Site icon DUNYA PAKISTAN

پاکستان کی ’خونی‘ ہائی وے: کراچی سے واپسی پر بیٹی کا رشتہ طے ہونا تھا لیکن اُس کی جلی ہوئی لاش واپس گھر پہنچی‘

Share

’میری اکلوتی بیٹی پورے خاندان کی لاڈلی تھی۔ کراچی سے واپسی پر اُس کے رشتے کی بات طے ہونی تھی لیکن وہ زندہ واپس نہیں لوٹ سکی بلکہ اس کی جلی ہوئی میت واپس گھر آئی۔‘

یہ کہنا ہے بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے حاجی شریف اللہ کا جن کے خاندان کے چار افراد رواں برس 29 جنوری کو ضلع لسبیلہ میں کوئٹہ، کراچی ہائے وے پر مسافر کوچ کو پیش آنے والے حادثے میں ہلاک ہوئے تھے۔ اس حادثے میں مجموعی طور پر 43 افراد ہلاک ہوئے جن میں سے بیشتر کی لاشیں جھلس جانے کے باعث ناقابل شناخت تھیں۔

اگرچہ ہلاکتوں کے لحاظ سے یہ حادثہ بلوچستان کی تاریخ کے بڑے ٹریفک حادثات میں سے تھا لیکن اس شاہراہ پر ٹریفک حادثات ایک معمول بن گئے ہیں۔ اس بات کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ گذشتہ لگ بھگ ساڑھے تین سال کے دوران بلوچستان میں واقع پانچ ہائی ویز پر ٹریفک حادثات میں جو 787 افراد ہلاک ہوئے ان میں سے 477 افراد اسی ہائی وے پر مارے گئے۔

اس نوعیت کے حادثات اور اس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر ہونے والی ہلاکتوں کی وجہ سے کوئٹہ، کراچی ہائی وے کو اب ’خونی شاہراہ‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔

’کراچی جانے کے باعث بیٹی کے رشتے کی بات کو مؤخر کیا‘

،تصویر کا کیپشنحاجی شریف اس حادثے میں ہلاک ہونے والے اپنے بیٹے کی تصویر دکھا رہے ہیں

29 جنوری کو مسافر بس کو پیش آنے والے حادثے میں حاجی شریف کی اہلیہ، بیٹی اور دو بیٹے ہلاک ہوئے تھے۔

حاجی شریف کے گھر پر ہماری ملاقات اُن کے اُن دو بچوں سے بھی ہوئی جو اس حادثے میں معجزانہ طور پر بچ گئے تھے۔

اپنی بیٹی کے بارے میں بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’میری اکلوتی بیٹی پورے خاندان کو سب سے زیادہ عزیز تھی۔ وہ پہلی مرتبہ بہن بھائیوں کے ہمراہ کراچی جا رہی تھی۔ کراچی جانے سے چند دن پہلے بیٹی کے رشتے کے لیے لوگ آئے تھے تو میں نے اُن کو کہا تھا کہ وہ اپنی والدہ کے ساتھ کراچی جا رہی ہیں، وہاں سے واپسی پر رشتے کے بارے میں بات کریں گے۔۔۔ لیکن اب تو وہ دنیا میں ہی نہیں رہی۔‘

اس شاہراہ پر حادثے کا شکار ہونے والے خاندانوں میں ایک خاندان کوئٹہ سے ہی تعلق رکھنے والے ہاکی کے سابق کھلاڑی سید امیتاز شاہ کا بھی ہے۔

ہم فقیرمحمد روڈ پر واقع امتیاز شاہ کے گھر گئے جو گذشتہ سال اکتوبر میں تین دیگرسیینئر کھلاڑیوں کے ہمراہ قلات کے علاقے میں کوئٹہ، کراچی ہائی وے پر ایک حادثے کے نتیجے میں زندگی کی بازی ہار گئے تھے۔

حادثے میں مارے جانے والے تین دیگر سابق کھلاڑیوں میں مجاہد اسلام بٹ،عبدالرحیم درانی اور میرعلی کرد بھی شامل تھے۔

