سائنس

انسانوں کے لیے مددگار یا ہماری نوکریوں کے لیے خطرہ: کیا ہمیں مصنوعی ذہانت سے خطرہ ہو سکتا ہے؟

Share

گذشتہ دنوں برطانیہ کی ایک خاتون نے چیٹ جی پی ٹی کی مدد سے مقامی انتظامیہ کو ایک خط بھیجا تاکہ ان کا پارکنگ سے متعلقہ جرمانہ معاف کر دیا جائے۔ چیٹ جی پی ٹی نے انتظامیہ کے نام جو خط لکھا اسے پڑھ کر ان کا جرمانہ معاف کر دیا گیا۔

اسی طرح گذشتہ دنوں پوپ جان پال کی ایک تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جو اُن کی اصل تصویر نہیں تھی بلکہ اسے مصنوعی ذہانت یعنی آرٹیفیشل انٹیلیجنس (اے آئی) ٹولز کی مدد سے تیار کیا گیا تھا۔

کچھ ایسی ہی صلاحیتوں کی وجہ سے آج کل ہر طرف اے آئی ٹیکنالوجی کی دھوم ہے لیکن اس کے ساتھ ہی یہ فکر بھی بڑھتی جا رہی ہے کہ کہیں یہ ہم انسانوں کے لیے مصیبت تو نہیں بن جائے گی؟

کیا آرٹیفیشل انٹیلیجنس انسانوں سے روزگار کے مواقع تو نہیں چھین لے گی؟ کہیں یہ انسانیت کے خاتمے کی طرف بڑھتے قدم تو نہیں؟

نوکریوں کو خطرہ؟

آرٹیفیشل انٹیلیجنس ٹولز وقت کے ساتھ ساتھ مزید سمارٹ ہوتے جائیں گے۔ ایسے میں یہ خدشات بھی ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ کیا مستقبل میں اے آئی ٹیکنالوجی انسانی ذہانت کا متبادل ہو سکتی ہے؟

انڈین اے آئی کمپنی ’انفیڈو ڈاٹ اے آئی‘ میں ایچ آر ڈائریکٹر سمیرا خان کا خیال ہے کہ اس بات سے منھ نہیں پھیرنا چاہیے کہ ٹیکنالوجی ترقی کی علامت ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’جن کاموں کو انجام دینے میں ہمیں عام طور پر بہت وقت لگتا ہے، اے آئی ٹولز ہمیں وہی کام بہت کم وقت میں کر کے دے سکتے ہیں۔ ایسے میں ہمارے پاس دو راستے ہیں: یا تو آرٹیفیشل انٹیلیجنس سے ڈر جائیں یا اس کی مدد سے اپنے کام آسان کر لیں۔‘

سمیرا کہتی ہیں کہ ’اے آئی ٹیکنالوجی ہمیں آگے بڑھنے میں مدد کرے گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو پرانے کام تھے وہ ٹیکنالوجی کیا کرے گی جبکہ انسانوں کے لیے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔ ہم انسانوں کے لیے اس دوران یہ بہت ضروری ہے کہ اپنے آپ کو ٹیکنالوجی کے معاملے میں پیچھے نہ رہنے دیں، نئے ہنر سیکھیں اور ہمیشہ اس معاملے میں تمام معلومات اپنے پاس رکھیں۔‘

مصنوعی ذہانت
،تصویر کا کیپشنایلون مسک سمیت ایک ہزار سے زیادہ ٹیکنالوجی ماہرین نے ایک خط لکھ کر دنیا بھر کے ممالک سے مطالبہ کیا ہے کہ مصنوعی ذہانت سے متعلق تمام ریسرچ روک دی جائے کیونکہ اس سے انسانیت کو شدید خطرہ ہے

انڈین محقق آدرش پانڈے ایک ایسی اے آئی ٹیکنالوجی پر کام کر رہے ہیں جس کی مدد سے، ان کے دعوے کے مطابق‘ ورٹیگو (جب آپ محسوس کرتے ہیں کہ آپ جو بھی دیکھ رہے ہیں وہ گھوم رہا ہے) کے مرض کی قبل از وقت تشخیص ہو سکے گی۔

ان کے مطابق ’اے آئی ٹیکنالوجی کی مدد سے ہم آنکھوں کی حرکت کی بنیاد پر یہ طے کر سکیں گے کہ کیا متاثرہ شخص کو مستقبل میں ورٹیگو کا مرض ہو سکتا ہے‘ اور اس کی بنیاد پر مریضوں کو ڈاکٹروں سے رجوع کرے کا مشورہ دیا جا سکے گا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’اس وقت ہم اے آئی ٹیکنلوجی کا جس طرح استعمال کر رہے ہیں وہ کسی ڈاکٹر سے مقابلہ کرنے کے بجائے ان کے کام میں مدد گار ثابت ہو گی۔‘

