Site icon DUNYA PAKISTAN

’پہلا رمضان ہے کہ ہم ایک مرتبہ بھی پھل نہیں خرید پائے، شوہر کہتے ہیں اگر پھل لیا تو دو وقت کی روٹی نہیں کھا سکیں گے‘

Share

’یہ رحمتوں کا مہینہ ہے اور دنیا بھر کے مسلمان اس بات کو سمجھتے ہوئے ایک دوسرے کے لیے آسانیاں پیدا کرتے ہیں لیکن پاکستان میں یہ بات کوئی نہیں سمجھتا۔ یہاں رمضان شروع ہونے سے پہلے ہی ہر چیز اتنی مہنگی کر دی جاتی ہے کہ وہ آپ کی پہنچ سے دور ہو جاتی ہے۔‘

لاہور کی رہائشی عصمہ کہتی ہیں کہ ’یہ پہلا رمضان ہے کہ ہم ابھی تک ایک مرتبہ بھی پھل نہیں خرید پائے۔ بچوں نے کہا کہ ہم نے پھل کھانا ہے لیکن پھر ان کے پاپا نے کہا کہ بیٹا اگر ہم پھل لیں گے تو پھر دو وقت کی روٹی نہیں کھا سکیں گے۔‘

’اس لیے اب بچے بھی خاموش ہو گئے ہیں کیونکہ جس راستے پر جا ہی نہیں سکتے تو اس طرف دیکھیں بھی کیوں؟ ہم سفید پوش لوگ ہیں۔ میری تین جوان بیٹیاں ہیں جو پڑھتی ہیں۔ میں پہلے خواتین کی جیولری بنانے کا کام گھر بیٹھے ہی کر لیتی تھِی لیکن اب وہ کام آنا بھی بند ہو گیا کیونکہ جس سے کام مانگو وہ کہتا ہے مہنگائی کی وجہ سے انھوں نے کام کرنا چھوڑ دیا۔‘

’اب صرف میرے شوہر ہی کمانے والے ہیں۔ مہینے کے 24 ہزار روپے ہمارے گھر میں آتے ہیں، جس میں سے ہم 13 ہزار مکان کا کرایہ دیتے ہیں اور باقی چار سے پانچ ہزار بجلی کا بل نکل جاتا ہے۔ باقی جو پانچ سے چھ ہزار روپے بچتے ہیں اسی میں ہم مہینے کا کھانا پینا، بیماری، بچوں کی فیس اور باقی خرچے پورے کرتے ہیں۔‘

ماہ رمضان کے بارے میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہر چیز اتنی مہنگی ہو گئی ہے کہ پچھلے سال اگر کبھی چند دن بعد ہم ایک آدھی اضافی چیز کھا لیتے تھے تو افطار میں اس سال وہ بھی بند ہو گئی۔

عصمہ کے شوہر محمد عباس کے مطابق ’تین بچوں اور ہم میاں بیوی کو ملا کر گھر میں کُل پانچ افراد ہیں۔ ہمارے پاس افطاری اور سحری کے لیے فی کس صرف پچاس سے ساٹھ روپے ہوتے ہیں۔ اب ہم ایک دن میں بس ایک وقت ہی کھانا بناتے ہیں اور اس کھانے کو دو، دن چلاتے ہیں۔‘

محمد عباس نے اپنے معاشی حالات کو بیان کرتے ہوئے بتایا کہ عام دنوں میں پہلے ہی اُن کے حالات کافی مشکل تھے مگر ماہ رمضان میں ان کی معاشی مشکلات میں مزید اضافہ ہوا ہے۔

،تصویر کا کیپشنمحمد عباس نے بتایا کہ عام دنوں کے بجائے ماہ رمضان معاشی طور پر ان کے لیے زیادہ مشکل ہے

یوں تو پاکستان کی معاشی صورتحال اور روز بروز بڑھتی مہنگائی کی وجہ سے ہر طبقے کے لوگ متاثر ہو رہے تھے مگر ماہ رمضان کے آغاز اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی مہنگائی کی نئی لہر نے عام پاکستانیوں کی شکایات میں اضافہ کیا ہے۔

ایک شکوہ جو ہر طرف سے سننے کو مل رہا ہے وہ یہ کہ اس سال کا افطار ٹیبل خصوصی طور پر متوسط اور غریب طبقے کے لیے ماضی کی نسبت خاصا تبدیل ہوا ہے۔

جہاں پہلے متوسط طبقہ افطار کی میز پر کھانے کی تین سے چار اشیا رکھ لیتا تھا اب وہ صرف دو ہی رکھ پاتے ہیں جبکہ درجنوں ایسے خاندان ہیں جن کے لیے دو وقت کی روٹی کھانا بھی مشکل ہو رہا ہے۔

محمد عباس اور ان کے خاندان کے حالات بھی کچھ مختلف نہیں ہیں۔

وہ آٹا چکی پر کام کرتے ہیں اور روزانہ آٹھ سے نو گھنٹے مزدوری کرنے کے بعد یومیہ 800 روپے ہی کما پاتے ہیں، جو مہینے کے 24 ہزار روپے بنتے ہیں اور یہ پیسے موجودہ حالات میں ان کے خاندان کے لیے ناکافی ہوتے ہیں۔

محمد عباس کی اہلیہ عصمہ کا کہنا ہے کہ اُن میں اتنی معاشی سکت نہیں کہ وہ کھانے پینے کی بنیادی اشیا ہی کافی مقدار میں خرید سکیں۔

