اپنی ایک سٹوری کے لیے پنج پائی سے کوئٹہ واپس آتے ہوئے مجھے ایک چیک پوسٹ پر لیویز کا ایک پِک اپ ٹرک نظر آیا۔ اس پِک اپ ٹرک کے باہر ایک اہلکار بڑی بڑی سفید بوریاں پِک اپ ٹرک کے اندر رکھ رہا تھا۔
پوچھنے پر لیویز اہلکار نے بتایا کہ ان بوریوں میں چینی ہے جو پنجاب کے راستے افغانستان لے جائی جا رہی تھی اور اس کو پکڑنے کے بعد ان بوریوں کو اب واپس کوئٹہ ہیڈ کوارٹر لے جایا جا رہا ہے۔
اس حوالے سے پاکستانی حکام بھی اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ افغانستان میں پاکستانی چینی سمگل کی جا رہی ہے۔
کسٹمز کے ایک موجودہ افسر نے حال ہی میں کوئٹہ سے چاغی پہنچنے والی ایک ٹرین سے تقریباً 112 ٹن کی چینی پرمِٹ نہ ہونے کے باعث ضبط کروا کر واپس کوئٹہ بھیج دی تھی۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے دعویٰ کیا کہ ان کے اندازے کے مطابق ’کوئٹہ سے تقریباً ہر دوسرے روز 100 ٹن چینی اور ہفتے میں تقریباً 700 ٹن چینی غیر قانونی راستوں کے ذریعے افغانستان پہنچائی جا رہی ہے۔‘
افغانستان کے چیمبرز آف کامرس کے مطابق بھی ایسے بیس سمگلنگ روٹس ہیں جن کے ذریعے چینی اور دیگر اشیائے خوردونوش پاکستان سے افغانستان پہنچائی جاتی ہیں۔
اس سامان پر کسٹم ڈیوٹی نہیں دی جاتی اور دونوں ملکوں کے درمیان بنی چیک پوسٹوں سے ہوتی ہوئی یہ بسیں اور ٹرک افغانستان کے آٹھ مخلتف صوبوں میں پہنچ جاتے ہیں۔
یہ چینی افغانستان کیسے پہنچتی ہے؟
اس وقت ڈسٹرکٹ چاغی بلوچستان کا ایک اہم پوائنٹ ہے، جہاں سے چینی افغانستان سمگل کی جاتی ہے لیکن یہ صوبہ بلوچستان کا واحد پوائنٹ نہیں۔
اس کے علاوہ بلوچستان کے افغانستان سے متصل دیگر علاقوں جیسے چمن، قلعہ سیف اللہ، قلعہ عبداللہ، پشین اور ژوب کے علاقے بھی سمگلنگ روٹ میں شامل ہیں۔
سمگلنگ کے راستوں کی کھوج لگانے پر پتا چلا کہ پاکستان سے چینی جانے کا قانونی اور کچھ حد تک غیر قانونی راستہ ایک ہی ہے۔
اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے ایک حکومتی ترجمان نے بتایا کہ ’راستہ ایک ہی استعمال ہوتا ہے لیکن جہاں مقامی تاجروں کی بڑی گاڑیوں کو پرمِٹ دیکھ کر چھوڑ دیا جاتا ہے، وہیں غیر قانونی طور پر جانے والے ٹرک کا پرمِٹ ہی نہیں دیکھا جاتا۔‘
یہ پرمِٹ پاکستان کی حکومت کی جانب سے مقامی تاجروں اور ان کی کمپنیوں کو جاری کیا جاتا ہے۔ جس میں کمپنی کے مالک کے شناختی کارڈ کی جانچ کرنے اور کاروبار کو دیکھنے کے بعد ان کے نام پر پرمِٹ جاری کیا جاتا ہے۔ اس پرمِٹ کے تحت مالک کے تابع مال لے جانے والے ٹرک اور انھیں چلانے والے ڈرائیوروں کی نشاندہی بھی کی جاتی ہے۔