بلوچستان ہاکی ایسوسی ایشن کے سینیئر عہدیدار سید امین نے بتایا کہ یہ چاروں کھلاڑی ہمارے اثاثہ تھے جو وزیر اعظم کے ٹیلنٹ ہنٹ پروگرام کے سلسلے میں ہاکی کے کھلاڑیوں کا ٹرائل لینے خضدار گئے تھے۔

انھوں نے بتایا کہ واپس آتے ہوئے ان کی گاڑی کو ایک مسافر کوچ نے ٹکر ماری تھی جس کے نتیجے میں وہ چاروں افراد موقع پر ہی ہلاک ہو گئے۔

’میں اپنے بیٹے اور گھر کے سربراہ کی ناگہانی موت پر کیسے نہیں رؤں‘

،تصویر کا کیپشنامتیاز شاہ کی والدہ آج بھی اپنے بیٹے کے موت کے غم کو نہیں بھلا پائی ہیں

امتیاز شاہ کے گھر ہماری ملاقات اُن کی ضعیف العمر والدہ اور دو بیٹیوں سے ہوئی جو چھ ماہ گزرنے کے بعد بھی اس ناگہانی موت کاغم بھلا نہیں پائی ہیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے امتیاز شاہ کی والدہ نے کہا کہ ’میرے رشتہ دار مجھے رونے سے منع کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میں نہ رؤں۔بھلا میں کیسے نہ رؤں، وہ میرا بڑا بیٹا، گھر کا سربراہ اور سہارا تھا۔‘

انھوں نے کہا کہ جس مسافر کوچ نے ان کے بیٹوں سمیت دیگر افراد کو کچلا تھا اس کا ’ظالم ڈرائیور‘فرار ہو گیا تھا۔ ’جس روز میرا بیٹا جا رہا تھا اس روز میں اس کو رخصت بھی نہیں کر پائی۔ اگر مجھے معلوم ہوتا کہ وہ ہمیشہ کے لیے بچھڑ جائے گا تو میں اُس کو چھومتی اور اچھے طریقے سےرخصت کرتی۔ معلوم نہیں میرے بیٹے نے حادثے کے وقت اللہ بولا ہو گا،امی کو پکارا ہو گا اور معلوم نہیں کیا بولا ہو گا۔۔۔‘

بلوچستان میں کوئٹہ، کراچی ہائی وے پر حادثات اور ہلاکتوں کی شرح سب سے زیادہ

،تصویر کا کیپشنکوئٹہ کراچی ہائی پر حادثات اور ان میں ہلاکتوں کی شرح زیادہ ہونے سے اب بلوچستان میں اس سڑک کا غیر رسمی طور پر نام ’خونی شاہراہ‘ پڑ گیا ہے

وسیع و عریض رقبے پرمشتمل بلوچستان میں پانچ ایسی شاہراہیں جن کو ہائی وے کا درجہ حاصل ہے۔

کوئٹہ میں میڈیکل ایمرجنسی ریسپانس سینٹر 1122کے اعداد و شمار کے مطابق پانچ ہائی ویز پر اکتوبر 2019 سے لے کر مارچ 2023 تک پیش آنے والے 28646 چھوٹے بڑے حادثات میں سے 18096 حادثات کوئٹہ، کراچی ہائی وے پر پیش آئے جن میں مجموعی طور پر 787 افراد ہلاک ہوئے جبکہ زخمی ہونے والوں کی تعداد 38759 تھی۔

کوئٹہ کراچی ہائی پر حادثات اور ان میں ہلاکتوں کی شرح زیادہ ہونے سے اب بلوچستان میں اس سڑک کا غیر رسمی طور پر نام ’خونی شاہراہ‘ پڑ گیا ہے۔

حادثات کی وجوہات جاننے کے لیے کوئٹہ، کراچی ہائی وے پر سفر

سنہ 1980 کی دہائی تک کوئٹہ، کراچی ہائی وے کی حالت خراب تھی جس کے باعث اس شاہراہ پر سفر کرنے والی گاڑیوں کی رفتار عموماً کم ہوتی تھی لیکن نوے کی دہائی کے وسط سے اس شاہراہ کی دوبارہ تعمیر کا سلسلہ شروع کیا گیا۔

