میں سگریٹ نوشی سے عاجز آ چکا ہوں اور خود کو تسلی دینے کے لئے اس حوالے سے سگریٹ نوشوں نے جو لطیفے گھڑے ہوئے ہیں وہ اپنے ہمدردوں کو سنا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہوں کہ سگریٹ ایک بے ضرر سی چیز ہے ۔اس حوالے سے میں اپنے مرحوم بھائی جان ضیاالحق قاسمی کا وہ واقعہ نما لطیفہ ضرور سناتا ہوں جس کے مطابق بھائی جان کو جب دل کا دورہ پڑا اور وہ اسپتال میں داخل تھے، ڈاکٹروں نے انہیں سختی سے کہا کہ اگر انہوں نے سگریٹ نہ چھوڑے تو ان کی زندگی کی ضمانت نہیں دی جا سکے گی۔مگر ایک روز جب انہیں سگریٹ کی بہت زیادہ طلب ہوئی تو وہ آئی سی یو سے باہر نکلے اور لفٹ خراب ہونے کی وجہ سے تین منزل نیچے سیڑھیوں سے اتر کر سگریٹ کی تلاش میں نکلے اور کافی دور جاکر ان کی نظر ایک پان سگریٹ کی دکان پر پڑی۔اس سے تین سگریٹ خریدے اور بڑے سکون سے ان کے لمبے لمبے کش لگانے کے بعد واپس سیڑھیاں چڑھ کر آئی سی یو میں پہنچے اور بیڈ پر لیٹ گئے ۔اتنی دیر میں ڈاکٹر آیا تو کچھ بتائے بغیر گھبراہٹ کے عالم میں ڈاکٹر نے کہا کہ ان کا بی پی چیک کریں۔ڈاکٹر نے بی پی چیک کرنے کے بعد کہا، ’’ضیاء صاحب آج آپ کی حالت بہت بہتر ہے پرہیز اسی طرح جاری رکھیں ‘‘۔اب میں یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ ’’ظرافت‘‘ کے ایڈیٹر اور لاجواب فکاہیہ شاعر اور قہقہوں سے بھری ثقافت کے حامل ضیاءالحق قاسمی نے یہاں بھی ظرافت کی پھلجھڑیاں چھوڑی ہوں گی کہ بڑے بھائی کے حوالے سے چھوٹا بھائی یہ جسارت کیسے کر سکتا ہے ؟تاہم حقیقت یہی ہے کہ سگریٹ کے اثرات بھگت رہا ہوں مگر میں تو کئی دفعہ اس لعنت سے چھٹکارا پانے کی کوشش کر چکا ،تین چار دفعہ میں نے سارا اسٹاک سامنے رکھ کر اس پر پٹرول پھینکا اور پھر تیلی جلا کر اس پر پھینک دی اور اسے خس وخاشاک میں تبدیل کر دیا مگر اگلے ہی دن بہادر سے پوچھا تھا یار کوئی ایک آدھ سگریٹ ہے؟۔
ایک بار میں نے سوچا کہ اس شعبے کے ممتاز طبیب ڈاکٹر صداقت علی سے مشورہ بلکہ علاج کرائوں۔ مجھے میرے بیٹے نے ان کے پاس جانے کے لئے کہا تھا چنانچہ میں اس مہربان شخصیت کے پاس گیا اور وہاں جاکر حیران رہ گیا کہ ایک بڑی عمارت میں ان کا سیٹ اپ تھا وہاں نشے کے عادی مریض بھی مختلف کمروں میں رکھے گئے تھے۔ میرا خیال تھا کہ نشے کی بازیابی نہ ہونے کی صورت میں ان کی چیخ وپکار سنائی دیتی ہو گی مگر وہاں سناٹا ہی سناٹا تھا۔ میں نے سوچا ان کا پروپر علاج ہوتا ہوگا ان کو عقل آ گئی ہو گی اور یا پھر (از راہ تفنن) ان کے کمرے سائونڈ پروف ہوں گے۔ڈاکٹر صاحب بڑی محبت سے ملے میں نے انہیں کونسلنگ کےلئے نہیں کہا کہ اس موضوع پر میں خود کسی عادی سگریٹ نوش کی کونسلنگ کر سکتا ہوں اور یہاں داخل ہونے کا نہ انہوں نے کہا نہ میرا ایسا کوئی ارادہ تھا بس کافی دیر تک بہت اچھی گپ شپ کی اور چائے پی کر خیر سے بدھو گھر کو لوٹے ۔