اب چاغی سے چند ماہ میں ہونے والی سمگلنگ کے نتیجے میں حال ہی میں ڈپٹی کمشنر چاغی حسین جان بلوچ نے چینی کے پرمِٹ ایشو کرنے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ اعلامیے کے مطابق یہ پابندی تب تک جاری رہے گی جب تک تمام چینی سپلائی کرنے والوں کی رجسٹریشن نہیں ہو جاتی لیکن تاجروں کے مطابق سرحد سے متصل دیگر علاقوں میں ایسی پابندی عائد نہیں۔
پنج پائی کا علاقہ ایک عرصے تک افغانستان سے تجارت کے لیے استعمال ہوتا تھا لیکن اب اس راستے کو حکومتی سطح پر بند کر دیا گیا ہے اور اب یہاں سے غیر قانونی طریقے سے چینی لے جائی جاتی ہے۔
تاجروں اور حکام کا کہنا ہے کہ سب سے پہلے پنجاب اور سندھ کے راستے چینی کو کوئٹہ پہنچایا جاتا ہے اور کوئٹہ سے افغانستان پہنچا دیا جاتا ہے۔
اس کام میں ملوث افراد کے مطابق طریقہ کار کچھ یوں ہے کہ پہلے چینی کو چاغی تک بس، گاڑی، ٹرک یا پھر ٹرین کے ذریعے پہنچایا جاتا ہے اور پھر وہاں سے ڈکھ کے ریگستانی علاقے سے افغانستان تک پہنچا دیا جاتا ہے۔
چاغی پہنچے والی ٹرین زیادہ تر ایران کے شہر زاہدان کی طرف جاتی ہے لیکن اس سے پہلے ہی نوکنڈی ریلوے سٹیشن پر اس سے چینی اور دیگر اشیا نکال کر اسے چھوٹی گاڑیوں اور ٹرکوں کے ذریعے افغانستان بھیج دیا جاتا ہے۔
یہی طریقہ کار سرحد سے متصل دیگر علاقوں کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ جہاں ریگستانی علاقہ استعمال کرتے ہوئے چینی کو چھوٹی گاڑیوں میں سمگل کیا جاتا ہے جبکہ شہروں سے مسافر بسوں کے ذریعے یہ چینی سرحد تک پہنچائی جاتی ہے۔
اس کا اندازہ تب ہوا جب انسانی سمگلنگ پر ایک رپورٹ کرنے کے دوران کوئٹہ کے موسی کالونی بس اڈّے جانے کا اتفاق ہوا۔ اس اڈّے پر ایک طرف تو لوگوں کی بھیڑ ہے جبکہ اسی اڈّے پر پیچھے کی طرف کچھ بسیں بظاہر خالی کھڑی ہوتی ہیں۔ یہاں پر 42 لوگوں کی مسافر بس کی سیٹوں پر صرف چینی کی بوریاں لادی جا رہی تھیں۔
ہمیں وہاں دیکھنے پر بس ڈرائیور نے تصویریں نہ بنانے کا کہہ کر اپنی بس اس جگہ سے ہٹا لی لیکن پوچھنے پر یہ ضرور بتا دیا کہ یہ چینی پنجاب اور گھوٹکی سے کوئٹہ آتی ہے اور یوریا، دواؤں اور دیگر اشیائے خوردونوش کے ساتھ افغانستان بھیجی جاتی ہے۔
چیمبر آف کامرس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ایسی کئی اور بسوں کے بارے میں حکام کو پتا ہے لیکن وہ سرحد پر قانونی طور سے جانے والے مقامی تاجروں کو روکتے ہیں۔
کوئٹہ چیمبر ز آف کامرس کے نائب صدر آغا گُل خلجی نے اس بات کی تصدیق بھی کی کہ چینی لے جانے کو کچھ لوگ غیر قانونی کاروبار کا ذریعہ بنا کر سرحد پار بھیج رہے ہیں جبکہ اس سے مقامی تجارت کرنے والوں کو نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔
