہ وہ پولنگ کی ایسی تاریخ تجویز کرے جو کہ کسی بھی عملی مشکل کی صورت میں 90 روز کی آخری تاریخ سے ’کم سے کم‘ تاخیر کا شکار ہو۔
سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ صدر مملکت اور گورنرز الیکشن کمیشن پاکستان کی مشاورت سے بالترتیب پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کی تاریخیں طے کریں گے۔
پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں بالترتیب 14 اور 18 جنوری کو تحلیل ہوئیں، قانون کے تحت اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد 90 روز کے اندر انتخابات کرانا ہوتے ہیں۔
اس طرح 14 اپریل اور 17 اپریل پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کے عام انتخابات کے انعقاد کی آخری تاریخ تھی لیکن دونوں گورنرز نے الیکشن کمیشن کی جانب سے پولنگ کی تاریخ مقرر کرنے کی تجویز ملنے کے بعد انتخابات کی تاریخیں طے کرنے کے بجائے الیکشن کمیشن کو اسٹیک ہولڈرز سے مشورے کا کہا تھا۔