میں نے اس موذی سگریٹ نوشی سے جان چھڑانے کے لئے کیا کیا جتن کئے یہ داستان بھی ہے، ان میں سے ایک جتن یہ بھی تھا کہ جن دوستوں کی سگریٹ نوشی کی ’’کفالت‘‘ ایک عرصے سے میرے ذمے تھی میں نے کوشش کی کہ اب وہ میری ’’کفالت‘‘ شروع کریں چنانچہ میں نے ان سے سگریٹ مانگ کر پینے شروع کئے یہ سلسلہ صرف چند روز چل سکا ان میں سے ایک دوست جو پیکٹ میں صرف ایک سگریٹ اور باقی مختلف جیبوں میں رکھتا تھا وہ پیکٹ میں سے ایک سگریٹ نکال کر خالی پیکٹ پھینک دیتا تھا اور یوں تاثر دیتا تھا کہ سگریٹ کے حوالےسے اب وہ کنگال ہو گیا ہے ۔ایک اور دوست اس سے بھی ’’دانا‘‘ تھا وہ ایک سگریٹ نکال کر باقی پورا پیکٹ پھینک کر یہ تاثر دیتا تھا کہ اب اس کےپاس کچھ نہیں رہا اور جاتی دفعہ ادھر ادھر دیکھ کر وہ ’’خالی ‘‘ پیکٹ اٹھا کر دوبارہ جیب میں رکھ لیتا تھا مگر بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی ۔ پول تو ایک دن کھلنا ہی ہوتا ہے سو ان دونوں کی اسٹرٹیجی کا سب کو پتہ چل گیا اور اس کےبعد ان دونوں کو ’’گیدڑ کٹ‘‘ لگائی گئی۔ ’’گیدڑ کٹ‘‘ کے دوران ’’ملزم‘‘ پر کمبل ڈال دیا جاتا ہے اور پھر سب باری باری اس پر’’ طبع آزمائی ‘‘کرتے ہیں اور چونکہ وہ ضرب لگانے والوں کو دیکھ نہیں سکتا چنانچہ اس موقع پر پرانی دشمنیاں بھی نکالی جاتی ہیں۔
اب اس صورتحال کو حکومت نے مزید ’’سنگین‘‘ بنا دیا ہے متذکرہ صورتحال کے بعد سے مجبوراً اپنی جیب سے خریدتے ہوئے سگریٹ پینا پڑ رہے تھے۔اب حکومت نے سگریٹ کا جو پیکٹ تین سو میں ملتا تھا اس کی قیمت پانچ سو کر دی ہے اب ہم جیسے مسکین لوگ جو سگریٹ چھوڑنا چاہتے ہیں اور اس حوالے سے بارہا ’’پرخلوص‘‘ کوششیں بھی کر چکے ہیں ، مگر اب تو مرے کو مارے شاہ مدار والی کیفیت پیدا ہو گئی ہے اور اس کے باوجود میں سگریٹ کی مہنگائی سے خوش ہوں بلکہ حکومت سے مطالبہ کروں گا کہ وہ چار گنا زیادہ مہنگے کرے تاکہ میری کوششیں عملی صورت اختیار کر سکیں۔ بس اس حوالے سے شرط یہ ہے کہ پیسہ حکومت کے پاس جائے لٹیرے، بلیک میلرزاور ذخیرہ اندوزوں کی جیب میں نہیں میں اس کالم کا اختتام کرنے ہی کو تھا کہ ایک خوفناک قسم کا سگریٹ نوش میرے پاس آیا اور پوچھا ’’کیا لکھ رہے ہو؟‘‘ میں نے بتایا تو بولا ’’تمہیں پتہ ہے کہ ماسکو میں فیض صاحب کی وفات کا کیا سبب تھا؟ میں نے کہا نہیں، جس پر اس بقراط نے کہا، اس لئے کہ روسی ڈاکٹروں نے فیض صاحب کے سگریٹ اور وسکی دونوں پر پابندی عائد کر دی تھی جو ان کے جسم کی کیمسٹری میں شامل تھے بس اس کے بعد ان کی وفات کا افسوسناک واقعہ پیش آیا۔ ‘‘
اس من مانی توجیہہ پر صرف ہت تیری کی ہی کہا جا سکتا ہے !