نور جہاں: کراچی میں بیمار ہتھنی کے بچنے کے امکان غیر واضح مگر ’اسے بچایا جاسکتا ہے‘
پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے چڑیا گھر میں بیمار ’نور جہاں‘ نامی ہتھنی کے جسم کے اندر خون کا لوتھڑا بن گیا ہے جس کی وجہ سے اس کے گردوں سمیت دیگر اعضا پر دباؤ پڑ رہا ہے۔
جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی تنظیم فور پاز کے ماہرین نے کراچی آمد پر نور جہاں کے ابتدائی طبی معائنے کے بعد یہ رپورٹ دی ہے۔
کراچی میونسپل کارپوریشن کی درخواست پر فور پاز کے ماہرین نے بدھ کی صبح نور جہاں کا طبی معائنہ کیا اور اس کے ایکسرے اور خون کے نمونے حاصل کیے، یہ مشاہدہ تقریباً دو گھنٹے سے زیادہ وقت جاری رہا ہے جس سے قبل نور جہاں کو بیہوش کیا گیا۔
افریقی نسل کی 17 سالہ نور جہاں گذشتہ چند ماہ سے بیمار تھی اور پچھلی ٹانگوں پر سوجن کی وجہ اسے نقل و حرکت میں دشواری کا سامنا تھا۔ ماہرین نے تصدیق کی کہ نور جہاں کو کوئی فریکچر نہیں ہوا ہے۔
فور پاز کے ماہر ڈاکٹر فرینک گورٹز نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے ایکسرے کی مدد سے دیکھا کہ نور جہاں کے اندر خون کا ایک لوتھڑا بن گیا ہے جس کی وجہ سے اندرونی اعضا پر دباؤ پڑ رہا ہے۔ ’اس کی آنت پیلوس میں آگئی ہے جو وہاں نہیں ہونی چاہیے بلکہ اس کو پیٹ میں ہونا چاہیے تھا۔‘
’جو پیٹ کے اعضا ہیں وہ پیلوس کی طرف دباؤ ڈال رہے ہیں جس نے مثانے اور بچہ دانی میں کھچاؤ ڈال دیا تھا جو گردے اور مثانے کے درمیان تعلق بناتا ہے جس کی وجہ سے وہ تکلیف میں ہے۔‘
سندھ ہائیکورٹ کے احکامات پر فور پاز کے ماہرین اس سے پہلے بھی کراچی آئے تھے اور نور جہاں اور ایک دوسری ہتھنی ’مدہو بالا‘ کا علاج کیا تھا۔ نور جہاں کا جہاں علاج کیا جا رہا تھا ساتھ میں ایک بڑے آہنی پنجرے میں مدہو بالا موجود تھی جس کے چاروں پیروں میں زنجیریں موجود تھیں۔
فور پاز تنظیم کے ٹیم لیڈر ڈاکٹر عامر خلیل نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ نور جہاں مزید 20 سے 30 سال جی سکتی ہے لیکن اس سے پہلے ہمیں کچھ اقدامات کرنا ہوں گے، اسے ادویات کی فراہمی کی جائے گی۔ اس کے علاوہ انتظامی تبدیلی اور جسمانی دیکھ بال کی ضرورت ہے، ہاتھیوں کو زنجیر میں نہ باندھا جائے تاکہ وہ آزادانہ نقل و حرکت کرسکیں جبکہ اس کے مساج کی ضرورت ہے۔
’ہم نے گذشتہ مرتبہ بھی سفارش کی تھی کہ دونوں ہاتھیوں کو یہاں سے منتقل کیا جائے۔ یہاں اچھی صورتحال نہیں کہ ہاتھیوں کو رکھا جائے۔ یہی وجہ ہے حکام نے اس کو تسلیم کیا ہے اور انھیں سفاری پارک منتقل کیا جا رہا ہے۔‘
واضح رہے کہ اسلام آباد کے چڑیا گھر میں موجود ہاتھی ’کاون‘ کے بیرون ملک بحالی مرکز منتقل کرنے کے بعد اس وقت پاکستان میں صرف چار ہاتھی باقی ہیں اور یہ چاروں افریقی نسل کے ہاتھی کراچی میں موجود ہیں۔ ان کی عمریں چاروں 17 سے 18 سال کے درمیان ہیں تاہم جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ ان چاروں کی حالت کچھ زیادہ بہتر نہیں ہے۔