فیک نیوز میں اضافہ

ماہرین کو یہ خدشہ بھی ہے کہ اِس وقت مصنوعی ذہانت کا استعمال عام ہونے کے کئی نقصانات ہو سکتے ہیں جس میں فیک نیوز اور غلط معلومات کو فروغ دیے جانے کا خطرہ سب سے بڑا ہے تاہم خود اِس ٹیکنالوجی پر کام کرنے والوں کا کہنا ہے کہ اِس مسئلے سے نمٹنے کے لیے ٹیکنالوجی کمپنیز کوشش کر رہی ہیں۔

انڈین اے آئی کمپنی انفیڈو ڈاٹ اے آئی کے شریک بانی ورون پُری کہتے ہیں کہ ’جس طرح کوئی بھی ٹیکنالوجی اچھے اور برے دونوں قسم کے کاموں کے لیے استعمال کی جا سکتی ہے، ویسا ہی اے آئی کے ساتھ بھی ہے لیکن اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے بہت سے لوگ اب ایسی ٹیکنالوجی تیار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو صحیح اور غلط معلومات میں فرق بتا سکے لیکن ہمیں خود بھی اس معاملے میں ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ بغیر اے آئی کے استعمال کے بھی بہت سی جعلی خبریں پھیلائی جا رہی ہیں۔‘

چیٹ جی پی ٹی
،تصویر کا کیپشنچیٹ جی پی ٹی نے انتظامیہ کے نام جو خط لکھا اسے پڑھ کر ایک خاتون کا جرمانہ معاف کر دیا گیا

چیٹ بوٹ کیا ہیں؟

چیٹ بوٹز ایسے کمپیوٹر پروگرامز ہیں جو آپ کے سوالات کے جواب دینے کے لیے تقریباً انسانوں جیسی صلاحیت رکھتے ہیں۔

جب آپ ان سے لکھ کر یا وائس نوٹ کے ذریعے کوئی سوال کرتے ہیں تو یہ آپ کی ضرورت کے مطابق جواب دیتے ہیں۔ جواب پسند نہ آنے کی صورت میں آپ اپنے سوال کو تبدیل یا اس میں کچھ جوڑ اور کم بھی کر سکتے ہیں، جس کے رد عمل میں یہ چیٹ بوٹز اپنے جواب تبدیل کرنے کی بھی صلاحیت رکھتے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی پر کام کرنے والے اے آئی چیٹ بوٹس کی مقبولیت بڑھتی جا رہی ہے۔

اوپن اے آئی کمپنی کا چیٹ بوٹ چیٹ جی پی ٹی 30 نومبر 2022 کو لانچ ہوا اور ایک ہفتے کے اندر دس لاکھ سے زیادہ لوگ اسے استعمال کر چکے تھے۔

اِس کا استعمال لوگ سی وی لکھنے، پروجیکٹ رپورٹس تیار کرنے یا مختلف تقریبات کی تیاری کے لیے بھی کر رہے ہیں لیکن اِس کے علاوہ اے آئی ٹیکنالوجی کے کئی مختلف شعبوں میں کئی فائدے ہیں۔

انھیں ہسپتالوں، دفتروں اور سوشل میڈیا ایلگوریتھم میں بھی پہلے سے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ کاروباروں کو بڑھانے کے لیے پروموشنل ویڈیوز بھی یہ آپ کے ایک اشارے میں بنا کر دے دیتے ہیں۔

’چیٹ جی پی ٹی‘ کی ہی طرح کے کئی اور ٹولز پہلے سے ہی مارکیٹ میں آ چکے ہیں جو ہماری زندگی، ہمارے کام کرنے کے طریقے بدل سکتے ہیں۔ پچھلے دنوں گوگل نے اپنا چیٹ بوٹ ’بارڈ‘ لانچ کیا، اڈوبی نے ’فائر فلی‘ اور فروری میں مائکرو سافٹ نے اپنے سرچ انجن بِنگ میں بھی چیٹ بوٹ فیچر متعارف کروایا ہے۔

مصنوعی ذہانت
،تصویر کا کیپشنآرٹیفیشل انٹیلیجنس ٹولز وقت کے ساتھ ساتھ مزید سمارٹ ہوتے جائیں گے

کیا اے آئی پر آنکھ بند کر کے بھروسہ کیا جا سکتا ہے؟

اچھی اور صحیح زبان، پراعتماد انداز۔۔۔ اے آئی ٹولز کی باتیں سن یا پڑھ کر آپ کو ایسا لگتا ہے کہ کوئی ایکسپرٹ آپ کو یہ سب بتا رہا ہے لیکن یہ سچ نہیں۔

