مہنگائی کا عفریت میرے اور آپ کے لئے ہے ،تاجروں کے لئے نہیں، اس میں چھوٹے اور بڑے تاجر دونوں آتے ہیں۔ایک قصائی بازار سے مہنگی چیزیں خریدتا ہے، وہ آرام سے گوشت کی قیمت میں اضافہ کرکے اپنے سر سے مہنگائی کا بوجھ اتار دیتا ہے ۔نانبائی بھی ایسے کرتا ہے ،سبزیاں اور فروٹ بیچنے والوں کے پاس بھی یہ ’’سہولت‘‘ موجود ہے، میڈیکل اسٹور والے بھی اپنا سارا نقصان پورا کر لیتے ہیں اور جو بڑے تاجر ہیں وہ جب چاہتے ہیں مہنگائی کو آسمانوں تک پہنچا دیتے ہیں، ان کی اکثریت ٹیکس بھی ادا نہیں کرتی چنانچہ یہ طبقہ امیر سے امیر تر ہوتا جاتا ہے اور بقول چی گویرا ’’وسائل پر قابض لوگ غریب کو بتاتے ہیں کہ بھوک خدا کی آزمائش ہے۔‘‘ اس طبقے کے اوپر بھی کئی طبقے ہیں اور ان سب نے غریبوں کا جینا حرا م کیا ہوا ہے ۔بیمار پڑجائیں تو اسپتال اور ادویات پہنچ سے باہر، مر جائیں تو تدفین کے اخراجات کہاں سے لائیں، ان کے لئے نہ جینا آسان ہے اور نہ مرنا آسان!
ہماری وزارت خزانہ کبھی ڈائریکٹ کسی ’’امریکی پاکستانی ‘‘ اور کبھی ان ڈائریکٹ امریکہ ہی کے پاس رہی ہے، دو ایک بار تو ہمارا وزیر اعظم بھی امریکہ سے پہلی فلائٹ پر پاکستان آتا ہے، اس کا شناختی کارڈ بنتا ہے او روہ وزارت عظمیٰ کا مسند نشین ہو جاتا ہے۔ ادھر ہمارے تمام مالیاتی ادارے کرپشن سے آلودہ ہیں چنانچہ کسی بھی حاکم سےفریاد کام نہیں آتی۔
ہم نے سوچا تھا کہ حاکم سے کریں گے فریاد
وہ بھی کم بخت تیرا چاہنے والا نکلا
کوئی ایک مسئلہ ہو تو انسان بیان بھی کرے، ایئرپورٹ پربہت سے اداروں کے اہلکار بیرون ملک سے آنے والوں کا بے چینی سے انتظار کر رہے ہوتے ہیں، پوسٹنگ ٹرانسفر بھی بہت ’’دیکھ بھال‘‘ کر کی جاتی ہے کچھ مقامات تو ایسے ہیں کہ رشوت کروڑوں تک پہنچی ہوئی ہے، جو اتنی رشوت دیتا ہے وہ لوگوں کی بوٹیاں نوچ کر اپنا ’’نقصان‘‘ پورا کرتا ہے اور تو اور چھوٹی بڑی ججی میں بھی یہ ’’لین دین‘‘ ہوتا ہے، ہماری معاشی تباہی کا ایک بہت بڑا سبب اسمگلنگ کا مکروہ کاروبار ہے جو زیادہ تر افغانستان اور ایران کے رستے ہوتی ہے ،یہ اسمگلنگ سب اداروں کی آنکھوں کے سامنے ہو رہی ہوتی ہے مگر وہ انہیں کیوں روکیں ،وہ ان کے حصے دار جو ہیں، ڈالر بھی اسمگل ہو رہے ہیں۔گندم ،چینی اور دوسری اشیائے ضروریہ ہیں ،اوپر سے آئی ایم ایف ہماری جان کو آیا ہوا ہے کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب اس کا کوئی نیا مطالبہ سامنے نہ آتا ہو اب ہم بھکاریوں کی طرح دوست ملکوں کے سامنے جھولی پھیلائے کھڑے ہیں اور دے جا سخیا راہ خدا ،تیرا اللہ ہی بوٹا لاوے گا‘‘ درد انگیز لے میں گا رہے ہیں ۔یہ دوست ممالک بھی سوچتے ہوں گے کہ ہم کن سے دوستی لگا بیٹھے ہیں تاہم ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ کوئی دوستی بے غرض نہیں ہوتی ہم اگر کچھ لیتے ہیں تو ہمیں اس کے عوض بہت کچھ دینا بھی پڑتا ہے ۔