کوئٹہ سے کراچی تک کا فاصلہ 750 کلومیٹر ہے اور دونوں بڑے شہروں کے درمیان یہ شاہراہ سنگل ٹریک ہے۔

سب سے پہلے ہم نے کراچی سے ضلع لسبیلہ میں بس کو پیش آنے والے حادثے کی جگہ تک اندازاً 200 کلومیٹر سفر کیا جس کے دوران ہمیں شاہراہ پر گاڑیوں کی بڑی تعداد نظر آئی۔

نہ صرف اس شاہراہ پر مسافر گاڑیوں کی ایک بہت بڑی تعداد چلتی ہے بلکہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی بڑی گاڑیاں بھی یہاں سے گزرتی ہیں جبکہ موٹر سائیکلیں، ٹریکٹر ٹرالیاں اور گدھا گاڑیاں اس کے علاوہ ہیں۔

کوئٹہ کراچی ہائی وے پر مسافر کوچز کے حادثات نہ صرف زیادہ ہیں بلکہ ان میں دوسری گاڑیوں کے حادثات کے مقابلے میں انسانی جانوں کا ضیاع سب سے زیادہ ہونے کے ساتھ ساتھ زخمیوں کی شرح بھی سب سے زیادہ ہوتی ہے۔

چونکہ مسافر کوچز کے حادثات کی صورت میں سب زیادہ نقصان مسافروں کا ہوتا ہے اس لیے اس مقصد کے لیے کوئٹہ کے قریب ضلع مستونگ کے علاقے لک پاس سے کراچی کی جانب ہم نے ایک مسافر کوچ میں سفر کیا تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے مسافر کوچز میں سفر کرنے والے مسافر ان حادثات کی وجہ کیا سمجھتے ہیں؟

مسافروں نے کیا کہا؟

بس میں سفر کے دوران ہم نے کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے مسافر صلاح الدین سے بات کی جو کہ کوئٹہ اور کراچی کے درمیان زیادہ سفر کرتے ہیں اور وہ یہ سفر زیادہ تر مسافر کوچز میں ہی کرتے ہیں۔

صلاح الدین نے حادثات کی سب سے بڑی وجہ اس شاہرہ کے سنگل ٹریک ہونے کو قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس پر ٹریفک زیادہ ہے جس کی وجہ سے یہ حادثات پیش آ رہے ہیں، دوسری جانب انھوں نے مسافر بسوں کے ڈرائیوروں کی تیز رفتاری کے ساتھ ساتھ اُن کی غفلت کو بھی ایک وجہ قرار دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ بعض اوقات ڈرائیور سفرکے دوران موبائل فون کا بھی استعمال کرتے ہیں جو کہ کسی طرح بھی مناسب نہیں۔

شریف اللہ کے دو بچوں کے بچ جانے کا معجزہ اور مسافر کوچز پر تیز رفتاری کا الزام

ہم ضلع خضدار سے متصل ضلع لسبیلہ کے علاقے میں اس مقام پر گئے جہاں 29 جنوری کو مسافر کوچ پل سے ٹکرانے کے بعد نیچے گر گئی تھی۔

تیز رفتاری سے کئی فٹ نیچے گرنے اور پھر اس میں آگ بھڑک اٹھنے کے بعد مسافر کوچ کی جو حالت بن گئی تھی اس کو دیکھ کر یہ بالکل یقین نہیں آتا تھا کہ اس میں کوئی شخص بچا بھی ہو گا لیکن اس میں شریف اللہ کے دو بچوں سمیت پانچ افراد زندہ بچ گئے تھے۔

معجزانہ طور پر بچ جانے والے دونوں بچے حیات اللہ اور وحیداللہ شریف اللہ کے بیٹے ہیں جن میں حیات اللہ کی عمر دو سال جبکہ وحیداللہ کی عمر 11 سال ہے۔

وحید اللہ نے اپنے والد کی موجودگی میں ہمیں بتایا کہ اپنی موت سے قبل اُن کی والدہ نے شیر خوار بھائی حیات اللہ کو کوچ کی ٹوٹی ہوئی کھڑکی سے باہر دھکیلا تھا۔

