پاکستان

سپریم کورٹ میں ’تقسیم‘: وہ کیس جس نے پاکستان میں نئے بحران کو جنم دیا

Share

حال ہی میں پاکستان کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس، جسٹس عمر عطا بندیال، کے لیے ’ون مین شو‘ جیسے الفاظ استعمال ہوئے۔

یہ الفاظ پہلی مرتبہ سوشل میڈیا پر کسی سیاسی پارٹی کے رہنما یا کارکن نے استعمال نہیں کیے بلکہ سپریم کورٹ کے ہی دو سینیئر ججوں کی جانب سے ایک فیصلے میں لکھے گئے اختلافی نوٹ میں تحریر کیے گئے۔

ججوں کی جانب سے ان الفاظ کے استعمال کے بعد سپریم کورٹ میں تقسیم کا تاثر گہرا ہوا اور بعدازاں سیاسی پارٹیوں سمیت بار کونسلز کے رہنماؤں نے بھی اس حوالے سے بات کی۔ از خود نوٹس اور بینچوں کی تشکیل کے اختیارات کے ’غیر منصفانہ‘ استعمال پر چیف جسٹس اپنے ہی ساتھی ججز کی تنقید کی زد میں آئے اور پھر پارلیمان نے ان کے فیصلوں کے خلاف دو قراردادیں منظور کیں۔

قانونی ماہرین کے مطابق ملک کی اعلیٰ عدلیہ کے ججز اس وقت دو گروپس میں منقسم دکھائی دیتے ہیں۔ مگر ایسا کیا ہوا کہ معاملات اس نہج تک پہنچ گئے کہ ججز نے ایک دوسرے کے خلاف اپنے تاثرات کے اظہار کو فیصلوں کا حصہ بنانا شروع کر دیا؟

یہ کہانی تھوڑی سی پیچیدہ ہے مگر اسے سمجھنے کے لیے سپریم کورٹ میں پنجاب میں انتخابات سے متعلق کیس کی سماعتوں اور فیصلوں کا جائزہ لینا ہی کافی ہو گا۔

سپریم کورٹ میں ججوں کی مجموعی تعداد 17 ہے جبکہ وفاقی شریعت کورٹ کے دو ایڈہاک ججز بھی سپریم کورٹ کا حصہ ہوتے ہیں تاہم فی الحال چیف جسٹس عمر عطا بندیال سمیت سپریم کورٹ میں موجودہ ججوں کی تعداد 15 ہے۔

چیف جسٹس آف پاکستان کے بعد اس وقت سپریم کورٹ میں دوسرے سینیئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ہیں۔

سپریم کورٹ کے انتظام کو چلانے کے لیے چیف جسٹس کے پاس غیر معمولی اختیارات ہیں۔ وہ پاکستان کی حدود میں کسی بھی معاملے کا نوٹس لے کر کیس شروع کر سکتے ہیں جسے از خود یا سوموٹو اختیار بھی کہا جاتا ہے۔

اس کے علاوہ کون سا جج کس کا کیس سنے گا اور کن ججز پر مشتمل بینچ کب تشکیل دینا ہے، ان جیسے کئی انتظامی نوعیت کے فیصلے بھی چیف جسٹس ہی کرتے ہیں۔

خیال رہے کہ از خود نوٹس کا اختیار آئین کے آرٹیکل 184/3 کے تحت ہے۔ اس شق کے مطابق سپریم کورٹ کو کسی بھی ایسے واقعے سے متعلق از خود نوٹس لینے کا اختیار حاصل ہے جو مفاد عامہ کا معاملہ ہو یا پھر کہیں بنیادی حقوق پامال ہو رہے ہوں۔

سپریم کورٹ
،تصویر کا کیپشنچیف جسٹس عمر عطا بندیال (دائیں) اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ (بائیں)۔ سپریم کورٹ کے دو سب سے سینیئر ججز

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے فروری میں پنجاب میں انتخابات کے انعقاد کے معاملے پر اس وقت ازخود نوٹس لیا جب ایک اور مقدمے میں دو ججوں نے رائے دی کہ الیکشن کے معاملے پر بات ہونی چاہیے۔

چیف جسٹس نے اپنا اختیار استعمال کرتے ہوئے نوٹس لیا، نو ججز پر مشتمل ایک بڑا بینچ تشکیل دیا گیا اور یوں کیس کی سماعت کا آغاز ہوا۔

تاہم وفاق میں حکمراں اتحاد کی جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز نے اس بینچ میں شامل دو ججوں پر اظہار عدم اعتماد کیا جس کے بعد ان دونوں ججوں یعنی جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر اکبر نقوی کو بینچ سے علیحدہ ہونا پڑا۔