ایڈمنسٹریٹر کراچی ڈاکٹر سیف الرحمان نے بی بی سی کو بتایا کہ نور جہاں کو سفاری پارک منتقل کیا جا رہا ہے وہاں مطلوبہ سہولیات اس وقت موجود تو نہیں تاہم وہاں انتظامات کیے جائیں گے۔
انھوں نے تسلیم کیا کہ موجودہ صورتحال میں فنڈز ناکافی ہیں اور نے فنڈز میں سالانہ ڈیڑھ کروڑ روپے کے اضافے کی سمری بھیجی گئی ہے۔
اندرونی اور بیرونی تکلیف میں مبتلا نور جہاں کی زندگی خطرے میں ہے۔ فور پاز کے ماہر ڈاکٹر فرینک گورٹز نے کہا کہ وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ نور جہاں کے زندہ بچنے کے کتنے امکانات ہیں لیکن وہ پر امید ہیں کہ اس کو بچایا جاسکتا ہے۔
نور جہاں، دیگر ہاتھی کہاں اور کس حال میں
نور جہاں اور دیگر ہاتھیوں کو کب اور کیسے پاکستان لایا گیا تھا، اس پر آگے چل کر نظر ڈالتے ہیں۔ پہلے دیکھتے ہیں کہ نور جہاں اور اس کی ساتھی ہتھنی فی الحال کس حال میں ہیں۔
گذشتہ دنوں کے دوران جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں اور چڑیا گھر جانے والے افراد نے سوشل میڈیا پر بہت سی ایسی ویڈیوز شیئر کی ہیں جن میں دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ نور جہاں اپنی ٹانگ میں تکلیف کے سبب چل پھر نہیں سکتی ہے۔
تاہم خالد ہاشمی کہتے ہیں کہ ’نور جہاں ٹھیک نہیں ہے، لیکن ایسا نہیں ہے کہ وہ چل پھر نہیں سکتی۔ وہ چل پھر رہی ہے۔ اپنی مکمل خوراک استعمال کر رہی ہے۔ فوری طور پر اس کی جان کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اس کے علاج معالجے کے لیے تمام دستیاب وسائل بروئے کار لائے جا رہے ہیں۔‘
خالد ہاشمی کا کہنا تھا کہ کچھ عرصے قبل نور جہاں کے پاؤں کے قریب سوجن ہوئی تھی، یہ سوجن علاج کے بعد ٹھیک ہو گئی تھی تاہم اب اس ہی ٹانگ پر دوبارہ سوجن ہو گئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم اس وقت فور پاز کے ساتھ ویڈیو لنک کے ذریعے رابطے میں ہیں۔ ان کے ماہرین کی سفارشات کی روشنی میں علاج معالجہ فراہم کیا جا رہا ہے اور ان کے مختلف ٹیسٹ کیے جا رہے ہیں۔‘
پاکستان میں جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم ڈبیلو اے ڈبیلو کی ڈائریکٹر ماہرہ عمر کہتی ہیں کہ جب روزانہ خوراک کی تلاش میں 30 میل تک پیدل چلنے والے ہاتھیوں کو پنجرے میں بند کیا جائے اور ان کو کئی کئی گھنٹے زنجیروں میں رکھا جائے گا تو وہ مختلف مسائل کا شکار ہی ہوں گے۔
نور جہاں اور مدھو بالا اس وقت چڑیا گھر میں ہیں جبکہ سونو اور ملکہ نامی ہتھنیاں کراچی کے سفاری پارک میں ہیں۔
ہاتھیوں کے ساتھ ’ظالمانہ سلوک کیا جا رہا ہے‘
نور جہاں اور ان کے ساتھ موجود مدھو بالا کی کچھ عرصہ قبل دانتوں کی سرجری بھی ہوئی تھی۔ یہ سرجری فور پاز کے ماہرین حیوانات نے کی تھی۔