ان کے مطابق ‘جب حادثہ ہوا تو ایک لمحے کے لیے میرے دماغ نے کام کرنا چھوڑ دیا اور ایسا لگ رہا تھا کہ میں مر گیا ہوں ۔ مجھے بس میں سے ایک چھوٹا سا سوراخ نظر آیا جہاں سے میں باہر نکلنے میں کامیاب ہوا۔‘

’میں جب باہر نکلا تو میں نے ڈرائیور سمیت دو تین افراد کے علاوہ اپنے چھوٹے بھائی حیات اللہ کو بس سے باہر پڑا ہوا دیکھا۔ میرا بھائی رو رہا تھاجسے میں نے اٹھا کر روڈ کی جانب جانے لگا تاکہ گاڑیوں کو روک کر لوگوں کو مدد کے لیے کوچ کے پاس لا سکوں کیونکہ کھائی میں گرنے سے یہ روڈ سے کسی کو نظر نہیں آتی۔‘

’میں اور میرا چھوٹا بھائی تو بچ گئے لیکن رات کے تین بجے کے قریب گھپ اندھیرے میں وہاں ایک خوفناک منظر تھا۔ میں نے دیکھا کہ وہاں کتے بھی آئے اور ہم پر حملہ کیا، بھائی کو میں نے کمر پر اٹھایا تھا تو ایک کتے نے اس کے ٹانگ کو پکڑ لیا جسے میں نے مشکل سے چھڑا لیا اور بمشکل روڈ پر پہنچ گیا۔‘

وحیداللہ نے دعویٰ کیا کہ ’بس کا ڈرائیور تیز رفتاری کر رہا تھا جس پر میری والدہ نے مجھے بتایا کہ جا کر ڈرائیور کو کہوں کہ وہ بس کی رفتار کو کم کریں۔ میں نے اس کے پاس جا کر بات بھی کی مگر انھوں نے بس کی رفتار میں کمی نہیں کی۔‘

اس کے علاوہ اس بس میں سفر کرنے والے منگیچر کے علاقے سے تعلق رکھنے والے ایک لڑکے کا آڈیو پیغام بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوا تھا جو انھوں نے ہلاکت سے قبل اپنے بڑے بھائی کو بھیجا تھا۔

انھوں نے بھی اس پیغام میں مسافر کوچ کی تیز رفتاری کی بات کی تھی اور یہ دعا کی تھی اللہ سب کو اپنی امان میں رکھے۔

حکام کے مطابق کوئٹہ، کراچی ہائی وے پر مسافر کوچزکے رفتار کی حد نوے کلومیٹر فی گھنٹہ جبکہ چھوٹی گاڑیوں کی حد رفتار 100 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے۔

اسی شاہراہ پر بنائی گئی ایک ویڈیو بھی حالیہ دنوں میں سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس میں ایک مسافر کوچ کے پیچھے 140 کلو میٹر فی گھنٹہ کی سپیڈ سے چلنے والی کار بھی مسافر کوچ کو کراس نہیں کر پا رہی تھی۔

اس سفر کے دوران ہم نے مسافر کوچ کے ڈرائیور محمد کریم سے بات کی جن کے مطابق اس سڑک پر حادثات کی بڑی وجہ شاہراہ کا سنگل ٹریک ہونا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ اس سڑک پر ٹریفک بہت زیادہ ہے جبکہ یہ سنگل ٹریک روڈ ہے جس کی وجہ سے یہ حادثات پیش آتے رہتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’تیز رفتاری بھی ایک وجہ ہوسکتی ہے لیکن میرے نزدیک اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ بہت بڑی تعداد میں ٹریفک کے مقابلے میں یہ شاہراہ سنگل ٹریک ہے۔‘

کیا مسافر کوچز میں ایک ہی ڈرائیور کا ہونا بھی مسئلہ ہے؟

،تصویر کا کیپشنزیادہ تر افراد کا دعویٰ ہے کہ یہاں چلنے والے پبلک ٹرانسپورٹ کے ڈرائیور تیز رفتاری کا مظاہرہ کرتے ہیں