جس کے بعد یہ نو رکنی بینچ سات رکنی بینچ ہو گیا۔ مگر اس کے بعد ہونے والی سماعت میں سات میں سے مزید دو ججوں، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی نے یہ کہہ کر خود کو بینچ سے علیحدہ کر دیا کہ چیف جسٹس اس معاملے پر سوموٹو نہیں لے سکتے۔ اور یہ کہ چیف جسٹس کے سوموٹو نوٹس لینے کے اختیارات کو ریگولیٹ کرنے کی ضرورت ہے۔

مگر چیف جسٹس نے سماعت جاری رکھنے کا فیصلہ کیا اور یوں ابتدا میں نو ججز کا بینچ اب پانچ ممبرز کے ساتھ سماعت کر رہا تھا۔

اس بینچ نے یکم مارچ کو اکثریتی فیصلے (تین، دو) کی بنیاد پر الیکشن کمیشن کو حکم دیا کہ وہ انتخابات کا شیڈول جاری کرے۔ اس فیصلے کے بعد پنجاب میں انتخابات 30 اپریل کو ہونا قرار پائے۔

مگر اس پانچ رکنی بینچ کے بھی دو ججز جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس منصور علی شاہ نے اس فیصلے سے اختلاف کیا۔ ان ججز نے چیف جسٹس کے لیے ’ون مین شو‘ جیسے سخت الفاظ استعمال کیے، ان کے سوموٹو اختیارات پر تنقید کی اور حالیہ مقدمات کے لیے اس حق کے استعمال کو سیاسی نظام میں مداخلت سے تشبیہہ دی۔

اعلیٰ عدلیہ میں موجود تقسیم اب کُھل کر سامنے آ چکی تھی۔ چیف جسٹس نے تو اس فیصلے کو تین، دو کا اکثریتی فیصلہ کہا مگر چند سینیئر ججز نے کہا کہ نہیں، اس نو رکنی بینچ سے پیچھے ہٹنے والے دو ججز یعنی جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی کے اختلافی نوٹ بھی کیس کے حکمنامے کا حصہ بنائے جائیں۔ اس طرح یہ چار، تین کا فیصلہ بنے گا اور نتیجہ مختلف ہو گا۔

بہرحال چیف جسٹس نے اپنے فیصلے پر ہی عمل کیا اور سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن نے پنجاب میں الیکشن کا شیڈول جاری کر دیا۔

مگر چند روز ہی گزرے تھے کہ حکومت نے انتخابات کے لیے درکار فنڈز کی عدم دستیابی اور سکیورٹی صورتحال کو بنیاد بنایا جس کے باعث الیکشن کمیشن نے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کروانے سے معذرت کر لی۔

سابق وزیر اعظم عمران خان کی جماعت اس فیصلے کے خلاف درخواست لے کر عدالت پہنچ گئی اور معاملہ ایک بار پھر سپریم کورٹ میں آ گیا۔ چیف جسٹس نے ایک نیا بینچ بنا دیا جو پانچ ججز پر مشتمل تھا۔

اس کیس کی سماعت شروع ہی ہوئی تھی تو چیف جسٹس کے بعد سپریم کورٹ کے سینیئر ترین جج قاضی فائز عیسیٰ نے ایک اور کیس کی سماعت کے بعد فیصلہ دیا جس میں انھوں نے کہا کہ جب تک چیف جسٹس کے سوموٹو اختیار سے متعلق رولز واضح نہیں ہو جاتے، تب تک تمام سوموٹو کیسز پر سماعت روک دی جائے۔

ان کے اس فیصلے میں شامل دوسرے جج جسٹس امین الدین تھے۔ وہ اس نئے پانچ رکنی بینچ کا حصہ بھی تھے جس نے اب الیکشن کمیشن کے انتخابات نہ کرانے کی مذمت کی تھی۔

کیس کی اگلی سماعت کے دوران انھوں نے بینچ کا حصہ بننے سے معذرت کر لی۔ اگلی صبح سماعت شروع ہوئی تو پتا چلا کہ بینچ پھر ٹوٹ گیا ہے۔ اور اب کی بار ایک اور جج یعنی جسٹس جمال مندوخیل چیف جسٹس کے بینچ بنانے اور سوموٹو اختیار پر اختلاف کرتے ہوئے بینچ سے الگ ہو گئے ہیں۔

مگر چیف جسٹس نے تین رکنی بینچ کے ساتھ ہی سماعت جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔

اس تین رکنی بینچ نے متفقہ طور پر الیکشن کمیشن کا انتخابات ملتوی کرنے کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا اور پنجاب میں 14 مئی کو الیکشن کروانے کا حکم دیا۔

