”تخت یا تختہ“ والی فضا
منگل کے روز سپریم کورٹ کا پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے بارے میں فیصلہ آگیا تو میرے دوست محمد مالک نے اس شام مجھے اپنے شو میں تبصرہ آرائی کے لئے مدعو کیا۔”اب کیا ہوگا“ کی الجھن کو سلجھانے کے بجائے میں اس شو میں مصر رہا کہ وزیر اعظم شہباز شریف صاحب کو اپنے عہد ے سے مستعفی ہوجانا چاہیے۔انہیں یہ حقیقت فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ وہ اپنے بھائی کے نام سے منسوب مسلم لیگ کے صدر ہیں۔آبادی کے اعتبار سے ہمارا سب سے بڑا صوبہ 1985سے اکثر اس جماعت کا ناقابل تسخیر قلعہ محسوس ہوتا رہا ہے۔مذکورہ ”قلعہ“کی انتخابی میدان میں اتر کر حفاظت کریں۔
بدھ کی صبح اٹھ کر لکھے کالم میں اپنی رائے کو تفصیلی دلائل کے ساتھ بیان کرنے کی کوشش کی۔جمعرات کی صبح اخبار میں چھپاکالم سوشل میڈیا پر پوسٹ کردیا تو ٹویٹر پر ردعمل دیتے ہوئے قارئین کی اکثریت نے میری رائے سے اتفاق کیا۔چند ”باخبر“ دوستوں نے مگر براہ راست ٹیلی فون کالوں کے ذریعے میری سادگی کا مذاق اڑایا۔ ان میں سے پرخلوص احباب نے فکرمندی سے اس خیال کا اظہار بھی کیا کہ عملی صحافت سے کنارہ کش ہوا یہ گوشہ نشین ”محلاتی سازشوں“ پر نگاہ رکھنے کے بجائے ”اصولوں“ کی الفت میں گرفتار ہوچکا ہے۔یہ دیکھنے سے قاصر ہے کہ ہماری اشرافیہ کے فیصلہ ساز حلقے عمران خان کی اقتدار میں واپسی کے راستے مسدود کرنے کو ڈٹ چکے ہیں۔14مئی 2023کے دن لہٰذا پنجاب اسمبلی کے انتخابات ہونا ممکن نہیں۔انہیں ٹالنے کے لئے ہر حربہ استعمال کیا جائے گا۔
صبح اٹھتے ہی یہ کالم لکھنا میری اولین ترجیح ہوتا ہے۔ اسی باعث دوستوں کے ساتھ بحث میں الجھنے سے گریز کیا۔محلاتی سازشوں کی اہمیت نظرانداز کرنا ملکی سیاست کے دیرینہ شاہد کے لئے ممکن نہیں۔ ”محلاتی سازش“ مگر واقعتا بھرپور انداز میں عمل پیرا ہوئی ہوتی تو منگل کے دن آیا فیصلہ بھی ہم عامیوں کو ”مبہم“ محسو س ہوتا۔ جو فیصلہ آیا ہے اس میں لیکن ابہام کی گنجائش نکالنا ممکن ہی نہیں۔مذکورہ گنجائش اگر موجود ہوتی تو فیصلہ آجانے کے ایک دن بعد الیکشن کمیشن سپریم کورٹ کی ہدایات کے عین مطابق انتخابی شیڈول کا اعلان نہ کردیتا۔
دوست مگر مصر ہیں کہ 14مئی کو پنجابی محاورے والی ”آئی“ ٹالنے کو حکومت کے پاس اب بھی کئی چالیں موجود ہیں۔حکومت ان سب کو ہر صورت استعمال کرے گی۔ شہباز شریف ممکنہ چالیں چلتے ہوئے ”توہین عدالت“ کے ارتکاب کا رسک بھی لے سکتے ہیں۔سپریم کورٹ نے یہ طے کررکھا ہے کہ وزیر اعظم کی جانب سے آیا ہر فیصلہ وفاقی کابینہ کی اجتماعی ذمہ داری تصور ہوگی۔ ”توہین عدالت“کے لہٰذا وہ ممکنہ طورپر تنہا ذمہ دار نہیں ہوں گے۔ ان کی کابینہ میں شامل ہر وزیر بھی ان کا ”شریک ملزم“شمار ہوگا۔سپریم کورٹ اپنے فیصلے کے اطلاق کو ڈٹ گیا تو موجودہ کابینہ اجتماعی طورپر گنہگار ٹھہرائی جاسکتی ہے۔