انھوں نے کہا کہ اگر حکام کو خدشہ ہے تو افغانستان سے اپنی سرحد پر سختی کریں۔ جو اشیائے خوردونوش انڈیا یا پھر افغانستان سے آتی جاتی ہیں، اسے نہیں روکا جا سکتا۔ یہ کوئی امپورٹ یا ایکسپورٹ کا مسئلہ نہیں ہے۔ یہ سامان مقامی لوگوں کے لیے ہوتا ہے۔‘
چینی افغانستان کیوں سمگل کی جا رہی ہے؟
اگست 2021 میں افغانستان میں طالبان کا قبضہ ہونے کے بعد وہاں کئی چیزوں کی قلت کی خبریں منظر عام پر آنا شروع ہو گئیں۔ ان میں سے ایک قلت چینی کی تھی جو دو سال بعد بھی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔
اس کمی کو پورا کرنے کا راستہ جہاں ایک طرف پاکستان کے ساتھ افغانستان کے ہونے والے معاہدوں کے ذریعے پورا کیا گیا وہیں ایک حل سمگلروں نے غیر قانونی راستوں کے ذریعے چینی پہنچانے سے کیا۔
اس سمگلنگ کی ایک اور اہم وجہ تاجر افغانی کرنسی کو بتاتے ہیں جو اس وقت پاکستان کے روپے سے کئی گنا بہتر منافع دیتی ہے اور پاکستانی سمگلروں کو افغانستان میں چینی بیچنے کا دوگنا فائدہ ہوتا ہے کیونکہ جہاں پاکستان میں حکومتی پرائس لسٹ کے مطابق چینی 93 روپے فی کلو ہے، وہیں افغانستان میں یہ چینی 193 روپے فی کلو کی بیچی جاتی ہے۔
تاجروں کے مطابق براہِ راست اور قانونی راستوں سے چینی بھیجنے میں منافع کا مارجن کم ہوتا ہے۔
کوئٹہ میں مقیم تاجر حاجی عظیم نے بتایا کہ ’اس میں ٹیکس دینا پڑتا ہے، گاڑیوں کا کرایہ اور ڈرائیوروں کو تنخواہ دینی پڑتی ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ لیکن ’غیر قانونی طریقے سے سمگلروں کو ٹیکس کی فکر ہوتی ہے، نہ انسانی جان کی۔ انھیں خطرناک راستوں سے دن رات گاڑی اور ٹرک بھگا کر یہ حکومتی سامان سے دگنی اشیا افغانستان پہنچا دیتے ہیں اور کئی مقامات پر سمگل شدہ چینی کی قیمت افغان تاجر ڈالر میں بھی ادا کرتے ہیں۔ تو کوئی صحیح راستہ کیوں اپنائے گا؟‘
حکومت اس غیر قانونی سمگلنگ کو کیا مکمل طور پر روک سکتی ہے؟
حکام کا کہنا ہے کہ اس وقت غیر قانونی طور پر افغانستان بھیجی جانے والی چینی کی روک تھام بمشکل ہی کی جا سکتی ہے لیکن اس کے باوجود یکم مارچ کو کسٹمز حکام چاغی ڈسٹرکٹ کے نوکنڈی ریلوے سٹیشن پر 112 ٹن چینی روکنے میں کامیاب ہو گئے۔
ڈپٹی کمشنر چاغی حسین جان بلوچ نے بتایا کہ ’کوششوں میں ایک بڑی رکاوٹ وسائل کی کمی ہے۔ اس کے باوجود جہاں جہاں سے خبر ملتی ہے وہاں کارروائی کی جاتی ہے۔‘
دوسرا طریقہ پرمِٹ کے اجرا کی روک تھام اور سختی ہے۔
اس کی حالیہ مثال بلوچستان کے ضلع واشُک میں دیکھنے کو ملی جہاں ڈپٹی کمشنر کو تب ملازمت سے ہٹا دیا گیا جب تقریباً 400 ٹرکوں کو بغیر پرمِٹ دیکھے جانے کی اجازت دینے کی خبر مقامی لوگوں اور تاجروں نے حکام کو دی۔
حکام کا یہ بھی کہنا ہے کہ چمن سرحد سے پیدل افغانستان جانے والے اگر چینی ساتھ لے جائیں تو انھیں روکا نہیں جاسکتا۔