’فروٹ چاٹ 1000 روپے میں بنتی تھی اب 2600 روپے میں بنتی ہے‘

،تصویر کا کیپشنحجاب حمزہ نے بھی عصمہ سے ملتے جلتے مسائل کی نشاندہی کی

عصمہ اور ان کے خاندان کی کم آمدن کی وجہ سے ان کے لیے مشکالات زیادہ ہیں لیکن متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی حجاب حمزہ نے بھی بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے عصمہ سے ملتے جلتے مسائل کی ہی نشاندہی کی۔

حجاب کے شوہر ایک نجی کمپنی میں سلیز اینڈ مارکیٹنگ مینجر ہیں لیکن ان کے لیے بھی اس مہنگائی میں اخراجات پورے کرنا مشکل ہوتا ہے۔

’میرے شوہر اچھا کماتے ہیں لیکن پھر بھی اگر اس سال کے رمضان کا پچھلے سال کے رمضان سے موازنہ کروں تو اس سال کا افطار ٹیبل ہی نہیں بلکہ ہر چیز ہی تبدیل ہوئی۔ ہر چیز کی قیمت پہلے سے تین گنا زیادہ مہنگی ہو گئی ہے۔‘

’میرے خیال میں اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ لوگوں کی تنخواہوں میں اضافہ نہیں ہوا جبکہ مہنگائی آسمان کو پہنچ رہی ہے۔ روزمرہ کے استعمال کی چیزوں کے علاوہ کھانے پینے کی اشیا کو ہی دیکھ لیں۔ پھل، سبزی اور ہر قسم کا گوشت سب ہی انتہائی مہنگا ہے۔‘

حجاب نے بتایا کہ ’مجھے پہلے کافی شوق ہوتا تھا کہ رمضان میں مختلف قسم کی چکن کی ڈشز بناؤں لیکن اب ہڈی کے بغیر چکن 900 روپے کلو ہو گیا ہے تو آپ خود سوچیں کون ہمت کرے کا۔ فروٹ چاٹ جو افطار کی ضروری چیز سمجھی جاتی تھی وہ بھی نہیں بنا سکتے۔ جو فروٹ چاٹ پہلے 1000 روپے میں بنتی تھی وہی اب 2600 روپے میں بنتی ہے۔‘

انھوں نے سوال کیا کہ ’اس صورتحال میں پیسے والے لوگ بھی گھبرائے ہوئے ہیں کہ ہمارے ملکی اور معاشی حالات کس طرف جا رہے ہیں اور آنے والے دنوں میں ہمارا کیا ہو گا۔‘

،تصویر کا کیپشنحجاب کے شوہر نجی کمپنی میں سلیز اینڈ مارکیٹنگ مینجر ہیں لیکن ان کے لیے بھی اس مہنگائی میں اخراجات پورے کرنا مشکل ہوتا ہے

بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ کیا؟

بڑھتی ہوئی مہنگائی اور ملک کے معاشی حالات پر بات کرتے ہوئے ماہر معیشت ڈاکٹر قیس اسلم کا کہنا ہے کہ رمضان میں کھانے پینے کی اشیا کی قیمتیں زیادہ ہونے کی سب سے بڑی وجہ لوگوں کا چیزوں کو ذخیرہ کرنا ہے۔

انھوں نے کہا کہ اس میں حکومت کی ناقص کارکردگی بھی شامل ہے۔ ’سب سے پہلے تو ماہ رمضان سے پہلے ہی سب جانتے تھے کہ پاکستان بدتریب سیلاب سے گزرا ہے۔ جس کی وجہ سے کھیت، فصلیں اور باغات تباہ ہوئے۔ یہی نہیں بلکہ لوگوں کا لائیو سٹاک بھی پانی میں بہہ گیا۔‘

’حکومت جانتی تھی کہ آنے والے دنوں میں ڈیمانڈ اور سپلائی کا مسئلہ درپیش ہو گا۔ اب آپ کیلے کی مثال لے لیں۔ زیادہ تر کیلا سندھ سے آتا تھا لیکن سیلاب کے بعد وہ ضائع ہو گیا۔ اس لیے اس وقت کیلا چار سے پانچ سو روپے فی درجن تک میں فروخت ہو رہا ہے۔ پھر جو بچا کھچا اناج تھا وہ ہم نے دوسرے ممالک میں برآمد کر دیا۔‘

ماہر معیشت ڈاکٹر قیس اسلم نے بتایا کہ ’اس کے علاوہ چھوٹے پیمانے پر کاروبار کرنے والے لوگوں نے اپنا سارا پیسہ مارکیٹ سے نکال کر باہر کے ملکوں میں بھیج دیا کیونکہ ڈالر کا ریٹ مہنگا ہو رہا ہے۔ ڈالر ریٹ اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھنے سے فارمر پر بھی بوجھ بڑھ گیا۔‘

’پھر میڈل مین کا کردار اہم ہے جو اشیا کو ذخیرہ کرتا ہے اور جو مارکیٹ میں سامان لاتا ہے تو اسے آنے جانے کا کرایہ پہلے سے زیادہ دینا پڑتا ہے۔ یہ وہ تمام عناصر ہیں جو اس وقت مہنگاِئی کی وجہ ہیں لیکن اس سب کے نتیجے میں نقصان صرف عوام کا ہو رہا ہے۔‘

Exit mobile version