جس روز یہ فیصلہ سامنے آیا اسی روز چیف جسٹس نے ایک اور بینچ بنایا۔ چھ ممبرز کے اس بینچ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا سوموٹو اختیارات کے قواعد سے متعلق فیصلہ بھی خارج کر دیا گیا۔

شہباز شریف
،تصویر کا کیپشنوزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ اپنے فیصلے پر نظرثانی کرے اور فل کورٹ بنایا جائے جس کا فیصلہ ہمیں قبول ہو گا

’ججز کے درمیان اختلافات واضح ہوئے‘

جب یہ کیس سپریم کورٹ میں جاری تھا تو ایسے وقت میں حکومت ایک بل سامنے لے آئی جس کے تحت چیف جسٹس کے اختیارات کو محدود کرنے کی تجویز دی گئی۔

اس بل کی ٹائمنگ پر تحریک انصاف نے سوالات اٹھائے۔

قانونی ماہرین کے مطابق عدالتوں، خاص طور پر سپریم کورٹ، میں بننے والے ان بینچوں کے ججز کی آپس میں اختلاف رائے عام بات ہے۔ یہ اختلاف حکمنامے کا حصہ ہوتا ہے مگر فیصلہ اکثریت کا تسلیم کیا جاتا ہے۔

اسی طرح بینچ ٹوٹنا بھی عام سی بات ہے اور اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں، مثلاً کوئی جج کسی بھی وجہ سے بینچ کا حصہ نہیں رہنا چاہتے تو وہ معذرت یا ’ریکیوز‘ کر سکتے ہیں۔

بی بی سی نے اسی بارے میں سابق اٹارنی جنرل شاہ خاور سے بات کی۔ انھوں نے اتفاق کیا کہ حالیہ دنوں میں سپریم کورٹ دو کیمپس میں منقسم نظر آ رہی ہے اور ججز کے درمیان اختلافات واضح ہوئے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’جیسا کہ نو ججز پر مشتمل بینچ پنجاب کے انتخابات کے لیے بنایا گیا جس میں سے ججز الگ ہوئے، اس سے اختلاف واضح ہو گیا۔ دوسرا جسٹس قاضی فائز عیسی کے زیرسماعت مقدمے کو سپریم کورٹ کے چھ رکنی بینچ نے نمٹا دیا تو اس کی مثال نہیں ملتی۔ کیونکہ ایک بینچ کے زیرِ سماعت کیس کو کوئی دوسرا بینچ نہیں نمٹا سکتا۔‘

شاہ خاور مسلم لیگ نواز سمیت چند دیگر سیاسی جماعتوں کی اس رائے سے اتفاق کرتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے بعض ججز کو اہم مقدمات سے دور رکھا جاتا ہے۔

’یہ حقیقت ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس طارق مسعود کو اہم آئینی مسائل سے متعلق مقدمات کے لیے بنے بینچز کا حصہ نہیں بنایا جاتا۔ اسی طرح کے ایک کیس میں بھی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے مداخلت کی گئی اور پھر یہ فیصلہ کیا گیا کہ سوموٹو نوٹس کا اختیار صرف چیف جسٹس کے پاس ہے۔‘

انھوں نے حال ہی میں حکومت کی جانب سے قومی اسمبلی میں پاس کیے گئے بل کا حوالہ دیا جو سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کے اختیارات سے جڑے قواعد میں تبدیلی سے متعلق ہے۔

انھوں نے کہا: ’آئین کے آرٹیکل 184/3 (جو سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کے اختیار سے متعلق ہے) کی بات ہونی چاہیے، اس آرٹیکل پر طویل عرصے سے بحث ہو رہی ہے۔ اور میرے خیال میں حکومت نے سپریم کورٹ قواعد میں تبدیلی کے حوالے سے جو بل پاس کرایا ہے وہ بہت اہم اور ضروری ہے۔‘

’اس کا وقت غلط ہو سکتا ہے، مگر مطالبہ بالکل درست ہے۔‘

دوسری جانب قانونی ماہرین ہوں یا سیاسی تجزیہ کار، سبھی اس صورتحال کو آئینی بحران قرار دے رہے ہیں۔

ماہرین کہتے ہیں کہ اگر اہم ریاستی اداروں کے سربراہان دانشمندی کا مظاہرہ نہیں کریں گے تو ملک میں پہلے سے جاری سیاسی پولرائزیشن میں مزید شدت آ سکتی ہے جس سے عوام کا اداروں پر اعتماد متزلزل ہو سکتا ہے۔