ایک عمومی رائے یہ بھی ہے کہ مسافر کوچز کے مالکان کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ پیسے کی بچت کے لیے اتنی بڑی روٹ کے لیے ایک ہی ڈرائیور ہو۔

اس حوالے سے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بسا اوقات ایک ہی ڈرائیور کو جب آرام کے لیے مناسب وقت نہیں ملتا تو وہ تھکاوٹ کا شکار ہو جاتا ہے جس کے نتیجے میں وہ گاڑیوں کو اپنے کم تربیت یافتہ معاونین کو دیتے ہیں جس کے نتیجے میں حادثات پیش آتے ہیں۔

ڈی آئی جی موٹروے پولیس طاہرعلائوالدین کاسی نے بتایا کہ چمن سے آنے والی ایک مسافر کوچ کو روکا گیا تو اسے ایک ایسا معاون چلا رہا تھا جس کے پاس ابھی تک گاڑی چلانے کا لائسنس تک نہیں تھا۔

انھوں نے بتایا کہ اس پر باقاعدہ مقدمہ درج کیا گیا جو کہ اپنی نوعیت کا پہلا مقدمہ ہے۔

تاہم ڈرائیورمحمد کریم نے اس بات سے اتفاق نہیں کیا کہ لمبی روٹ پر چلنے والی مسافر کوچز کا ایک ہی ڈرائیور ہوتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ وہ جس بس کو چلا رہے ہیں اس کے دو ڈرائیور ہیں اور ڈرائیوروں کو آرام کا مناسب موقع ملتا ہے۔

گاڑیوں میں حادثات کے بعد آگ بھڑک اٹھنے کی وجوہات کیا ہیں؟

مسافر کوچز سمیت دیگر گاڑیوں میں بسا اوقات حادثے کے بعد آگ بھڑک اٹھتی ہے جس کے نتیجے میں نقصان بہت زیادہ ہوتا ہے۔

اس حوالے سے ایک رائے یہ بھی ہے کہ چونکہ بلوچستان میں مختلف گاڑیوں کے ذریعے ایرانی تیل سمگل کیا جاتا ہے جن میں حادثے کی صورت میں آگ بھڑک اٹھتی ہے۔

چند سال قبل مکران سے کراچی جانے والے ایک مسافر کوچ میں سمگلنگ کا تیل ہونے کے باعث آگ بھڑک اٹھی تھی جس کی وجہ سے بس میں سوار مسافر جل کر ہلاک ہوئے تھے۔

تاہم ڈرائیور محمد کریم نے اس بات سے اتفاق نہیں کیا اور ان کا یہ کہنا تھا کہ حادثے کے باعث گاڑیوں میں کرنٹ کی تاروں کی وجہ سے آگ بھڑک اٹھتی ہے۔

مسافر کوچز کے مالکان بھی اس الزام کو مسترد کرتے رہے ہیں۔

موٹروے پولیس میں قلات میں سیکٹر تھری کے سیکٹر کمانڈر ایس پی محمد یاسر دوتانی طویل عرصے سے اسی ہائی وے پر فرائض سرانجام دے رہے ہیں جنھوں نے حادثات کی سب سے بنیادی وجہ غیر تربیت یافتہ ڈرائیوروں کو قراردیا۔

’ایسے ڈرائیور جن کی ہائی ویز پر گاڑی چلانے کی تربیت نہیں ہوتی وہ جب ہائی ویز پر گاڑی چلاتے ہیں تو وہ کسی نہ کسی وجہ سے حادثے کا شکار ہوتے ہیں۔‘

دیگر اقدامات کے علاوہ کنٹرول روم کا قیام

ٹریکرز کے ذریعے مسافر کوچز کی رفتار کو مانیٹر کرنے کے علاوہ شاہراہ پرموبائل کیمرے بھی نصب کیے جاتے ہیں۔ ڈی آئی جی موٹر ویز طاہرعلاؤ الدین کاسی نے بتایا کہ ایک کنٹرول روم کے ذریعے مسافر کوچز کی رفتار کو مانیٹر کیا جاتا ہے۔