اس سرجری کے حوالے سے ماہرہ عمر نے بتایا کہ فور پاز کے ماہرین پاکستان آئے اور انھوں نے نور جہاں اور مدھو بالا کا معائنہ کیا تو اس میں انکشاف ہوا کہ ان کے دانتوں میں شدید قسم کا انفیکشن ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہاتھیوں کا دانتوں کا نظام آنکھوں سے شروع ہو کر دماغ تک جاتا ہے اور اگر اس میں انفیکشن بڑھ جائے تو وہ خطرے کا شکار ہو جاتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ اس موقع پر دونوں کے منھ میں باقاعدہ کیمرے ڈال کر معائنہ کیا گیا اور پھر فوری طور پر ان کی سرجری ہوئی تھی۔ جس کے نتیجے میں یہ توقع پیدا ہوئی کہ اب ان کی زندگیوں کو فوری طور پر کوئی خطرہ نہیں ہے۔
فور پاز کے ہاتھیوں کے ماہر میتھیاس اوٹو نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ چڑیا گھر میں موجود نور جہاں کی صحت بہت زیادہ متاثر ہو رہی ہے۔ چڑیا گھر میں موجود ہاتھیوں کو فوری طور پر مناسب علاج اور ماحول کی ضرورت ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’چڑیا گھر میں رکھے گئے ہاتھیوں کی نگرانی پر مامور عملہ بھی ہاتھیوں کی دیکھ بھال کے لیے مناسب تربیت یافتہ نہیں ہے۔ ہم نے جب ان کی نگرانی پر مامور ایک عملے سے ہاتھیوں کی صورتحال کے بارے میں بات کی تو اس نے جواب میں کہا کہ قید میں رکھے گئے جانوروں کے لیے یہ صورتحال عام ہے۔‘
رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے کہ ’ہاتھیوں کو دانتوں سے لے کر پاؤں تک شدید قسم کی بیماریوں کا سامنا ہے۔ ہاتھی اپنے جسم کو پوری طرح حرکت نہیں دے پا رہے ہیں۔ ہاتھی ظالمانہ سلوک کا شکار ہیں اور ان کو فوری توجہ اور مدد کی ضرورت ہے۔‘
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’برائے مہربانی تحقیقات کریں اور ایکشن لیں۔ اب دنیا میں ظالمانہ رویہ قابل قبول نہیں ہے۔‘
ان ہاتھیوں کو کیسے پاکستان لایا گیا؟
ماہرہ عمر بتاتی ہیں کہ ان ہاتھیوں کو 2009 میں افریقہ کے ملک تنزانیہ سے 40 ملین روپے کے عوض پاکستان لایا گیا تھا۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’جب ان کو پاکستان لایا جا رہا تھا تو اس وقت پاکستان اور پوری دنیا میں کہا گیا تھا کہ ایسا ظلم نہ کریں مگر پھر یہ قدم اٹھایا گیا۔‘
ماہرہ عمر بتاتی ہیں کہ ان چاروں کو ان کی قدرتی آماجگاہ سے پکڑ کر پاکستان لایا گیا تھا۔ اس وقت پوری دنیا میں یہ سوال بھی اٹھا تھا کہ بین الاقوامی قوانین کی موجودگی میں کس طرح ان کو پاکستان درآمد کیا گیا ہے؟
ان کا کہنا تھا کہ ہاتھی ایک سوشل جانور ہے۔ مادہ ہاتھی جو کہ آپس میں قریبی رشتہ دار ہوتے ہیں۔ ایک ساتھ زندگی گزارتے ہیں جب کہ نر ہاتھی اپنی آماجگاہ یا ٹھکانہ بدل لیتا ہے۔ اب ان کو ایک ہی مقام سے لایا گیا ہے۔
ماہرہ عمر کا کہنا تھا کہ ان چاروں کو نہ صرف یہ کہ ان کی ماؤں سے الگ کیا گیا بلکہ ان کو ان دیگر ساتھی ہاتھیوں سے بھی الگ کیا گیا ہے۔ ان کو جب لایا گیا تھا اس وقت ان کی عمریں دو سے چار سال کی تھیں۔ یہ گذشتہ 12 سے 14سال تک قید میں گزار رہے ہیں۔
’سوچنا اور سمجھنا ہو گا کہ ہاتھی بھی جاندار ہے۔ بے گناہ قید اس پر بھی انتہائی برے اثرات ڈالتی ہے۔ صرف تفریح کے لیے قید میں رکھ کر تکلیف پہنچانا ظلم ہے۔ اب ان کو جنگل میں تو نہیں چھوڑا جاسکتا مگر ان کو کاؤن کی طرح بہتر زندگی فراہم کی جا سکتی ہے۔‘