دنیا کی نقل ہی کرلیں
کالم نگاروں کو اکثر یہ طعنہ دیا جاتا ہے کہ ہم مسائل کی نشاندہی تو کرتے ہیں مگر اُن کا حل نہیں بتاتے۔یہ طعنہ ایسا غلط بھی نہیں ہے ۔ٹھیک ہے کہ مسئلے کو جڑ سے پکڑنا بھی حل کی جانب پہلا قدم ہوتا ہےمگر پہلے قدم کے بعد دوسرا اور تیسرا قدم بھی اٹھانا ہوتا ہےجوہم نہیں اٹھاتے ۔مسئلہ چاہے کچھ بھی ہو، ہمارا پسندیدہ حل کچھ اِس قسم کا ہوتا ہے کہ ’سب کو چاہئے مل بیٹھ کر اِس کا حل نکالیں‘ یا پھر ’اگر ہر بندہ ٹھیک ہوجائے گا تو معاشرہ خود بہ خود ٹھیک ہوجائے گا۔‘اگر معاشرے یوں ٹھیک ہوجاتے تو نہ دنیا میں کسی پیغمبر کی ضرورت ہوتی اور نہ کسی نظام کی۔
یہاں تک لکھنے کے بعد مجھے احساس ہوا ہے کہ میں نے حل پیش کرنے والوں کا تمسخر تو اڑا لیا ہے مگر خود کوئی حل پیش نہیں کیا۔ چلئے کوشش کرتے ہیں۔میری رائے میں کچھ کام ایسے ہیں جنہیں اگر صرف بندہی کردیا جائے تونہ صرف اچھی خاصی بچت ہوگی بلکہ مسائل بھی قدرےکم ہوجائیں گے۔تعلیم کے شعبے کو لے لیں۔ اِس وقت ہمارے سر پر نئی یونیورسٹیاں کھولنے کا جنون سوار ہے، بھکر، لیہ،نارووال،سیالکوٹ، ڈی آئی خان اور نہ جانے کہاں کہاں یونیورسٹیاں بنائی جا رہی ہیں،اربوں روپے اِن یونیورسٹیوں پر خرچ کئےجا رہے ہیں ، کیوں؟ کیا یونیورسٹی محض چند ایکڑ جگہ مختص کرکے اُس پر عمارت کھڑی کرنے کا نام ہے ؟ کیا یہ جامعات فلسفہ، تاریخ اورنفسیات کےاساتذہ کے بغیر کام کریں گے ؟بھکر کی یونیورسٹی میں فلسفے کا ڈاکٹر تو دور کی بات شاید ایسا طالب علم بھی نہ ملے جو فلسفے میں داخلہ لینا چاہتا ہو،پھر وہاں یونیورسٹی بنانے کی کیا ضرورت؟ اسی طرح موجودہ کالجوں کویونیورسٹیوں کا درجہ دینے کا رجحان بھی خاصا بے تکا ہے ۔ نام ہی ملاحظہ فرمائیں ، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور،گونمنٹ کالج وومن یونیورسٹی سیالکوٹ ، لاہور کالج برائے خواتین یونیورسٹی ، سبحان اللہ۔یہ کام کرنے والے کوئی اور نہیں بلکہ خود نام نہاد ماہر تعلیم ہیں جنہوں نے محض اپنے عہدوں اور اختیارات کے لالچ میں یہ مضحکہ خیز کام کئے جن کا خرچہ اربوں روپے کی شکل میں عوام کو اٹھانا پڑ رہا ہے اور نتیجہ صفر ہے ۔کون سا ایسا کام ہے جو یہ یونیورسٹیاں بطور کالج نہیں کر سکتی تھیں؟اسی طرح ہم نے میڈیکل کالجوں میں تقریباً مفت ڈاکٹر بنانے کی فیکٹریاں لگائی ہوئی ہیں، یہاں سرکار کے خرچے پر بچے بچیاں ڈاکٹر بنتے ہیں، آدھی لڑکیاں شادی کرکے گھر بیٹھ جاتی ہیں اور آدھے لڑکے ڈاکٹر بن کے باہر چلے جاتے ہیں اور خزانے کو اربوں روپے کا ٹیکہ لگ جاتا ہے ، کیوں یہ سلسلہ بند نہیں ہوسکتا ؟برطانیہ میں ڈاکٹر بننے پر تقریباً چھ کروڑ روپے کا خرچہ آتا ہے ، ہمارے سرکاری کالجوں میں یہ خرچہ چند لاکھ بھی نہیں ہے جبکہ برطانیہ اور ہماری آمدنی میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔غریب طلبا کے لئےبے شک تعلیم مفت کردیں مگر کروڑوں روپے کی فیس میں امیروں کورعایت دینا بند کریں۔