انھوں نے دعویٰ کیا کہ جب سے کوئٹہ، کراچی ہائی وے پر مسافر بسوں میں ٹریکرز لگائے گئے ہیں تو اس کے باعث حادثات میں کمی آئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہماری یہ کوشش ہے کہ اسے کوئٹہ سے ژوب کے راستے اسلام آباد تک ٹریکرز لگائے جائیں اور ان کو نو ایکسیڈنٹ زون بنایا جائے۔‘

انہوں نے کہا کہ اس مقصد کے لیے حکومت کو تجاویز بھیج دی گئی ہیں ۔

موٹر وے پولیس کے کنٹرول روم میں ہمیں ایک ایسی ڈیوائس دکھائی گئی جو کہ کان کے ساتھ لگائی جاتی ہے جو مفت تقسیم کی جا رہی ہے۔

طاہرعلاؤ الدین کے مطابق اس ڈیوائس میں ایسا نظام ہے کہ اونگھنے کی صورت میں جیسے ہی سر نیچے ہوتا ہے جو ڈیوائس میں آلارم بج اٹھتا ہے۔

حادثات کے بارے میں نیشنل ہائی ویز اتھارٹی کا مؤقف کیا ہے؟

بلوچستان میں زیادہ تر لوگوں کی یہ رائے ہے کہ سنگل ٹریک ہونا ہی اس شاہراہ پر حادثات کی بڑی وجہ ہے اور اسے ڈبل ٹریک نہ کرنے پر وفاقی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

ایک قومی شاہراہ ہونے کے ناطے کوئٹہ کراچی ہائی وے کا انتظام نیشنل ہائی ویز اتھارٹی کے پاس ہے۔

اس سلسلےمیں ہم کوئٹہ میں این ایچ اے کے حکام کے پاس گئے تو انھوں نے حادثات کی بڑی وجہ قوانین پر عملدرآمد نہ ہونے کو قرار دیا۔

جنرل مینیجر نیشنل ہائی ویز نارتھ آغا عنایت اللہ کا کہنا تھا کہ بسوں میں ٹریکر لگانے اور قوانین پر عملدرآمد سے ان حادثات پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ 400 ارب روپے کی لاگت سے اس شاہراہ کو ڈبل ٹریک کرنے کے منصوبے کا آغاز ہو گیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ایک ٹریکر کی قیمت دس ہزار سے ایک لاکھ روپے تک ہو سکتی ہے حس کے لگانے سے مسافر بسوں کو تیز رفتاری سے روکا جا سکتا ہے لیکن یہ معمولی خرچہ کرنے کی بجائے مالی مشکلات سے دوچار ملک کے چار سو ارب روپے خرچ کرائے جا رہے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ آپ اس شاہراہ کو ڈبل ٹریک کریں اور اگر اس پر قوانین پرعملدرآمد کو یقینی نہیں بنایا گیا تو ڈبل ٹریک ہونے کے باوجود حادثات کو صرف دس فیصد کم کیا جا سکتا ہے اور یہ پھر بھی مکمل طور پر ختم نہیں ہو سکیں گے۔

ڈپٹی سیکریٹری محکمہ ٹرانسپورٹ منورحسین کا کہنا ہے کہ حادثات کی روک تھام کے لیے بلوچستان حکومت کی جانب سےمؤثر اقدامات کیے جا رہے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ تمام مسافر کوچز میں ٹریکرز کو یقینی بنایا جا رہا ہے اور گاڑیوں کی رفتار کو کنٹرول کرنے کے لیے موٹروے پولیس اور دیگر متعلقہ اداروں سے کوآرڈینیشن کو مزید بڑھایا جا رہا ہے۔

منورحسین نے بتایا کہ رواں سال ہی ڈرائیوروں کی تربیت کا آغاز کیا جائے گا اور اس مقصد کے لیے ڈرائیورز اکیڈمی آپ کو ایک سے ڈیڑھ مہینے میں فعال ملے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ اس بات کوبھی یقینی بنایا جارہا ہے کسی بھی مسافر کوچ میں تیل کی اسمگلنگ نہ اور ایسا کرنے والوں کے خلاف سخت کاروائی کی جائے گی۔

Exit mobile version