آپ سے کیا چھپانا۔ ”محلاتی سازش“ کی تفصیلات سنیں تو دل میں سوال اٹھا کہ ”رادھا“ یعنی موجودہ تناظر میں محترم شہباز شریف اگر رقص بسمل کو آمادہ ہو بھی گئے تو ”نومن تیل“ بھی میسر ہوگا یا نہیں۔جی داری کے بغیر رقص بسمل ممکن ہی نہیں۔اس حقیقت کو ذہن میں رکھوں تو شہباز شریف کی قیادت میں بھان متی کا کنبہ دکھتی حکومت اقتدار سنبھالنے کے پہلے ہی دن سے شکست خوردہ محسوس ہورہی ہے۔اقتدار سنبھالتے ہی بجٹ تیار کرنے کی مشقت برداشت کرنے کے بجائے اسے فوری انتخاب کی جانب بڑھنا چاہیے تھا۔وکٹ کے دونوں طرف کھیلتے قمر جاوید باجوہ نے مگر انہیں ”ریاست بچانے“ کی راہ پر دھکیل دیا۔ وہ راہ بہت دشوار تھی۔اس پر سفر کرتے ہوئے اس حکومت کے پاﺅں شل ہوچکے ہیں۔آئی ایم ایف ابھی تک رام نہیں ہوا۔دوست اور برادر ممالک سے وہ سہارے بھی نہیں ملے جس کی ریاست پاکستان برسوں سے عادی ہوچکی ہے۔معاشی حقائق واضح عندیہ دے رہے ہیں کہ ہمارے ہاں مہنگائی میں مزید اضافہ ہوگا۔ حالیہ بارشیں اور ژالہ باری غذائی بحران کو بھی گھمبیر تر بنائیں گی۔ ہماری خلقت معصوم معاشی عذاب کا ”ماہرین“کی طرح ”تجزیہ“ کرنے کی سکت سے محروم ہے۔بازار میں رونق لگی نظر نہ آئے تو فقط ”سلطان“ ہی کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتی ہے۔موجودہ حکومت میں شامل کائیاں سیاستدانوں کو اس کا بخوبی اندازہ ہے۔اسی باعث انتخابات سے گھبرا رہے ہیں۔انہیں خبر ہے کہ معاشی مشکلات سے گھبرائے افراد اپنے دلوں میں جمع ہوئے غصے کو موجودہ حکومت میں شامل سیاسی جماعتوں کے نامزد کردہ امیدواروں کے خلاف ووٹ دیتے ہوئے ظاہر کریں گے۔عمران خان اور ان کی جماعت اس کا بھرپور فائدہ اٹھائیں گے۔پنجاب اسمبلی کے انتخابات سے فرار کی کوششیں اسی صورت حال میں لوگوں کے دلوں میں موجود غصے کو لیکن مزید بھڑکائیں گی۔پنجاب اسمبلی کے انتخاب لہٰذا سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق کروانے میں رکاوٹیں کھڑی کرنا سیاسی اعتبار سے مسلم لیگ (نون) کے لئے ”خودکش“ حملوں کے مترادف ہوگا۔
حال ہی میں پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے ممکنہ نتائج کے حوالے سے سروے کرنے والے کئی غیر سرکاری اداروں نے جو نقشے دکھائے ہیں وہ حیران کن ہیں۔یہ سروے تحریک انصاف کو پنجاب اسمبلی کی 220سے 230کے درمیان نشستیں دے رہے ہیں۔مسلم لیگ (نون) کو ان میں سے ایک سروے بھی 50سے زیادہ نشستیں دینے کو آمادہ نہیں ہوا۔ فیلڈ میں جائے بغیر سروے کے دکھائے نقشوں پر اعتراض کی مجھے عادت نہیں۔سیاست کا طالب علم اگرچہ یہ نقشے دیکھتے ہوئے اکثر یہ سوچتا ہے کہ اندھی نفرت ومحبت میں تقسیم ان میں نظر نہیں آرہی۔آئندہ انتخابات کو بلکہ تحریک انصاف کے لئے واک اوور بتایا جارہا ہے۔اسی باعث ”آزاد“ حیثیت میں انتخابی میدان میں اترے افراد کسی شمار ہی میں نہیں آرہے۔
کسی بھی انتخاب کی مخصوص حرکیات یا Dynamicsہوتی ہیں۔کسی جماعت کی حمایت میں چلی ”ہوا“ اس ضمن میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔”ہوا“ مگر ”تخت یا تختہ“والی فضا بنادے تو معاملہ بگڑ بھی جاتا ہے۔گزشتہ دس سالوں سے تحریک انصاف کے خلاف ڈٹی سیاسی جماعتوں اور دھڑوں کے لئے عمران خان کی ”ہوا“ کے روبرو سرنگوں ہونا ممکن ہی نہیں۔14مئی کا انتخاب ٹالنے میں اگر وہ ناکام ہوگئے تو میدان میں ”اب نہیں تو کبھی نہیں“ والے منظر رونما ہوں گے۔انتخابات ان کی وجہ سے ”صاف وشفاف“ ہوئے نظر نہیں آئیں گے۔
اپنی حمایت میں چلی ”ہوا“ کے ہوتے ہوئے بھی عمران خان بدھ کی شام تک یہ وعدہ کرنے سے گریز کرتے رہے کہ وہ 14مئی کے انتخابات کو بخوشی تسلیم کریں گے۔اس ضمن میں ان کی جانب سے اختیار کردہ سوچ کو بھی سنجیدگی سے لیناہوگا۔