حج ایک ایسی عبادت ہے جو صرف صاحبِ استطاعت پر فرض ہے ، پوری امت مسلمہ میں اِس بات پر کوئی اختلاف نہیں ۔قران کی آیت اِس بارے میں بالکل واضح ہے :’’اور اللہ کے لئے لوگوں پر اس گھر کا حج فرض ہے جو بھی اس تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو، اور جو (اس کا) منکر ہو تو بے شک اللہ سب جہانوں سے بے نیاز ہے۔‘‘(آلِ عمران ، آیت 97)۔گزشتہ برس حکومت نے حج پر سبسڈی دی، کیوں ؟ کیا حکومت کا کام لوگوں کو حج کروانا ہے ؟یہ کام تو صاحبِ استطاعت مسلمان نے اپنی اپنی جیب سےخودکرنا ہے ۔ اِس سال جب کہ پاکستان کنگال ہونے کے قریب ہے ،حکومت کا حج پر تقریباً 300 ملین ڈالر کازر مبادلہ خرچ ہوگا جس میں سے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو کم از کم 90 ملین ڈالر ادا کرنے ہوں گے، یہ رقم اِس سے زیادہ بھی ہوسکتی ہے۔کیا آج کل کے حالات میں ہم یہ رقم خرچ کرنے کے متحمل ہوسکتے ہیں ؟ حل تو یہی ہے کہ یہ خرچ بند کیا جائےاورایک سے زائد حج اور عمرے کرنے پر پابندی لگائی جائے۔ اسی طرح پی ایس ایل کروانے کی کوئی ضرورت نہیں تھی، اُس ٹورنامنٹ پر لاکھوں ڈالر خرچ ہوئے ، اگر وہ کرکٹ کے مقابلے نہ بھی ہوتے تو کوئی قیامت نہیں آجانی تھی، ہم فی الحال ایسی عیاشیوں کے متحمل نہیں ہوسکتے۔حل یہی تھا کہ مقابلے منسوخ کردیے جاتے۔اب اگلی بات سنیے۔آج سے چند ماہ پہلے تک ریاست پاکستان آٹھ سو امیر ترین خاندانوں کو ایک ارب ڈالر کی سبسڈی دے رہی تھی ، یہ سبسڈی اِن خاندانوں کی فیکٹریوں کو بجلی اور گیس کے نرخوں میں رعایت کرکے دی جا رہی تھی ، کئی برس سے جاری یہ سبسڈی اب بتدریج ختم کی گئی ہے ،شکر ہے ۔یہ تمام ایسے کام ہیں جنہیں صرف بند کرنے سے ہی ہمیں اربوں روپے کی بچت ہوسکتی ہے۔ بہت سی وزارتیں اور محکمے ہیں جو وفاق اور صوبوں دونوں میں کام کر رہے ہیں ، تعلیم، صحت، خوراک اور نہ جانے کیا الم غلم،ہر حکومت کواِن زائد وزارتوں کو ختم کرنے کی رپورٹ پیش کی جاتی ہے ، مگر آج تک یہ وزارتیں اور محکمے ختم نہیں ہوئے۔ہماری آبادی 23 کروڑ کے قریب ہے ، اگر ہمارے ملک سے تیل اور سونا بھی نکل آئے تو ہم اپنی آبادی کی ضروریات پوری نہیں کرسکتے، ہماری آنکھوں کے سامنے لوگ ایک آٹے کے تھیلے کے لئے اپنی جان سے ہاتھ دھو رہے ہیں ، کیا بڑھتی ہوئی آبادی کا حل دو سے زائد بچے پیدا کرنے پر پابندی لگانا نہیں ؟
ایک امریکی دانشور کا قول ہے:’’ہر پیچیدہ مسئلے کا ایک حل ہوتا ہے جو نہایت واضح، سادہ اوراکثر و بیشتر غلط ہوتا ہے۔‘‘یہ بات کافی حد تک درست ہے ، بظاہر جو بات سادہ لگتی ہے وہ اتنی سادہ نہیں ہوتی جس سادگی سے ہم لکھاری اسے بیان کرتے ہیں مگر وہ ایسی گمبھیر بھی نہیں ہوتی کہ اُس کا حل نہ تلاش کیا جا سکے۔ بے شک ہمارے مسائل گمبھیر اور پیچیدہ ہیں مگر انوکھے نہیں ہیں، دنیا کے کئی ممالک اِن مسائل کا حل نکال کر آگے بڑھ چکے ہیں ، ہم صرف دنیا کی نقل کرکے یہ کام کرسکتے ہیں مگر اِس کے لئے سیاسی ارادے کی ضرورت ہے، انگریزی میں بولے تو ’پولیٹکل وِل‘ چاہئے، المیہ یہ ہے کہ جس کے پاس یہ طاقت ہے اُس کے پاس اہلیت نہیں اور جس کے پاس اہلیت ہے اُس کے پاس طاقت نہیں۔ اب اِس کا کیا حل ہے ?؟