دوسری طرف ہمارے سامنے وہ ممالک بھی ہیں جو طویل جنگوں کےسبب تباہ وبرباد ہو گئے تھے۔ مگر انہوں نے عمارتوں اور لاشوں کے ملبے سے اپنے سر نکالے اور قوم کی تعمیر نو کے بعد آج سربلند ہیں، جرمنی اور جاپان کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ مجھے ان ملکوں میں جانے کا اتفاق ہوا ہے یقین نہیں آتا کہ انہیں کبھی تباہ وبرباد کر دیا گیا تھا، یہاں امن وامان کی صورتحال بھی دیدنی ہے اور عوام ایسی زندگی بسر کر رہے ہیں جو ہمارے لئے محض خواب کی حیثیت رکھتی ہے ۔اسی طرح سکینڈے نیوین ممالک میں سےمجھے دو سال ناروے میں رہنے کا اتفاق ہوا ہے یہاں عوام کی ہر ضرورت کو پورا کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے تعلیم مفت، علاج مفت، بچوں کے وظیفے، ماں کا وظیفہ ،معذوروں کی عمر بھر کفالت بھی ریاست کرتی ہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی راوی ان کے لئے چین ہی چین لکھتا ہے ۔میں یہ سب کچھ دیکھتاتھا اور مجھے حیرت ہوتی تھی کہ اللہ ان ’’کافروں‘‘ پر مہربان ہے تو اپنے نام لیوائوں کی کیوں نہیں سنتا۔اقبال بھی اس حوالے سے خدا سےشکوہ کناں نظر آتا ہے ؎
رحمتیں ہیں تیری اغیار کے کاشانوں پر
برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر
اور ہم ہیں کہ کبھی اسلامی نظام کے نعرے سن کر والہانہ ان کےساتھ چل پڑتے ہیں کبھی سوشلزم کے نام پر اور ان دنوں ’’آزادی‘‘ کے ڈھکوسلے کے پیچھے پاگل ہو رہے ہیں۔
چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک راہرو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں
ہر دور میں ہمیں ’’الفلاح‘‘ کا ’’لارا‘‘ دیا گیا مگر ہر بار فلاح کی منزل دور سے دور تر ہوتی چلی گئی۔
چلئے اب پھر واپس آتے ہیں ہم اپنے عوام کی کسمپرسی کی طرف۔ میں جب سڑکوں پر لاغر بوڑھوں اور بوڑھی مائیوں کو سڑک پار کرنے کی کوشش کرتا دیکھتا ہوں تولش پش کرتی کروڑوں روپے مالیت کی گاڑیاں انہیں راستہ تک نہیں دیتیں،میں جب بھی دوشیزائوں کو سہاگن بنے بغیر بڑھاپے کی دہلیز تک پہنچتے دیکھتا ہوں تو میری آنکھیں بھیگ جاتی ہیں، جب مزدور، مزدوری نہ ملنے پر خالی ہاتھ شام کو گھر لوٹتا ہے تو بھوک سے بلبلاتے اس کے بچوں کا دکھ جاننے والا کوئی نہیں ہوتا ،جب کوئی سفید پوش گھر سے تھوڑی سی رقم لے کر سودا سلف لینے گھرسے نکلتا ہے اور قیمتیں سن کر اپنی ضرورتیں آدھی کرکے واپس گھر کو لوٹ جاتا ہے ۔
اور اب آخر میں متذکرہ صورتحال کے پس منظر میں میرے چند دعائیہ اشعار ،
کچھ ایسے طے ہماری زندگانی کے سفر ہوں
ہمارے پائوں کے نیچے فلک ہوں بحر و بر ہوں
اتر آئیں زمیں پر سب ستارے آسماں کے
ہمارے در پہ باندھے ہاتھ یہ مہر و قمر ہوں
کسی دن آسماں سے بارشیں برسیں کچھ ایسی
ہمارے ہر شجر کی ڈالی پر میٹھے ثمر ہوں
جگا دیں جو ہماری آنکھ کے خوابیدہ جوہر
ہمارے درمیاں بھی کاش ایسے دیدہ ور ہوں
سفینے پر مکمل دسترس ہو ناخدا کی
سمندر کی تہوں میں جس قدر چاہے بھنور ہوں
ارادہ باندھتے ہیں ان دنوں ایسے سفر کا
ہماری پیش قدمی کے لئے نجم و قمر ہوں
ہمیں جو گھر میں دیتے ہیں اذیت بے گھری کی
کچھ ایسے ہو کہ اب کے ہم نہیں وہ دربدر ہوں
پگھل سکتا تو ہے دل اس بت بے مہر کا بھی
اگر ہوں اپنے نامے اور اپنے نامہ بر ہوں
مزا اونچی اڑانوں کا تبھی آئے گا تم کو
عطاؔ صاحب فضا اپنی ہو اپنے بال و پر ہوں