چیٹ جی پی ٹی بنانے والی کمپنی اوپن اے آئی کا کہنا ہے کہ یہ آپ کے سوال کرنے پر انٹرنیٹ سے معلومات حاصل نہیں کر رہا۔ اس لیے ضروری نہیں کہ وہ آپ کو جو بتا رہا ہے وہ 100 فیصد درست اور تازہ ترین معلومات ہوں۔

اس ٹول کے جواب اس معلومات پر مبنی ہیں جو چیٹ جی پی ٹی کے ستمبر 2021 میں لانچ سے قبل اس میں فیڈ کی گئی تھیں۔ اس کے بعد جو ہوا اسے نہیں پتا۔

حالانکہ اسے بنانے والی کمپنی اوپن اے آئی کا کہنا ہے کہ مارچ 2023 میں اس چیٹ بوٹ کا جو نیا ورژن ’چیٹ جی پی ٹی فور‘ لانچ کیا گیا وہ بہتر ہے لیکن یہ بھی ابھی 40 فیصد ہی درست معلومات دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ انٹرنیٹ پر جو معلومات دستیاب ہیں، اس میں سب کچھ سچ بھی نہیں ہوتا بلکہ بہت کچھ فیک نیوز اور پروپیگینڈا مواد بھی ہوتا ہے۔

اس اے آئی ٹول میں کچھ ایسے فلٹرز شامل کیے گئے ہیں جو اسے جانبدار یا متعصبانہ جواب دینے سے روکتے ہیں۔

دسمبر 2022 میں اوپن اے آئی کے چیف ایگزیکٹیو سیم آلٹمن نے خود کہا تھا کہ اس سٹیج پر کسی بھی اہم کام کے لیے چیٹ جی پی ٹی پر انحصار کرنا غلطی ہو گی۔

مصنوعی ذہانت

’انسانیت کو خطرے‘ کے خدشات اور تحقیقات روکنے کا مطالبہ

گذشتہ ہفتے ٹیسلا کے سربراہ ایلون مسک سمیت ایک ہزار سے زیادہ ٹیکنالوجی ماہرین نے ایک خط لکھ کر دنیا بھر کے ممالک سے مطالبہ کیا کہ مصنوعی ذہانت سے متعلق تمام ریسرچ روک دی جائے کیونکہ ان سے انسانیت کو شدید خطرہ ہے۔

اس خط پر دستخط کرنے والوں میں ایپل کے شریک بانی سٹیو ووزنیاک اور ’ڈیپ مائنڈ‘ کے چند ریسرچرز بھی شامل تھے۔

اس کے علاوہ گذشتہ دنوں اٹلی نے چیٹ جی پی ٹی کے استعمال پر پابندی عائد کر دی۔ یورپی یونین اور چین میں بھی اس کے استعمال اور اس جانب مزید ریسرچز پر کنٹرول کے لیے قانون سازی کی جا رہی ہے۔ متعدد ممالک کی حکومتیں کوشش کر رہی ہیں کہ انسانیت کو خطرے کے پیش نظر اس معاملے میں تمام تبدیلیوں پر مکمل کنٹرول رکھا جائے۔

اے آئی ہماری زندگی میں مختلف صورتوں میں پہلے سے ہی موجود ہے۔ وہ سوشل میڈیا ایلگورتھم ہو یا دفتروں اور ہسپتالوں میں استعمال ہونے والے ٹولز لیکن مستقبل کے بارے میں اِس سے جڑے کچھ اور اہم سوال بھی ہیں جن کے سبب کافی بے چینیاں پیدا ہونا شروع ہو گئی ہیں۔

جس تیزی سے اے آئی کا استعمال بڑھ رہا ہے، ایسے میں کیا یہ یقینی بنانا ممکن ہے کہ اِس کے انسانی نسل پر کوئی منفی اثرات نہیں ہوں گے اور کیا آرٹیفیشیئل انٹیلیجنس پر کام کرنے والے ٹولز انسانوں کی طرح اخلاقی فیصلے بھی کر سکتے ہیں؟

اس وقت اِن سوالوں کے حتمی جواب دینا ممکن نہیں لیکن امید کی جا رہی ہے کہ دیگر ٹیکنالوجیز کی طرح اِس سے ہماری زندگی میں آسانیاں پیدا ہوں گی لیکن اس بار یہ بھی واضح ہے کہ اسے کنٹرول کرنا، اِس کے اخلاقی استعمال کو یقینی بنانا بے حد ضروری ہو گا۔